پانچ گھنٹے تو کیا اب تو پانچ دن سے بھی زیادہ گزر گئے۔ کاغذ قلم میرے سامنے ہے۔ یادوں کی ایک مکمل البم بھی سجی ہوئی ہے ۔سمجھ نہیں آرہی کہ البم کو کہاں سے دیکھوں ،کہاں سے بند کروں۔ کون سے صفحے پر رکنا ہے۔ کون سے صفحے کودیکھ کر قہقہہ لگانا ہے۔ اور کون سے صفحے کو دیکھ کر آبدیدہ ہونا ہے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا۔دماغ کے سب دروازے بند ہیں۔سوچ کے زاویے اگرچہ متحرک ہیں۔ لیکن سجھائی کچھ نہیں دے رہا ہے۔ کہ میں نے ڈاکٹر حنیف چوہدری صاحب سے آخری مرتبہ ان کے وفات سے چار دن پہلے جب فون پر بات کی تھی۔تو ان سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ اگلی ملاقات اب آپ کی کتاب کے ساتھ ہوگی۔ جو شائع ہونے کے لیے بھجوا دی ہے۔وہ کتاب کون سی ہے؟اور کتاب شائع ہونے میں تاخیر کیوں ہوئی؟یہ سب کہانی میں بعد میں سناؤں گا۔اس سے پہلے آپ یقیناً جاننا چاہتے ہیں کہ میرا ان کا ساتھ کتنا پرانا ہے ؟
سچی بات تو یہ ہے کہ یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں
بس اتنا یاد ہے کہ نواں شہر میں میرے چچا حسین سحر کے برابر والے گھر میں حنیف چودھری صاحب رہتے تھے۔اور ہم چھٹی کے دن اپنی والدہ کے ساتھ جب اپنے چچا کے گھر جاتے تھے تو کھیلنے کے لیے ان کے گھر بھی چلے جایا کرتے تھے۔کچھ ذہن میں یوں بھی یاد ہے ۔شاید ان کے گھر میں بیری تھی۔اور جب سب بچے اکٹھے ہو جاتے تھے تو ہم سارےان کےصحن میں کھیلنے چلے جاتے ہیں۔کہ ان کے گھر کا صحن بہت بڑا تھا۔
پھر چچا حسین سحر خونی برج والے گھر منتقل ہو گئے۔اور ہمیں وہ بیری والا گھر بھول گیا۔یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس گھر میں حنیف چودھری کا خانوادہ رہتا تھا۔1988 کی بات ہے۔ایک دن حنیف چودھری صاحب کتاب نگر حسن آرکیڈ تشریف لائے۔مجھے کہنے لگے کہ میں نے آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے ادارے کا نام اپنی نئی کتاب” بھارت یاترا” پر دے دیا ہے، کہ آپ ہی اس کے پبلشر ہیں اور آپ ہی اس کے تقسیم کار ہیں اور یہ کتاب آپ ہی اب فروخت کریں گے۔یہ کہہ کر وہ میرے پاس 100 کتابیں چھوڑ گئے ۔اور اس کے بعد کبھی کبھار ان کا فون آ جاتا۔ یہ کتاب اور چاہیے تو میں بھجوا دوں؟
آپ کو پڑھ کر حیرت ہوگی کہ ان کی 100 کتابیں جو سفرنامہء بھارت پر مشتمل تھی۔ایک ماہ میں فروخت ہو گئیں۔اس دور میں میں نے ان کو 100 کتابوں کی 1500 روپیہ ادائیگی کی۔تو اگلے دن مجھے مزید 100 کتابیں دے کر چلے گئے۔
