دنیا 6 اگست 1945ء کے بعد سے جتنا پچھلے ہفتے ایٹمی جنگ کےقریب سے گزری شاید پہلے کبھی نہیں گزری …
باخبر لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان نے پہلی دفعہ اپنے کچھ اثاثے ” شاہینوں ” کے سپرد کردیے تھے اور یہ خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں …. یہ انتہائی صورت حال کیوں اور کیسے پیش آئی …. اس پر روشنی ڈالتے ھیں .
دنیا میں جب بھی کبھی جبر اور ظلم کی تاریخ لکھی جائے گی، وہاں مقبوضہ جموں و کشمیر کے باسیوں پر بھارت کی جانب سے کیے گئے ظلم کی داستان سرفہرست ہوگی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود مظلوم کشمیری آج بھی اپنے حق خودارادیت سے محروم ہیں اور مسئلہ کشمیر دنیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ کی صورت میں موجود ہے اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے اور پاکستان کا حصہ بنانے کےلیے ہمیں ﷲ تعالیٰ نے تین مرتبہ نادر مواقع دیئے، مگر اپنے ذاتی مفادات کے اسیر حکمراں اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔
1948ء میں مجاہدین بھارتی فوج کو دھکیلتے ہوئے سرینگر تک جاپہنچے، مگر لیاقت علی خان نے امریکی دباؤ پر انہیں واپس آنے پر مجبور کردیا۔ دوسری بار 1962ء میں چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوتے ہی چین کی قیادت نے صدر جنرل ایوب خان کو بار بار ٹیلیفون کرکے کشمیر پر حملہ کرکے اسے آزاد کرانے پر زور دیا لیکن وہ گلگت میں گالف کھیلتے رہے اور چین کے کہنے پر توجہ نہ دی یا بیرونی آقاؤں کے خوف نے فیلڈ مارشل کو کچھ کرنے نہ دیا۔ یہ انکشاف صدر ایوب خان کے سیکریٹری قدرت ﷲ شہاب نے اپنی کتاب میں کیا ہے . تیسری بار کارگل کی جنگ کے موقع پر اور پھر جنرل پرویز مشرف دور میں بھی دہلی مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ مؤقف حق خودارادیت کی بجائے مختلف آپشنز پیش کرکے مسئلہ کشمیر کا بیڑہ غرق کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان ستر سال میں لاکھوں کشمیری قتل کیے گئے، ہزاروں خواتین کی عزتیں تار تار کردی گئیں اور لاتعداد کشمیری عقوبت خانوں میں موت سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود کشمیری بھارتی تسلط کو کسی صورت میں قبول کرنے پر تیار نہیں۔ حریت پسند نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ وادی کے نوجوانوں کو نیا ولولہ ملا ہے، وہ پاکستانی پرچم کے سائے میں موت کے خوف سے آزاد ہو کر بھارتی فوجیوں کے خلاف ہاتھ میں پتھر اٹھائے صف آراء ہیں۔
14 فروری کو سہ پہر 3 بجے پیش آنے والے پلوامہ واقعے نے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ پلوامہ کشمیر کا وہ خطہ ہے جہاں غاصب بھارتی فوجیوں، پولیس اور بی ایس ایف کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ اس علاقے میں برسہا برس سے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والی بھارتی فوج کے ہاتھ شل ہوچکے ہیں لیکن کشمیری مزاحمت ختم ہونے کے بجائے ابھرتی چلی جارہی ہے …….
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ستر بسوں پر مشتمل بھارتی فوجیوں کا کانواے پلوامہ جاتے ہوئے جب ’’آونتی پورہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو اچانک ایک پراسرار گاڑی آئی اور پلک جھپکتے میں بسوں سے ٹکرا گئی اور قیامت خیز دھماکوں سے پورا علاقہ لرز اٹھا۔ دھویں اور شعلے آسمان تک جاپہنچے۔ پھر پتا چلا کہ سی آر پی ایف کے 50 سے زائد اہلکاروں کے پرخچے اڑ گئے ہیں، اس خوفناک واقعے کے بعد سے بھارت میں ایک قیامت صغریٰ بپا ہے اور بھارتی میڈیا حسب روایت پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے ….
پاکستان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور بھارت کو تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی، مگر بھارت بے بنیاد الزامات کی گردان میں مصروف ہے ۔ پلوامہ کا یہ بھیانک سانحہ پکار پکار کر دنیا کو بتارہا ہے کہ مقبوضہ وادی کی آزادی اور مزاحمت کی یہ تحریکیں مقامی ہیں اور وہ اپنی انتہا کو چھو چکی ہیں۔ خودکش حملہ کرنے والا عادل احمد ڈار تین سال قبل بھارتی افواج اور سی آر پی ایف کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا شکار رہ چکا تھا۔ وہ مقامی کسان غلام حسین ڈار کا بیٹا تھا جو میڈیا کو اس پر ہونے والے تشدد کی داستان سنا چکے ہیں جسے سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے …..
