ہیڈ پٹواری نے ابھی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ نیا تحصیل دار اپنے رقبے پر آیا تھا تو نواب صاحب آپے سے باہر ہو گئے اور گالیاں دینے لگے۔
”وہ حرام زادہ ہمیں ملنے کیوں نہیں آیا۔ ہم ہر سال پچاس ہزار روپے کس لیے دیتے ہیں۔ سُور کا بچہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔ اور کیا بکواس کرتا تھا۔“
”کہتا تھا کہ پانی کا موگا توڑا ہوا ہے۔ پچاس مربعے باغ کا پانی منظور ہے اور لگایا جاتا ہے سو مربعے کو۔“
بس اتنا سننا تھا کہ نواب صاحب نے پستول پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”اس مادر……..کی یہ مجال ۔ اب پانی ہمارے تین سو مربعے کو لگے گا۔دیکھوں گا کون روکتا ہے۔ پانی ہمارا ہے ، وہ ماما لگتا ہے روکنے کا۔ میں کرتا ہوں وڑائچ سے بات۔ وہ وزیر کاہے کا ہے۔ اٹھا کر باہر پھینکے سالے تحصیل دار کو۔“
پٹواری نے جلتی پر اور تیل ڈالا۔ ”آج یہ کہہ رہا تھا، کل کچھ اور….“
”اس کتے کی اولاد کو پانی نصیب نہ ہو گا۔“ نواب صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ”جب وہ بندر آیا تھا تو مجھے رنگ کر دیتا۔ تم بھی تو حرامی ہو اور کیا۔“
اور پٹواری کھسیانی سی ہنسی ہنس دیا۔
گالی گلوچ تو نواب صاحب کا تکیہ کلام تھا۔ جب وہ کسی ملازم کو بلاتے تو اس طرح۔
”اوئے کتی کے بچے ادھر آ“
”او حرامی بات سن“
”او سور کی نسل سنتا نہیں“
اسی وجہ سے ملازم ان کے ہاں نہ ٹھہرتے تھے۔دو دن کام کیا اور بھاگ گئے۔ نواب صاحب کی یہ عادت بھی تکلیف دہ تھی کہ وہ ملازموں کو دن میں آرام نہ کرنے دیتے تھے۔ خصوصاً صفائی کرنے والی عورتیں نواب صاحب کی شکل سے ڈر جاتی تھیں۔ ایک ڈیرہ اور ایک زنان خانہ کی صفائی، کوئی معمولی کام نہ تھا۔ پھر نواب صاحب کی تین بیویاں تھیں۔ ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر، بڑی بیگم کے بطن سے ایک بیٹی شگفتہ خانزادی تھی اور دوسری دونوں اولاد سے خالی تھیں۔ ہر بیگم کا الگ الگ کمرہ تھا مگر صحن ایک تھا۔ اس صحن کی روزانہ صفائی کیا رگڑائی کرائی جاتی تھی۔ جس سے ملازمہ بھاگ جاتی تھی۔
ڈیرے کی دو روز سے صفائی نہ ہونے کی وجہ جب منشی سے دریافت کی تو اس نے نواب صاحب کو بتایا کہ او ماچمارن بیمارہے۔
”اس کے گھر کی دوسری عورتیں مر گئی تھیں“ نواب صاحب نے غصے سے پوچھا۔ ”رامو چمارن کو بلاﺅ۔ میں اسکی دھلائی کرتا ہوں۔“
”آج رامو کی بہو کام پر آئی ہے؟“ منشی نے بتایا
”بلاﺅ اس کو میرے پاس، میں پوچھتا ہوں اس سے“
اور تھوڑی دیر میں رامو کی بہو آگئی۔
