اس نے اپنی زندگی کی آخری تقریر کاآغازبسم اللہ الرحمان الرحیم سے کیا۔ سخت گرمی اور دھوپ کے باوجود سینکڑوں لوگ اس کی تقریر سننے آئے تھےاورکچھ لو گ نماز جمعہ ادا کرکے اس جلسے کے عقب میں جگہ تلاش کررہے تھے جہاں حاضرین کو دھوپ سے بچانے کے لئے شامیانے لگائے گئے تھے۔ اس چلچلاتی گرمی میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئےمقرر نے براہوی زبان میں صرف اتنا ہی کہا’’بلوچستان کے بہادر لوگو‘‘ اور ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے بعد یہ جلسہ مقتل بن گیا، جہاں لاشوں اور زخمیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ زندگی کی آخری تقریر میں بلوچستان کے بہادر لوگوں سے مخاطب ہونے والے اس بہادر انسان کا نام میر سراج رئیسانی تھا جس نے جولائی 2012میں دہشت گردوں کے حملے میں اپنے بیٹے میر حقمل رئیسانی کو کھویا تھا اور اس واقعے کے بعد خاموشی اختیار کرنے کے بجائے کھلے عام دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو للکارنا شروع کردیا تھا۔ میر سراج رئیسانی نے بلوچستان متحدہ محاذ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی تھی جس کے پلیٹ فارم سے گزشتہ سال انہوں نے یوم آزادی پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پرچم بلوچستان میں لہرایا اور شاید یہی وہ اعزاز تھا جو دشمنوں کے سینے میں کانٹا بن کر چبھا اور اس بہادر پاکستانی کی آواز خاموش کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
میر سراج رئیسانی نے اپنی تنظیم کو بلوچستان عوامی پارٹی میں ضم کیا توبہت سے دوستوں اور رشتہ داروں نے سمجھایا کہ یہ سیاسی غلطی مت کرو لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی اور بلوچستان کے حلقہ پی بی 35سے الیکشن میں حصہ لینے کافیصلہ کرلیا۔ سراج رئیسانی ایسے علاقوں میں بھی انتخابی مہم چلا رہے تھے جو پاکستان دشمنوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ خطرات اور دھمکیوں کے باوجود ہر جگہ پاکستان کا پرچم اٹھا کر پہنچ جاتے کیونکہ وہ بلوچستان میں کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ پاکستان کی جنگ لڑرہےتھے اور اس جنگ میں دشمن نے بڑے بزدلانہ طریقے سے ایک خود کش حملہ آور کے ذریعہ انہیں شہید کردیا۔ جب یہ حملہ ہوا تو میں پشاور سے اسلام آباد واپس آرہا تھا۔ پشاور میں ہارون بلور اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر حاجی غلام احمد بلور اور الیاس بلور کے گھر فاتحہ اور دعا کے بعد روانہ ہوا تو اطلاع ملی کہ بنوں میں اکرم درانی صاحب پر حملہ ہوا ہے ان کے کچھ ساتھی شہید ہوگئے لیکن وہ محفوظ رہے۔
صوابی کے قریب میری گاڑی موٹر وے پر ایک جلوس میں پھنس گئی۔ یہ مسلم لیگ(ن) کا جلوس تھا جو نواز شریف کے استقبال کے لئے پشاور سے لاہور جارہا تھا۔ چھوٹی بڑی گاڑیوں کا یہ جلوس کافی بڑا تھا جس میں بلا مبالغہ ہزاروں افراد شریک تھے۔ اس جلوس کے اندر سے راستہ بنا کر آگے نکلنے میں آدھ گھنٹہ لگ گیا اور جیسے ہی اسلام آباد میں داخل ہوا تو کوئٹہ سے ایک دوست نے اطلاع دی کہ مستونگ میں میر سراج رئیسانی پر حملہ ہوا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی مجھے ان کا بیٹا حقمل اور والد غوث بخش رئیسانی یاد آئے جو اس قسم کے حملوں کا نشانہ بنے۔ دفتر پہنچا اور مختلف ٹی وی چینلز کی اسکرینوں پر میر سراج رئیسانی پر حملے کی خبر تلاش کی لیکن یہ خبر نظر نہیں آئی۔ تمام ٹی وی چینلز نواز شریف کے استقبال کے لئے مسلم لیگ (ن) کی ریلیوں کو دکھا رہے تھے۔ پھر میں نے ان ٹی وی اسکرینوں پر دیکھا کہ مسلم لیگی قیادت کنٹینر پر چڑھ چکی ہے۔ مجھے 2014یاد آگیا جب میرے یہ مسلم لیگی دوست کنٹینر پر چڑھنے والوں کو جمہوریت کا دشمن قرار دیتے تھے، بہرحال نواز شریف کا پرامن استقبال مسلم لیگ (ن) کا آئینی و سیاسی حق تھا لیکن نگراں حکومت نے انہیں روکنے کے لئے وہی ہتھکنڈے استعمال کئے جو 2014 میں شہباز شریف کی حکومت نے عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لئے استعمال کئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور پنجاب پولیس میں جگہ جگہ پنجہ آزمائی کی خبروں کے درمیان مجھے ایک پٹی نظر آئی’’مستونگ میں سراج رئیسانی پر حملہ، پانچ افراد جاںبحق‘‘۔