بھارت اپنے 50 سے زائد فوجیوں کے قتل کا حساب مانگ رہا ہے مگر لاکھوں کشمیری نوجوانوں کی شہادت کا حساب دینے پر تیار نہیں، اس کی سوئی پاکستان پر اٹکی ہوئی ہے ….
وہ پاکستان سے بدلہ لینے کا اعلان کررہا ہے جس کی مخالفت خود بھارتی میڈیا پر ان کے سابق چیف جسٹس مارکنڈے، یونیورسٹی کے وائس چانسلر پرتاب بھانو مہتا، تامل فلموں کے سپر اسٹار کمل ہاسن، مشرقی پنجاب کے وزیر بلدیات اور اداکار، ممتاز کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سمیت درجنوں دانشور کررہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی حکومت نے کشمیر کے حالات کو انتہا پر پہنچا دیا ھے . حکومت انہیں حق خودارادیت دینے سے کیوں خوفزدہ ھے ؟ ظلم روک کر حق خودارادیت دیا جائے، پلوامہ کا ملبہ پاکستان پر گرانا درست نہیں، ہمیں اپنی روش کو بدلنا ہوگا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ھے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہمارے برادر ملک سعودی عرب کے ولی عہد کا دورہ متوقع تھا۔ ان نازک لمحات میں بھارت نے منصوبہ بندی کی، پلوامہ واقعہ ،ہیگ میں ہونے والے کلبھوشن مقدمے پر اثر انداز ہونے اور افغان امن مذاکرات کو ناکام بنانے کی ناکام کوشش کی …
بھارت میں انتخابات ایک سے ڈیڑھ ماہ میں ہونے جارہے ہیں، اس لیے جنونی نریندر مودی انتخابات جیتنے کےلیے پورے خطے کے ڈیڑھ ارب عوام کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کےلیے بے چین ہے ، کیونکہ چند ماہ قبل وہ 4 بھارتی ریاستوں کے انتخابات میں بری طرح ہار چکا ہے اور اب وہ اور اس کے عالمی آقا اسے دوبارہ وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیر اور منگل کی شب تقریباً 3 بجے بھارتی جنگی طیارے کئی مقامات پر پاکستان سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا میں جبہ بالاکوٹ تک آگئے لیکن پاکستانی افواج نے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا۔ یہ انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ تھا۔ اس سنگین اسٹرائیک کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ میں پاکستان کا یہ مؤقف دہرایا کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر بھارتی فضائی جارحیت کے بعد ہم جلد ہی انہیں سرپرائز دیں گے …….
اس کے دوسرے دن بھارتی طیارے جیسے ہی پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے، پاکستانی فضائیہ کے جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے انہیں گھیر لیا اور بھمبر کے مقام پر مارگرایا۔ دوسرا طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا۔ گرائے جانے والے مگ 21 کا ایک پائلٹ زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا جسے بھارتی حکام کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ بھارتی طیارے گرانے کے واقعے کے فوری بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو امن کا پیغام دیا اور باور کرایا کہ جنگیں شروع تو ہوجاتی ہیں لیکن بے انتہا تباہی پر ختم ہوتی ہیں۔ اس لیے بھارت کشمیر سمیت معاملات پر بات چیت کا آغاز کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے مختصر خطاب کیا جس کو دنیا میں بے حد سراہا گیا لیکن اسی رات بھارت اور اسرائیل نے امریکی اشیرباد سے پاکستان کے شھروں بھاولپور اور کراچی سمیت 8 مقامات پر میزایل حملے کا منصوبہ بنایا لیکن پاکستانی انٹیلیجنس نے بروقت یہ منصوبہ بےنقاب کرکے جوابی حکمت عملی کے تحت ہندوستان کے 12 سے زائد حساس مقامات کو اپنے نشانے پر لے لیا اور مشترکہ دوستوں کے زریعے ہندوستان کو باور کرا دیا گیا کہ بات روایتی ہتھیاروں سے آگے بھی جاسکتی ہے …..
حالات کی سنگینی کو بھانپتے ھوئے ھندوستان نے مہم جوئی کو فی ا لحال موخر کردیا اور دنیا ایٹمی جنگ کی ہولناک تباہی سے بال بال بچ گئی …..
اس موقعے پر امریکا اور عالمی طاقتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں اور 70 سال سے حل طلب مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی ظلم واستبداد سے نجات دلائیں ، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دلائیں اور بھارت کو یہ حقیقت باور کرایں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ، موت کا خوف اب ان کے ذہن سے نکل چکا ہے …..
عالمی طاقتوں کو اس وقت انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کےلیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، بصورت دیگر یہ کشیدگی نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی۔
فیس بک کمینٹ