نواب نے اس کی بہو کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ حسن بے مثال، بلوری آنکھیں، سیب جیسے رخسار، گٹھا ہوا جسم، گورا رنگ، دودھیا پاﺅں دیکھ کر نواب صاحب کا سانس رُک گیا اور جلدی سے پوچھا۔
”تیرا نام کیا ہے؟“
”جی سنتو“
اور سنتو نے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔
”سنتو“ نواب صاحب نے چٹخارے لے کر پوچھا۔ ”تم اوما کی بہو ہو، اومانے کبھی تمہارا ذکر نہیں کیا۔ “
سنتو خوشبو کی طرح خاموش کھڑی رہی۔
”کام کا پتہ ہے نا؟“
”جی۔ ساس نے سارا کام سمجھا دیا ہے۔“
”سارا کام؟“ نواب صاحب کچھ اور پوچھنا چاہ رہے تھے جسے سنتو سمجھ نہ سکی۔
”کپڑوں اور برتنوں کو نہ چھونا، ناپاک ہو جائیں گے۔“
”جی بہتر“
”ڈیرے کی صفائی کر لو۔ پھر زنانہ حویلی میں جانا ، اور سنو۔ اپنے کھانے پینے کے برتن لائی ہو؟“
نواب صاحب سنتو کے گلے کی حلاوت سے مسرور ہو رہے تھے۔
”میری ساس نے مال گدام کے اندر رکھے ہوئے ہیں۔“
جب تک سنتو نواب صاحب کے کمرے کی صفائی کر تی رہی۔ نواب صاحب کی نگاہیں اس کے جسم کی پیمائش کرتی رہیں۔
”دوا کی خالی بوتلیں اکٹھی کر کے گودام میں رکھ دینا ۔ رامو ں اٹھا کر لے جائے گا۔ “
”ہم شودر بھی یہ دوا دیوالی کی رات کو پیتے ہیں۔“
”اچھا۔ یہ پی ہے تم نے کبھی؟“ نواب صاحب نے خوش ہو کر پوچھا۔
”جی نہیں“ سنتو نے دو ٹوک جواب دیا۔
یہ جواب نواب صاحب کی سوچ کے خلاف تھا۔
اتنے میں نواب کا فون بجا تو وہ سننے کے لیے باہر چلے گئے۔
اور سنتو صفائی کا کام مکمل کر کے حویلی کے صحن میں جھاڑو پھیر کر زنانہ حویلی میں چلی گئی۔ تینوں بیگمات سنتو کو دیکھ کر ششدر رہ گئیں اور یوں محسوس کرنے لگیں جیسے ان کی ایک اور سوکن آگئی ہو۔ ہاتھ میں جھاڑو دیکھ کر سمجھ گئیں کہ یہ صفائی والی ملازمہ ہے۔ اس کے نین نقش اور گورا رنگ دیکھ کر حسد میں جلنے لگیں۔ لیکن سنتو کے حسن نے ان کے حسد کو چوس لیا۔
تینوں بیگمات نے سنتو سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ مگر سنتو جواب دینے کی بجائے کام میں مصروف رہی۔ البتہ شگفتہ سے باتیں کرنے لگی۔ شگفتہ نے پوچھا۔
”تم اوما کی بہو ہو؟“
”جی“
”تمہیں اپنے حسن کا احساس ہے؟“
”ہمارے دھرم میں حسن نام کی کوئی شے نہیں۔ ہم نیچ کاموں کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔“
”ایسا نہ کہو سنتو۔ ہم سارے انسان برابر ہیں۔“ شگفتہ نے سنتو کی مایوسی کو دور کرنا چاہا۔
”تو پھر یہ بھر شٹا چاری کیا ہے؟ فلاں چیز کو ہاتھ نہ لگاﺅ بھرشٹ ہو جائے گی۔“
اس کے جواب میں شگفتہ نے سنتو کے ہاتھ سے جھاڑو پکڑ لیا۔ تو ماں پکار اٹھی۔
”تمہارے ہاتھ ناپاک ہو گئی ہیں ، پھینک دو جھاڑو۔“
اور وہ جھاڑو پھینک کر اندر چلی گئی۔