اگلی سو کتابیں بھی بہت جلد فروخت ہو گئیں۔تو مجھے کہنے لگے۔ بیٹا اس کا اب دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑے گا۔کچھ ہی عرصے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن میرے سامنے رکھا تھا۔اور میں حیران تھا،ان کا یہ سفر نامہ ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا تھا۔یقین کیجئے میں نے کتاب نگر کے ابتدائی دور میں جو سب سے زیادہ کتاب فروخت کی وہ ان کا سفرنامہ” بھارت یاترا "ہی تھا۔ وہ سفر نامہ میں نے انہی دنوں کئی مرتبہ پڑھا۔ اور ان کے قلم کی چاشنی کا تعاقب کرتا رہا۔خاص طور پر کتاب کی بیک ٹائٹل پر انہوں نے ایک صفحہ لکھا تھا۔وہ ایک شاہکار تھا۔
"جب میں نے اپنی بوڑھی ماں کو یہ بتایا کہ ایک ماہ کے لیے بھارت جا رہا ہوں تو اس کے اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے دو قطرے ابھرے اور چہرے کی جھریوں میں اٹک کر بکھر گئے۔ میں چپ چاپ ماں کے سامنے بیٹھا اس کے برف کی مانند سفید بالوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ ماؤں کی آنسو بھی پلکوں کے کتنے نزدیک رکے ہوتے ہیں، کہ یو نہی کسی بچے نے انہونی سی بات کہی تو آنکھوں کی دہلیز سے باہر ڈھلک آتے ہیں۔ میری ماں نے مجھ سے کہنا شروع کر دیا۔
"پتر وہاں نہ جاؤ۔ 1947 میں وہاں تو ہم پر گولیاں برسائی گئی تھیں، ہمیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا تھا۔ اب بھی میری ،آنکھوں کے سامنے ننگی تلواریں چمک رہی ہیں۔ بچوں کو ماؤں سے چھینا جا رہا ہے ان کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں سنائی دے رہی ہیں۔ حنیف بیٹا مت جاؤ”۔
میں افسردہ ہو کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔میری ماں بھی ململ کے سفید دوپٹے سے آنسو پونجھتی ہوئی میرے پیچھے آگئی اور پوچھنے لگی پتر اب وہاں کیا کرنے جانا ہے۔ وہاں نہ اپنا گھر ہے نہ مکان، نہ کنواں، نہ کھیت، وہاں کون ہے اپنا ؟وہاں سب اجنبی ہیں۔ کون پہچانے گا تجھے؟ اور یہ کہتے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی۔”
وقت گزرتا رہا اور ایک دن رضی الدین رضی نے مجھے بتایا کہ میرے ساتھ” روزنامہ سنگ میل ملتان "میں حنیف چودھری صاحب کا بیٹا افضل چودھری بھی کام کرتا ہے۔میں جب بھی روزنامہ سنگ میل جاتا تو افضل چودھری سے لازمی ملاقات ہوتی۔افضل بھی اپنے والد کی طرح بہت ہی خوش اخلاق اور ملنسار نوجوان تھا۔انہی دنوں افضل نے صحافت چھوڑ کر کاروبار شروع کیا۔ ابھی اچھے دنوں کا آغاز ہوا ہی تھا ،تو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔ افضل کی زندگی میں آسودگی آئی ، تونوجوانی میں چل بسا اس کے جانے کے بعد حنیف چودھری کی زندگی مشکل ہو گئی۔ہر وقت بیٹے کو یاد کرتے۔بیٹے کی جدائی کے باوجود چودھری صاحب علم و ادب اور صحافت سے جڑے رہے۔ان کی نثر میں اتنی چاشنی تھی۔میں نے ان کے 1950 کے زمانے کے افسانے بھی پڑھے ہیں۔اور چند سال پہلے کی تخلیقات دیکھی ہیں۔جو اسلوب اور ربط ان کا پہلے دن سے تھا۔وہ آخر دم تک برقرار رہا۔