تھوڑی دیر بعد خبر دی گئی سراج رئیسانی سمیت دس افراد جاں بحق اور پھر یہ خبر غائب ہوگئی۔ ایک دفعہ پھر ٹی وی چینلز لاہور میں نواز شریف کے استقبال کی تیاریوں میں کھو گئے۔ میری ہمت نہیں پڑرہی تھی کہ میں حاجی لشکری رئیسانی کو فون کرکے اظہار افسوس کروں۔ اب میں اپنے دفتر میں بیٹھا کوئٹہ اور مستونگ میں فون کررہا تھا اور مجھے بتایا جارہا تھا کہ میر سراج رئیسانی پر حملے میں سو سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں لیکن ٹی وی چینلز پر یہ تعداد بیس بتائی جارہی تھی۔ دوسری طرف 13جولائی کے دن جیو نیوز پر خصوصی نشریات میں شمولیت کے لئے ساتھی اصرار کررہے تھے۔ دل بہت مضطرب تھا، لاہور سے پولیس اور مسلم لیگیوں کے مابین جھڑپوں کی خبریں آرہی تھیں اور مستونگ میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہوگیا تھا۔ جب ٹی وی چینلز نے جاں بحق افراد کی تعداد 40 بتانا شروع کی تو پھر میں نے ایک لائیو پروگرام میں یہ گزارش کی کہ خدارا بلوچستان والوں پر بھی کچھ توجہ دو۔ کم از کم اتنا کردیتے کہ لاہور کو اسی فیصد اور مستونگ کو 20فیصد کوریج دے دیتے لیکن اس دن ریٹنگ کی دوڑ تھی۔ 131بلوچوں کی لاشیں پیچھے رہ گئیں اور ریٹنگ آگے نکل گئی۔ پاکستان کا میڈیا پنجاب کا میڈیا بن کر رہ گیا۔ میڈیا نے جو کیا وہ غلط تھا لیکن جو میڈیا کے ساتھ ہوا وہ بھی غلط تھا۔ نواز شریف کے ساتھ ابوظہبی سے لاہور آنے والے صحافیوں کے ساتھ ائیر پورٹ پر سیکورٹی کے اداروں نے بدتمیزی کی اور دھمکیاں دیں۔ منیزے جہانگیر نے نواز شریف کے ساتھ ہونے والی دھکم پیل کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنے کی کوشش کی تو ایک سیکورٹی اہلکار نے اپنا پستول نکال لیا۔ 13جولائی کا دن پاکستان میں جمہوریت اور آئین و قانون کے لئے ایک سیاہ دن تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کی نگراں حکومت کے دور میں آئین پاکستان کی دفعہ15اور 16کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی جو شہریوں کو نقل و حرکت اور پرامن سیاسی سرگرمیوں کا حق دیتی ہے۔ دفعہ 19کی خلاف ورزی ہوئی جو آزادی اظہار کا حق دیتی ہے ۔ مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی لاہور میں پولیس کی طرف سے لاقانونیت کا نوٹس لیں گے اور بےبسی کی صورت میں استعفیٰ دیدیں گے لیکن مجھے اپنی اس غلط فہمی پر اپنے آپ سے شرمندہ ہونا پڑا۔ یہ وہ ڈاکٹر صاحب نہیں رہے جنہیں میں عرصے سے جانتا ہوں۔
افسوس کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ تاریخ 13جولائی 2018کو شروع نہیں ہوتی۔ اس تاریخ میں 17جون 2014کا دن بھی آتا ہے جب پنجاب پولیس نے عوامی تحریک پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ اسی تاریخ میں 7نومبر 2007بھی آتا ہے جب مشرف دور میں میڈیا پرپابندیاں لگائی گئیں۔ جو کام مشرف اور ن لیگ کی حکومتوں نے کئے وہ 13جولائی کو ن لیگ کے ساتھ ہوئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نواز شریف کے خلاف دو ریفرنسوں کی سماعت جیل کے اندر ہوگی۔ یہ غیر قانونی ہے، پہلے نواز شریف کو اس ملک کے خفیہ اداروں نے آئی جے آئی کا سربراہ بنایا تھا اب ایک نئی آئی جے آئی کی سربراہی عمران خان کو سونپی جارہی ہے اور عمران خان کا حشر نواز شریف سے مختلف نہیں ہوگا۔ خدا کے لئے تاریخ سے سبق سیکھو اور پاکستان پر رحم کرو۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