شام کو جب سنتو جانے لگی تو نواب صاحب نے روک کر کہا۔
”رات یہیں رہو سنتو؟“
”اپنے پتی کی اجازت کے بغیر رات یہاں نہیں ٹھہر سکتی۔ “سنتو نے جرات سے جواب دیا۔
”میں نے تیرے شوہر اور رامو سے بات کی ہے۔“ نواب صاحب نے دلیری سے بات کی۔
”جب تک میں اپنے پتی سے بات نہ کر لوں میں یہاں رات نہیں رہوں گی۔ میں کوئی گائے بھینس نہیں ہوں کہ جو چاہے مجھے ہانک کر لے جائے۔ میں کسی کی بیوی ہوں۔“
”پگلی ! کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے ۔ میں نے ایک مربعے زمین تیرے شوہر کے نام لکھ دی ہے۔ تمہارا مکان پکا بنے گا راموں گاﺅں کا مکھیا ہو گا۔“
اتنے میں سنتو کا شوہر اور رامو بھی آگئے۔
نواب صاحب نے دونوں کو الگ لے جا کر کچھ کہا۔ جس پر رامو ں نے سنتو کے کان میں کچھ کہا اور دونوں چلے گئے۔
اور سنتو نے ہار مان لی
رات آئی اور اندھیرا شب شبا کے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا۔ پتہ نہیں سنتو نے نواب صاحب پر کیا جادو کیا۔ کیا منتر پڑھا کہ وہ اپنا تکیہ کلام بھی بھول گئے اور سنتو کی ہر بات پر ”ہاں“ کہنے لگے۔ سنتو آدھ کلو دودھ صبح پیتی اور آدھ کلوشام ۔ ایک کلو دودھ راموں کے گھر جانے لگا۔
ایک دن نواب صاحب نے سنتو سے کہہ دیا۔
” جس واش روم میں نہاتی ہو۔ اس میں جو بھی برتن جاتا ہے بھرشٹ کر دیتی ہو“
سنتو کی اندر کی عورت جاگ اُٹھی اور کہنے لگی۔
”راتوں کو شراب کے گلاس بھر بھر کردیتی ہوں وہ بھرشٹ نہیں ہوتے، میرے جسم سے کھیلتے ہو وہ بھرشٹ نہیں ہوتا، رات کو دھرم سو جاتا ہے اور سورج نکلتے ہی پاکی اور ناپاکی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ کیسا ہے آپ کا دھرم۔ آپ خود مار کر جانور کھاتے ہو تو حلال ہے ہم پر بھرکے مارے ہوئے گوشت کو کھائیں تو حرام ہو جاتا ہے۔ یہ ہے آپ کا دھرم۔“
نواب صاحب چونکہ دین سے ناواقف تھے۔ خاموش سنتے رہے۔
اتنے میں بڑی بیگم کا پیغام آگیا کہ وہ ملنا چاہتی ہیں ضروری کام ہے۔ تو نواب صاحب اٹھ کر ز نان خانے میں چلے گئے۔ بیگم صاحبہ نے کہا۔
”نواب آف چکراں والا کی بیگم پھر شگفتہ کے رشتے کی بات کرنے آئی ہیں۔ ان کو ہاں یا ناں جو کچھ کہنا ہے کہہ دیں۔ روز روز کا آنا اچھا نہیں لگتا۔ آپ تو ہر وقت چمارن سنتو….“
”خاموش“ نواب صاحب غصے سے گرجے”ان سے کہہ دیں کہ میں نے شگفتہ کی شادی قرآن سے کرنی ہے۔ میں اپنی جائیداد باہر نہیں جانے دوں گا۔ سمجھی، جاﺅ ان سے کہہ دو۔“
اور بڑی بیگم اپنا منہ لٹکائے چلی گئی۔
دودھ ملائی کھانے سے سنتو کا رنگ و روپ اور نکھرنے لگا۔ نواب صاحب بھی اپنی مونچھیں اور اوپر کو رکھنے لگے۔
