پاکستان میں ہر طرف یوٹرن کا شور تھا۔ مخالفین چیخ چیخ کر پوچھ رہے تھے کہ عمران خان کی حکومت نے اپنے پہلے تین مہینوں میں یوٹرن پر یوٹرن لینے کے سوا اور کیا ہی کیا ہے؟ وہ سب جن کے ادوارِ حکومت میں پاکستان کو قرضے لے کر چلایا جاتا تھا وہ عمران خان کو پوچھ رہے تھے کہ تم تو کہتے تھے کہ میں غیرملکی قرضے لینے کے بجائے خودکشی کر لوں گا اب خود قرضوں کی خاطر ایک ملک سے دوسرے ملک کا چکر کیوں لگا رہے ہو؟ طعنہ زنی کے اس کھیل میں ہم نے بھی خوب مزے لئے اور عمران خان کی وہ سب پرانی تقریریں نکال لیں جن میں وہ غیرملکی قرضوں کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے اور شاید اسی طعنہ زنی کے جواب میں خان صاحب کو یہ کہنا پڑا کہ میں نے یوٹرن نہیں لیا بلکہ حکمت عملی تبدیل کی ہے لیکن ہم کہاں ماننے والے تھے۔ ہم نے جھوم جھوم کر عمران خان کو یوٹرن کے طعنے دیئے اور سیاسی مخالفین نے بھی عمران خان سے ان سب وعدوں کا حساب پہلے سو دن میں مانگنا شروع کر دیا جن کو پورا کرنا پانچ سال میں بھی بہت مشکل ہے۔ عمران خان کے پہلے سو دن پورے ہونے میں چند ہی دن باقی تھے کہ 27نومبر کو واہگہ بارڈر کا دروازہ کھلا اور اس دروازے سے لمبا تڑنگا نوجوت سنگھ سدھو ’’واہ میرے یار عمران واہ‘‘ کے نعرے لگاتا ہوا لاہور پہنچا اور یہاں سے ہنستا مسکراتا ہوا کرتار پور صاحب پہنچا جہاں 28نومبر کو وزیر اعظم عمران خان نے کرتار پور امن راہداری کا افتتاح کیا۔ اس امن راہداری کو کھولنے پر دنیا بھر کے سکھ عمران خان کے شکر گزار ہیں اور نوجوت سنگھ سدھو بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان نے پوری کائنات ہماری جھولی میں ڈال دی ہے۔ 2013ءمیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی کرتار پور صاحب امن راہداری کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان آئے اور نواز شریف کو ایک جپھی ڈال کر چلے گئے لیکن کرتار پور امن راہداری نہ کھل سکی لیکن عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے تین ماہ کے اندر اس امن راہداری کو کھول دیا ہے۔ اس امن راہداری کے افتتاح پر عمران خان کو دنیا بھر میں شاباش مل رہی ہے۔ عمران خان نے نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کسی اصول پر سمجھوتہ کیا نہ کوئی دباؤقبول کیا، کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف بھرپور آواز بھی بلند کی لیکن ساتھ ہی ساتھ کرتارپور امن راہداری کا افتتاح کر کے مہاتما گاندھی کے پوتے ڈاکٹر راج موہن گاندھی کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ میں عمران خان کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ اس کارنامے پر عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کی گواہی یا تائید کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپوزیشن کی ایک اہم شخصیت نے آف دی ریکارڈ مجھے کہا کہ کرتار پور امن راہداری سے سکھوں کو نہیں بلکہ اہل پاکستان کو بھی بہت فائدہ ہو گا کیونکہ پاکستان میں سکھ یاتریوں کی آمد و رفت میں اضافے سے پاکستان کی معیشت کو بہت سہارا ملے گا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ماضی میں پاکستان کی حکومتوں نے بار بار اس راہداری کو کھولنے کی کوشش کی لیکن مودی حکومت نے اس معاملے میں دلچسپی نہ لی۔ اس مرتبہ مودی حکومت کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ بھارت میں الیکشن قریب آ چکے ہیں اور نوجوت سنگھ سدھو نے کرتارپور صاحب کے معاملے پر بھارت میں وہ ہاہاکار مچائی کہ مودی حکومت کو بھی خاموشی کے ساتھ سر جھکانا پڑا اور گورداسپور کی طرف سے بارڈر کھولنا پڑا۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سدھو میں جپھی نہ پڑتی تو یہ معاملہ اتنا اجاگر نہ ہوتا اور کروڑوں سکھوں کا خواب اتنی جلدی حقیقت بھی نہ بنتا۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ کروڑوں سکھ عمران خان سے اندھی محبت کرنے لگے ہیں۔ برطانیہ کے سکھوں نے یہ پیشکش بھی کر دی ہے کہ اگر پاکستان میں کسی ڈیم کو بابا گورو نانک کے نام سے موسوم کر دیا جائے تو وہ ڈیم کے لئے تمام رقم کا بندوبست بھی کر دیں گے۔ کرتار پور صاحب کی سکھوں کے لئے وہی اہمیت ہے جو مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ کی ہے لہٰذا کرتارپور امن راہداری کے کھلنے سے نوجوت سنگھ سدھو بھی دنیا بھر کے نانک نام لیوائوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ کرتار پور امن راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے آنے والی ایک بھارتی صحافی کا کہنا تھا کہ سدھو نے ایک طرف عمران خان کے سیاسی مددگار کا کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف خود انہیں بھارت کی سیاست میں بہت فائدہ ہو گا اور وہ بڑی آسانی سے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں۔ سدھو کے وزیر اعلیٰ بننے سے بھارتی پنجاب میں کانگریس کی واپسی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ 1984ء میں سکھوں کے خلاف آپریشن بلیو اسٹار اور پھر وزیر اعظم اندراگاندھی کے قتل کے بعد کانگریس پنجاب میں بہت کمزور ہو گئی تھی۔ نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز بی جے پی سے کیا تھا اور 2004 میں انہوں نے امرتسر سے پہلا الیکشن بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑا اور جیت گئے۔ سدھو کی زندگی میں بڑے اتار چڑھاؤ آئے۔ اُنہیں قتل کے ایک مقدمے میں پھنسا دیا گیا تھا جس کے باعث انہیں اپنی نشست بھی چھوڑنی پڑی لیکن بعد ازاں عدالت سے ریلیف لے کر وہ ضمنی الیکشن میں دوبارہ کامیاب ہو گئے۔ سدھو کو بی جے پی نے 2016ء میں راجیہ سبھا میں بھیج دیا تاکہ وہ لوک سبھا سے بار بار جیت کر وزارت اعلیٰ پنجاب کے امیدوار نہ بنیں۔ بی جے پی کے ساتھ بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث سدھو نے 2017ء میں بی جے پی چھوڑ دی اور راجیہ سبھا کو بھی گڈبائے کہہ دیا۔ انہوں نے کانگریس جوائن کر لی اور ایک بڑا سیاسی خطرہ مول لیا لیکن کانگریس کے ٹکٹ پر بھی الیکشن جیت گئے۔ نوجوت سنگھ سدھو صرف پنجاب نہیں بلکہ پورے بھارت میں کانگریس کا نیا چہرہ بن چکے ہیں۔ راہول گاندھی کو سدھو کی وجہ سے سکھوں کی حمایت واپس مل جائے تو وہ سکھوں اور مسلمانوں کی مدد سے بھارت کی سیاست کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ بی جے پی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں نے مودی کو مضبوط لیکن بھارت کو کمزور کیا۔ پنجاب میں کانگریس کی واپسی سے مودی کمزور لیکن بھارت مضبوط ہو گا۔ کانگریس کو جموں و کشمیر کے مسئلے پر بھی اپنی روایتی سیاست کو چھوڑ کر کوئی نیا راستہ تلاش کرنا ہو گا تاکہ کرتارپور اور گورداسپور کے درمیان راہداری کے بعد جموں اور سیالکوٹ میں بھی راہداری کو کھولا جائے اور مظفر آباد سرینگر راہداری کو بھی امن و خوشحالی کی راہداری بنایا جائے۔ علامہ اقبالؒ نے بابا گورو نانک کے بارے میں کہا تھا ؎
آہ! شودر کیلئے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نورِ ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
آج بابا نانک کے نام لیوا خوشی سے دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ نانک اور گوتم کے نام لیوائوں کا پاکستان میں آنا جانا شروع ہو جائے تو صرف عمران خان کا نہیں ہم سب کا فائدہ ہے لہٰذا عمران خان کو کرتارپور صاحب سے مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے لئے مزید امن راہداریوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ جیلیں بھرنے سے نیا پاکستان نہیں بنے گا امن راہداریوں سے نیا پاکستان بنے گا۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