ان کی تحریروں میں بٹوارے کی تقسیم کا غم شدت سے نمایاں رہا۔رہی سہی کمی ان کے دو جوان بیٹوں’ بہو اور اہلیہ کے انتقال نے پوری کر دی۔ان کے بعد کی تحریروں میں جو غم کی شدت دیکھنے کو ملی، وہ ناقابل بیان ہے۔
میں نے حنیف چودھری صاحب کو گھنے بال اور سیاہ مونچھوں کے ساتھ دیکھا تھا۔مسلسل حادثات کے بعدانہوں نے اپنی زندگی کا رخ تصوف کی طرف موڑ دیا۔جب پہلے ملتان نے ان کو داڑھی کے ساتھ دیکھا۔تو وہ کپاس کے پھولوں کی طرح سفید ہو چکی تھی۔سر پر خاص انداز کی پگڑی اور گفتگو کے انداز میں دھیما پن نمایاں ہو چکا تھا۔یہ بالکل نیا حنیف چودھری تھا۔جو اب شہر کی تقریبات میں کم کم دکھائی دیتا تھا۔ایسے میں ڈاکٹر انوار احمد نے کمال کیا۔ان کو گھر سے نکالا،اور سرائیکی ایریا سٹڈی لا بٹھایا۔ ڈاکٹر انوار احمد نے صرف حنیف چودھری کو ہی نہیں بلکہ شبیر حسن اختر اور مرزا ابن حنیف کو بھی اس شعبے میں مختلف منصوبے سونپ دیے۔تینوں بزرگ جو ملتان کا مان تھے۔اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل کے ایک مرتبہ پھر نوجوانوں کی طرح سرائیکی ایریا سٹڈی میں کام کرنے لگے۔تینوں بڑی شخصیات نےکمال کا کام کیا۔جب ڈاکٹر انوار احمد یونیورسٹی سے چلے گئے۔ان کا بھی کوئی پرسان حال نہ رہا۔لیکن جتنا عرصہ یہ تینوں بزرگ سرائیکی ایریا سٹڈی میں موجود رہے۔ان کی موجودگی سے یونیورسٹی مہکتی رہی۔ اس عرصے میں حنیف چوہدری نےاپنی نامکمل پی ایچ ڈی مکمل کی۔ملتان کی صحافت پر کتابیں لکھیں۔دیوان خواجہ فرید پر کام کیا۔گرنتھ میں بابا فرید کے اشلوک پر کتاب تحریر کی۔خواجہ فرید کی سرائیکی کافیوں پر سندھی اور پنجابی لسانی اثرات پر تحقیق کا کام مکمل کیا۔یہ ساری کتابیں انہوں نے اس دوران مکمل کی، جن دنوں وہ سرائیکی ایریا سٹڈی میں کام کر رہے تھے۔بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ان کی پہلی کتاب 1952 میں "ان ستاروں سے پوچھوں "کے نام سے شائع ہوئی، جو ایک ناول تھا۔1960 میں دوسرا ناول” ویرانے” شائع ہوا۔1961 میں ناولٹ "خزاں” کے نام سے،جبکہ 1964 میں ان کا ناول "پہاڑی کا پتھر” لاہورسے شائع ہوا۔
گورمکھی میں ان کی تین کتابیں "جیجاں "”چونویں پاکستانی پنجابی ایکانگی” اور” درد منداں دیاں آہیں "شائع ہوئی۔
ان کی بہت سی کتابیں زیر طبع ہیں۔ جو امید ہے کہ زیر طبع ہی رہیں گی کہ اب پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے کہ جو ایسے پڑھے لکھے لوگوں کی نایاب موضوعات پر کتابیں شائع کرے۔
البتہ ملتان کی ایک صدی کی تاریخ کے بارے میں ان کی جو کتاب میرے پاس شائع ہونے کے لیے آئی،وہ برادرم خالد مسعود خان کے تعاون سے پریس میں چلی گئی ہے۔جو چند دنوں میں شائع ہو کرآ جائے گی۔
کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ حنیف چودھری کا اصل نام عبداللطیف تھا۔اپنے نام کے بارے میں ایک مرتبہ انہوں نے بتایا۔
"آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا اور میرے کلاس انچارج معروف شاعر ،ادیب اور محقق عرش ملسیانی تھے۔انہی دنوں ہمارے سکول میں دو گھنٹے کا بزم ادب کا پیریڈ ہوا کرتا تھا۔اور وہ پیریڈ عرش ملسیانی لیا کرتے تھے۔ایک دن انہوں نے پوری کلاس سے کہا کہ بچو کچھ نہ کچھ لکھ کر لایا کرو، اگلے دن میں نے وہ کہانی لکھ کر ان کو پیش کر دی ۔جو میں نے اپنی ماں جی سے سنی تھی۔،عرش ملسیانی کو وہ کہانی بہت پسند آئی اور انہوں نے اپنے کولیگ گیان چند سے کہا کہ یہ کہانی اتنی اچھی ہے کہ اس کو کسی رسالے میں شائع ہونے کے لیے بھجوا دیں۔ساتھ ہی عرش ملسیانی نے یہ کہا،گزشتہ دنوں میرے ایک بڑے اچھے دوست حنیف چوہدری کا انتقال ہوا وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔تب میرے استاد عرش ملسیانی نے مجھے عبدالطیف سے حنیف چوہدری بنا دیا۔کیونکہ مجھے عرش صاحب سے بہت محبت تھی اس لیےمیں نے آج تک اپنا نام تبدیل نہیں کیا۔البتہ نام تبدیل کرنے سے پہلے میں نے اپنی ماں جی سے مشورہ کیا تو انہوں نے بخوشی مجھے اجازت دے دی۔
وہ خود بتایا کرتے تھے کہ میری تاریخ پیدائش 10 اکتوبر 1929 ہے۔جو کہ کاغذات میں 1930 لکھا ہوا ہے۔اس لیے میں نے کبھی بھی کسی کو نہیں بتایا کہ میری پیدائش 1929 کی ہے۔بھارت میں ان کا تعلق ضلع جالندھر سے تھا اورتقسیم کے وقت ان کے والد کی چار مربع زمین تھی۔انہی دنوں اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے کہ بلوائیوں نے حملہ کر کے پورے گاؤں کو آگ لگا دی اور ساتھ ہی فائرنگ شروع کر دی۔اس واقعے کے بعد ہماری پوری فیملی پاکستان آگئی۔پاکستان آنے میں نے حاصل پور میں "پلے داری "کی۔سارا دن پلے داری کرنے کے مجھے پانچ روپے ملا کرتے تھے۔دوسری جانب بڑے بھائی نے ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ان کو روزانہ پانچ سے سات روپے ملنا شروع ہوئے۔ہم بھارت میں چار مربعوں کے مالک تھے۔لیکن پاکستان آ کر بڑا مشکل وقت ہم نے دیکھا۔جب میں پاکستان آیا تو اس وقت میری تعلیم میں میٹرک تھی۔ باقی تعلیم میں نے پاکستان آ کر حاصل کی اور پوری تعلیم کے دوران میں نہ کسی کالج میں گیا نہ یونیورسٹی میں۔پی ایچ ڈی تک میں نے پرائیویٹ تعلیم حاصل کی۔لیکن بطور استاد میں نے دو یونیورسٹیز میں پڑھایا۔جب کہ بھارت کی خالصہ یونیورسٹی میں مجھ پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے بے شمار تھیسز ہوئے۔جب کہ میری بہت سی کتابیں اور افسانے گرمکھی میں نصاب میں شامل ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا ۔حاصل پور سے ملتان آنے کے بعد میں محکمہ خوراک میں نوکری کرنے لگا۔میرے ساتھ ان دنوں ایم اے قدوس ہوا کرتے تھے۔جو بعد میں پروفیسر ایم اے قدوس کے نام سے معروف ہوئے۔