( غسل دینے والے ساتھی کی چشم دید گواہی)
حالیہ دنوں میں۔ “طبعی موت” مارے جانیوالے کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے سابق پروفیسر اور ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے کئی مداح اور شاگرد تھے۔ ان میں سے ایسے بھی تھے جو ڈاکٹر حسن ظفر کے تا عمر سیاسی و فکری سفر کے ساتھی اور کئی انکی شخصیت کے گرویدہ رہے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس پارٹی میں تھے البتہ انکی فلسفے، سوچنے سے رغبت اور غریب و مقہور عوام کے بارے میں فکر اور ان کے حالات بدلنے کی کسی نہ کسی شکل میں تگ و دود جسے پرانے زمانوں میں انقلابی جدوجہد کہا جاتا تھا، نے انہیں ایک مرکز ثقل بنا رکھا تھا۔ ایسے ہی ان کے شاگر رشید اور فکری سفر کے ساتھی جو پروفیسر حسن ظفر عارف کی تجہیز و تکفین کے وقت اور مقام پر تمام تر دھونس دھمکیوں کے باوجود نہ صرف موجود رہے تھے بلکہ انکی میت کو غسل دینے والوں میں بھی شامل رہے تھے۔انہوں نے اپنے ذاتی اور نظریاتی دوستوں کے ایک واٹس اپ گروپ پر ان حالات و حقائق کے متعلق اپنی چشم دید گواہی شئیر کی ہے۔ میں اسے بغیر کسی اپنے تبصرے یا فریق بنے بغیر من و عن ٹرانسکرائب کر رہا ہوں ” ہم سب” کے تم سب کیلئے:
” ۔۔۔ ایکچوئیلی بات اپنی لمبی ہے میں اتنا لکھ نہ پاؤ ں گا۔ اور بہت ساری باتیں ہیں ڈاکٹر صاحب کے مرڈر کے حوالے سے،اور میں نے شہزاد کا اسٹیٹمینٹ پڑھا ہے، اس کو پڑھنے کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ بہت ساری چیزیں میرے پورے گروپ کے دوستوں کو بہت سارے لوگوں کو نہیں پتہ ہونگی وہ شیئر کروں اور آپ کو یہ بھی بتاؤ ں ڈاکٹر صاحب کی ڈیتھ کے بعد اور اس سے پہلے کیا معاملات تھے جو کہ ہوئے اور کس طرح سے ڈاکٹر صاحب کا مرڈر ہوا؟ اور اس کے بعد کس طرح سے وہ سارے معاملات ہوئے۔ شہزاد کو پتہ ہی نہیں ہے معاملات کیا ہیں؟ ایز یوژل وہ اسی طرح سے گالیاں دے رہی تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب کی ڈیتھ ہوئی جس طرح سے وہ ہمیشہ اس کی ماں اسے سکھایا کرتی تھیں کہ پچھلے بیس سال سے اس کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا ہوتا ہے کیا نہیں ہوتا ہے۔
فرسٹلی، جب ڈاکٹر صاحب کی ڈیتھ کی خبر دس بجے آ گئی تھی دس بجے ڈاکٹر صاحب کی باڈی ملی ہے۔ جب غزالہ کو اور دوسرے لوگوں کو بتایا گیا تو غزالہ خان گھر پر تھیں وہ نہیں پہنچیں ان کو کوئی لے کے پہنچا۔ اس سے پہلے میں پہنچ چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی باڈی جب لیکر آئے اچھی طرح سے انہوں نے پانی سے ڈاکٹر صاحب کی باڈی کو دھویا ہوا تھا۔ اسپاٹ کے اوپر جب وہ ہاسپیٹل لیکر آئے ہیں پوسٹ مارٹم کیلیے تو کوئی بلڈ کا نشان نہیں تھا۔ آپ جتنی بلڈی فوٹیج دیکھ رہے ہیں وہ پہلے کی تھیں۔ غزالہ خان نے وہاں پر ڈاکٹر صاحب کی باڈی لینے سے انکار کر دیا۔ مسز مہر افروز اور کراچی یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ وہاں پر پہنچے تھے تو ان کو ان کے بھائی ذہین نے اور غزالہ خان نے یہ کہہ کے وہاں سے روانہ کردیا کہ آپ یہاں پہ رش نہ کریں اور یہاں بڑے سارے ایجینسیز کے لوگ گھوم رہے ہیں اور آپ لوگ جائیں۔ْ اس کے اندر لوگ نظروں میں آئیں گے۔ غزالہ خان نے باڈی لینے سے انکار کردیا۔ غور سے سنیئے گا، ان کی بیٹی گالیاں دے رہی تھی ایز یوئیل ودہ آؤ ٹ اینی ریزن، جو لوگ آئے تھے ان کو۔ اور اس کے بعد، میں جب پہنچا تو میں نے غزالہ سے بھی کہا کہ انسان بن کے بیٹھیں اور۔ میں سامنے ہی تھا اور ان کی بیٹی کو بھی میں نے کہا کہ سکون سے بیٹھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی جتنی فوٹو گرافس آپ دیکھ رہے ہونگے ٹھیک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو جب ہاسپیٹل لیکر آئے تو انکا چہرہ واش تھا اور کوئی نشان نہیں تھا لیکن رائیٹ سائیڈ کا پورا ایریا چاہے چہرے کا ایریا وہ دیکھیں انکا چہرے سوئیل کیا ہوا تھا اور رائیٹ ان کی باڈی سرخ ،ان کا شولڈر، ان کی نیک۔ باقی لیفٹ سائیڈ بلکل اوکے کلیئر تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب، کوئی چوبیس گھنٹ پہلے اس سے پچھلے روز سیٹرڈے ایوننگ کو چھ بجے ہائی کورٹ کے پاس ان کا آفس تھا وہاں سے نکلے اور انکے اپنے لوگ جو ان کے ساتھ کے دوست ان سے بھی کہہ کے نکلے کہ میری بیٹی لنڈن سے آئی ہے میں اس کو اگلے بارہ گھنٹے دوٖں گا۔ جا کے اس کے ساتھ کھانا کھاؤ ں گا اور اسکو کمپنی دوں گا۔ اور صبح اسے چھوڑ کے آؤ ں گا ، پھرآ کے سوؤ ں گا۔ آپ سے شام کو سات بجے ملاقات ہوگی۔کوئی میٹنگ کوئی ملاقات نہیں ہوگی۔ اسکے بعد ڈاکٹر صاحب گھر کو نکلے۔ اسکے بعد پوری رات کوئی صبح پانچ سات بجے سے لوگ دوست انکے جو میرے رابطے میں تھے جو نے مجھے فون کرنا شروع کیا ڈاکٹر صاحب رابطے میں نہیں آ رہے ۔ اور نکی بیٹی نے آج جانا تھا وہ بہت بھی پریشان ہے رو رہی ہے اور وہ کہاں ہیں؟ خیر، وہ کوئی دس بجے کے قریب پھر انکی باڈی مل گئی اور اسکا وہ میسیج آیا انکے بھانجے کا ایڈریس تھا۔ وہاں پہ وہ پہنچے اور اسکے بعد پھر وہ سارا معاملہ اسکو دیکھا۔ تو۔۔۔ میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ غزالہ خان نے باڈی لینے سے انکار کردیا ۔ ذہین صاحب جو انکے بھائی تھے وہ یہ چاہ رہے تھے کہ چپکے سے کسی جگہ ڈاکٹر صاحب جگہ پہ چھیپا والے کولڈ اسڑوریج لے جائیں وہاں پہ ٍانکو غسل دیں اور روانہ کردیں۔ غسل دیتے وقت انکے خاندان کا کوئی شخص موجود نہیں تھا میں نے اپنے ہاتھ سے غسل دیا چھیپا والوں کے ساتھ مل کے۔ وہاں سے انکی کوشش یہ تھی کہ وہ ہم لوگ چلے جائیں گے ۔انہوں کہا کہ جی آپ جائیں اور اسکے بعد یہ باڈی لے جائیں اور خاموشی سے دفنا دیں۔ ہم پوچھتے رہے ہم ان کے لیے قبر کا انتظام کریں انہوں نے کہا جی قبر کا انتظام ہو گیا ہے۔ آپ کو پتہ ہے آج کل کراچی میں قبر کا انتظام کرنا ایسے ہی جیسے آپ کی لاٹری لگ جانا۔ وہ وہا ں پہ سب گھوم رہے تھے، ان کے بھائی اور ان کی مسز ایک ایسی گاڑی کے اندر گھوم رہے تھی غزالہ خان، اور انکی بیٹی ایسی گاڑی میں گھوم رہی تھیں مجھے سمجھ میں نہیں آیا اس کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ جو ڈرائیو کر رہے تھے وہ کون لوگ ہیں؟ اور اسکے بعد انہوں نے آکے انتہائی سمپلی کہہ دیا کہ جی یہ ہارٹ اٹیک ہے۔ اسکے بعد جس طرح سے میت لے کر ہم پہنچے، اور میت جو ہے ذہین عارف کے گھر دو منٹ نہیں رکی وہاں سے انہوں نے رش کیا اورباڈی لے گئے مسجد، اور نماز پڑہا کے۔ قبر تیار تھی! قبر کے لیے کوئی آدمی ہلا نہیں۔ قبر کس نے تیار کی؟ کسی کو نہیں پتہ۔ ہم کہے رہے ہیں کہ ہم کسی بہتر جگہ دیکھ لیں، چیزیں کر لیں۔ وہ کہے رہے تھے نہیں جی قبر تیار ہے۔ دوپہر بارہ بجے سیمی جمالی کا میسیج آر ہا ہے کہ جی پوسٹ مارٹم ہو گیا۔ پوسٹ مارٹم ساڑہے تین چار بجے کمپلیٹ ہوا ہے۔ اس میں جو باڈی لینگویج غزالہ خان کی تھی اور جسطرح سے وہ بیہوو کر رہی تھیں، ہنستی مسکراتی، جسطرح سے وہ ایک مخصوص گاڑی کے اندر مخصوص لوگوں کے ساتھ گھوم رہی تھیں سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اسکے بعد جو انکے اسٹیٹمینٹ آ رہے تھے، جو انکی بیٹی کا اسٹیٹمینٹ آیا ہے مجھے ۔ میرے لیے ظفر عارف ہمیشہ استاد تو تھے ہی، میرے باپ کی جگہ بھی تھے۔ میں چار پانچ دن سے اتنی تکلیف میں تھا کہ میں کوئی پوسٹ کوئی چیز ظفر عارف کے بارے میں لکھا بولنا اور انکی تصویر چھاپنا یا میں اپنے آفس بھی نہیں گیا۔ آج میں یہ اسٹیٹمینٹ دیکھ کے جو ٹی وی پہ بھی آئی ہے غالبن اور میں نے اسکو یہاں پڑہا اور مجبوراً جو ہے وہ یہاں آپ لوگوں سے شیئر کیا کہ ایکچوئیلی کیا غزالہ خان کی باڈی لینگویج تھی اور کیا انکے بھائی کی انکو ایسا لگ رہا تھا کوئی چیز انکے پیچھے لگی ہوئی ہے ذہین کے اگر وہ نہ ہوا انہیں فوراً نہ دفنایا تو ان کے لیے پتہ نہیں کیا پرابلم ہو جائے گا۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ آپ بھی یہاں سے چلے جائیں ۔میں نے ان سے کہا بھائی، میں ڈاکٹر ظفر عارف کو اون کرتا ہوں ، میں انکے وارثوں میں سے ہوں۔ تو آپ کو کوئی پرابلم ہے، ایجنسی والے آ رہے ہیں کوئی لوگ آ رہے ہیں تو انہیں میں خود یکھ لوں گا۔ وہ کوئی پرابلم نہیں ہے۔ تو بہرحال میں مطلب اسکو اسٹرانگلی کنڈیم کرتا ہوں جو چیزیں جو ہیں غزالہ خان کی بیٹی نے کہیں آئی وازنٹ ایکسپیکٹ کہ جی شہزاد اس طرح کی گفتگو کرے گی۔ اس کو یہ پتہ بھی نہیں ہے کہ وہ کہہ کیا رہی ہے؟ بات کیا کر رہی ہے! سمپلی وہ اسکا جو بیس سالہ ریکارڈ ہے کہ اسکو اس شخص ۔۔ میں اب آپ سے کیا کہوں تمام لوگوں سے ۔ سوری! اس میں کوئی چیز جو آپ لوگوں کو لگے یا بلو دی بال لگے کہ یہ باتیں شیئر نہیں ہونی چاہیے تھیں کہ میں بڑی تکلیف میں تھا اور کیونکہ میں اس سارے پراسیس میں شامل رہا تو مختلف جو ۔کنسپریز ہو رہی تھیں اور جو کچھ معاملات ہو رہے رتھے تھے میں نے آپ نے ھم سب نے وقت ساتھ گذارا ہے تومیں چاہ رہا تھا آپ کو سب فیکٹ کا پتہ آپ کو کوئی چیز کنسیلڈ نہ ہو۔ اسلام علیکم ۔”
( بشکریہ :ہم سب ۔۔ لاہور )