نواب صاحب ، شب بیداری اور تھکاوٹ کی وجہ سے صبح دیرسے اٹھتے تو سنتو پہلے زنان خانے کی صفائی کرتی پھر ڈیرے کی باری آتی۔ سنتو شگفتہ کے کمرے کی صفائی کر رہی تھی کہ فرش پر گری ہوئی شگفتہ کی چادر اٹھا کر پلنگ پر رکھ دی۔ جیسے شگفتہ نے دیکھ لیا تو سنتو نے پشیمانی سے معذرت چاہی کہ وہ بھرشٹ ہو گئی ہے جس پر شگفتہ نے کہا۔
”اگر کپڑا ناپاک ہو سکتا ہے تو جس زمین پر چل پھر رہی ہو وہ بھی تو ناپاک ہو رہی ہے۔ اسے کون پاک کرے گا۔“
”بی بی جی ۔ یہ تو دھرموں کا کھیل ہے جس کو چاہے شودر بنا دے اور جس کو چاہے ….“ اور سنتو آگے کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
”سنتو تیر ا سارا خاندان تیرے جیسا ہے ، رنگ روپ میں؟“
”نہیں بی بی جی ۔ میری چھوٹی بہن مایا اور بڑا بھائی شامو جو روزانہ یہاں سے دودھ لے کر جاتا ہے ہم تینوں ایک جیسے ہیں ۔ راموں میرا سسر، اوما میری ساس اور میرا پتی اپنے خاندان پر ہیں۔“ سنتو نے جھاڑو اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے بات کہی۔
”تیری ماں بھی تیرے جیسی ہے؟“
”جی نہیں۔ وہ ایک انگریز کے ہاں ملازمہ تھی“
اتنے میں شگفتہ کی ماں نے آواز دے کر کہا۔
”تیرے سہاگ کا کمرہ سجا دیا گیا ہے ۔اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو بتا دے۔ چل دیکھ لے۔ تین تاریخ کو سید بے خبر شاہ سجادہ نشین دربار عالیہ شریف نکاح پڑھانے آرہے ہیں۔“
”ماں“ شگفتہ ماں سے چمٹ گئی” میرے ارمان۔ میرے جذبات ، میری جوانی کے خواب یہ سب کہاں ہوں گے۔“
”قسمت والوں کی قرآن سے شادی نصیب ہوتی ہے بیٹی۔ وہ کتنے اونچے درجے کے لوگ ہوتے ہیں اس بارے میں منفی سوچ رکھنا گناہ ہے۔ ماں نے تفسیر بیان کر دی۔
”ٹھیک“ شگفتہ نے جیسے اس فیصلے کو قبول کر لیا۔
نکاح کی سب تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ رشتے داروں ، عزیزوں اور دوستوں کو دعوت نامے بھیج دئیے گئے۔ نواب صاحب ساری رات انتظامات کا جائزہ لیتے رہے۔
خوشیوں اور خوشبوﺅں بھری سویرنے انگڑائی لی تو سب لوگ جاگ اُٹھے۔ شگفتہ کو جگانے کے لئے ماں نے دروازہ کھولا تو پلنگ خالی تھا۔ واش روم میں دیکھا، کچن کو کھولا مگر شگفتہ نہ ملی۔
گھر میں ہنگامہ مچ گیا۔
اس کے بستر پر ایک کاغذ ملا جس پر لکھا تھا۔
”میں موجودہ رسم کے خلاف بطور احتجاج شامو کے ساتھ جا رہی ہوں۔“
نواب صاحب کو جگا کر جب بتایا گیا تو وہ نشے میں تھے۔ انہوں نے سرہانے سے بندوق اٹھائی اور درخت پر بیٹھے بگلے کو جو اپنے بچے کو چوگ کھلا رہا تھا ، نشانہ بنا کر کہا
”اب میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔“
فیس بک کمینٹ