دوران ملازمت ان پر غبن کا مقدمہ درج ہوا۔جس نے ان کی دماغی حالت کو نقصان پہنچایا۔جس کے بعد وہ کئی ماہ تک مینٹل ہسپتال داخل رہے۔1949 میں محکمہ خوراک چھوڑ کر وٹرنری کے محکمے کو جوائن کیا۔اس محکمے میں میرے کولیگ الہی بخش جونیئر کلرک تھے۔ایک دن وہ مجھے اپنے چچا کے گھر سورج کنڈ لے گئے۔وہاں سورج دیوتا کا مندر تو نہ تھا البتہ وہ تالاب کا ایک کونہ نظر آرہا تھا۔ جس میں ہندو قیام پاکستان سے پہلے اشنان کیا کرتے تھے۔الہی بخش کے چچا نے بتایا کہ اب بھی یہاں پر ہندو آتے ہیں اور یہاں کی مٹی، اینٹیں اور بوہڑ کے پتے بطور تبرک لے جاتے ہیں۔
حنیف چودھری صاحب نے ہمیں یہ بھی بتایا۔کہ اس وقت جہاں پر ریڈیو پاکستان ملتان کی عمارت موجود ہے یہاں پر بھی ایک بڑا مندر تھا ۔جس کو مسمار کر کے ریڈیو پاکستان کی عمارت تعمیر کی گئی۔
ریڈیو پاکستان ملتان کی جگہ کے بارے میں یہ بالکل نیا انکشاف تھا جو اس سے پہلے نہ تو کبھی کسی نے کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں ہم نے کبھی پڑھا کہ یہ جگہ مندر کی تھی۔
ڈاکٹرصاحب اس ملتان کے عینی شاہد تھے۔ جو ہم نے نہیں دیکھا۔جب انہوں نے ملتان پر تحقیقی کام کیا۔ تو ہماری نئے ملتان سے ملاقات کروائی۔ وہ حقیقی معنوں میں ملتان کے عاشق تھے۔انہوں نے اپنے آپ کو ملتان کے لیے وقف کر رکھا تھا۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ملتان نے ان کو شایان شان عزت نہیں دی۔نہ کبھی ان کے ساتھ کوئی شام منائی۔نہ ہی کبھی ان کی یادوں کو سنا گیا۔وہ اپنے دل میں بہت سی باتیں لے کر چلے گئے۔سابق ڈپٹی کمشنر عامر کریم خان نےجب ان کے گھر میں لوح اعزاز لگائی۔تو اس دن وہ بہت زیادہ خوش تھے۔بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ ان کے گھر میں اس دن عید کا سماں تھا۔بیٹا، پوتے، پوتیاں، بہواور دیگر رشتہ دار بہت خوش تھے۔اس دن خالد مسعود خان، رضی الدین رضی ،سجاد جہانیہ اور دیگر احباب موجود تھے۔ ٹیلی ویژن چینلز نے بھرپور کوریج کی۔یوں ہم نے ان کو ان کی زندگی میں ایک چھوٹی سی خوشی عطا کی۔ حالانکہ وہ اس سے زیادہ خوشیوں کے حقدار تھے۔
حنیف چودھری کے مقالات پر مشتمل کتاب” افتادہ تحریریں” میں نے 2009 میں شائع کی۔اس کتاب کے مقالات کے موضوعات بہت ہی شاندار اور کمال کے ہیں۔
اس کتاب کے پہلے صفحے پر اپنے مرحوم بیٹے شاہد کے نام ایک خط لکھا۔جس کا عنوان تھا
"پوسٹ نہ ہونے والا خط”
شاہد بیٹے تم دنیا سے کیا گئے، مجھے آنسوؤں کے سمندر میں پھینک گئے۔تیرے بعد زندگی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی موج مجھے ایک نامعلوم کنارے پر پھینک گئی ہے۔ جہاں صرف یادیں ہیں بلکہ یادوں کا جنگل ہے۔اس جنگل میں میں اکیلا ہوں ببول کے اس درخت کی طرح جس پر ایک چڑیا کا نشیمن ہے۔ جب آندھی آتی ہے تو اس کا نشیمن اڑ جاتا ہے۔صبح وہی چڑیا تسبیح اور مناجات میں لگ جاتی ہے اسے اس واقعہ یا سانحہ کی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ سراپا تشکر ہوتی ہے،میری بھی دعا ہے۔
اے اللہ مجھے یادوں کی خانقاہ سے آزاد کر دے۔
اے اللہ مجھے اذن گویائی دے تاکہ میں چڑیا کی طرح اس سانحہ کو بھول کر سراپا تشکر بن جاؤں۔
اے اللہ مجھے تنہائی کے برفانی غاروں میں منجمد نہ کر۔ بلکہ اپنی آگاہی کی چوکھٹ پر سر دھرنے کی استقامت دے۔
اے اللہ میری یہ آرزو پوری کر دے کہ میں ابد الاباد میں رہنے والے بیٹے کو ایک مرتبہ پھر خواب میں دیکھ لوں۔
بچھڑنے والے میں نے تمہاری ننھی سی بیٹی سے کہہ دیا ہے کہ گھر سے باہر گلی میں جب کبھی کسی گاڑی کا ہارن سنے تو اپنی مما سے یہ نہ کہنا کہ مما پاپا آ گئے ہیں۔
دروازہ کھولو
مجھے اب علم ہوا ہے کہ انسان زندہ ہونے کے باوجود زندگی کو نہیں سمجھ سکتا وہ مرے بغیر موت کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔
یہ مقالے میں نے آنسوؤں کی روشنائی سے لکھے ہیں۔ جو میرے دکھ کا مداوا تو نہیں کر سکتے۔ البتہ تمہاری نہ مٹنے والی یاد سے کچھ عرصے کے لیے دور لے جائیں گے۔
12 اکتوبر 2023 کی شام کو جب ہم ملتان آ رٹس کونسل میں ڈاکٹر حنیف چوہدری کو یاد کر رہے تھے۔تو سجاد جہانیہ نے ایک بات کہہ کر سب کو حیران اور خوفزدہ کر دیا۔سجاد جہانیہ نے بتایا۔
کہ بابا جی اب اکثر یہ بات کہا کرتے تھے۔خدا کے حضور میں، میں اپنے 94 برس کا حساب کیسے دے پاؤں گا ؟
یہ سنتے ہی جب میں نے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے برسوں پر نگاہ ڈالی۔ تو ایک دم کپکپی سی طاری ہو گئی۔ڈاکٹر حنیف چوہدری کا ظاہر بھی ایک تھا اور باطن بھی۔
اور ہم جو دنیا دار بنے پھرتے ہیں۔اپنے سیاہ اعمال لے کر کیسے خدا کے حضور جائیں گے۔جہاں پر نبی رحمت ص اپنی آل ع کے ساتھ موجود ہوں گے اور میں کیسے ان ہستیوں کا سامنا کر پاؤں گا۔البتہ ایک بات سوچ کر تسلی ہوتی ہے۔کہ وہ گھرانہ کریم ابن کریم ہے۔یقینا مجھ جیسے گناہگار کی بھی بخشش کر دے گا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ڈاکٹر حنیف چودھری کی یادیں تو اتنی زیادہ ہیں۔جو پوری کتاب کا موضوع ہیں۔ان پر بے شمار احباب لکھ رہے ہیں۔آنے والے دنوں میں اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔البتہ مجھے دکھ اس بات کا رہے گا۔کہ انہوں نے جو آخری کتاب میرے حوالے کی تھی۔اس کی اشاعت ان کی زندگی میں نہ ہو سکی۔اس کا مداوا کیسے اور کب ہوگا ؟
وقت گزر چکا۔ڈاکٹر حنیف چوہدری کی گاڑی پلیٹ فارم پر آکر رخصت ہو چکی۔
ان کی رخصتی کی تمام رسومات ادا کی جا چکی ہیں۔
اور میں ان کے گھر کے قریب پلی باقر آباد نیو ملتان پہ کھڑاسوچ رہا ہوں۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