آج کل امریکی صدر ٹرمپ کی سپریم کورٹ میں ایک جج بریٹ کووانوو کی نامزدگی نے احتجاجی لہریں اور غصہ برپا کیا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی جہان خانی انصافی سسٹم ہوتا ہے۔ ہوا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے جس شخص کو امریکی سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا ہے اس پر ایک خاتون کرسٹین بیلسی فورڈ نے الزام لگایا ہے کہ جب یہ نامزد جج قانون کا طالب علم تھا تو واشنگٹن کے علاقے میں ایک پارٹی میں اس نے شراب اور منشیات پلا کر اس خاتون کیساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کوئی چھتیس سال پراناقصہ ہے جب خاتون کرسٹین بیلسی پندرہ برس کی تھی اور ہائی اسکول کی طالبہ تھی۔ ساری بات ایک کمزور عورت اور طاقت کی ہے۔ یہ کمزور عورت جو کہ بہت ہی ذہنی دباؤمیں بڑے عرصے تک ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے خود کو پھر سے جوڑا ۔ اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور پھر ایک بڑی وکیل بن گئی۔ سفید فام تھی، دولتمند گھرانے کی تھی ۔ کرسٹین بیلسی اس وقت بول پڑی جب صدر ٹرمپ نے جو خود خواتین کے بارے میں وہی خیالات رکھتے ہیں جو ہمارے ہاں عورتوں کے بارے میں بعض لوگوں کے ہیں نے ایسے شخص کو سپریم کورٹ کیلے جج نامزد کیا اور سینیٹ میں اس کی نامزدگی کی توثیق کیلئے سماعت ہوئی۔
امریکی عورت لامحالہ بہت ہی آزاد اور خود مختار ہے۔ اس آزادی اور خود مختاری منوانے کو امریکی عورت نے زبردست جدوجہد کی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں عورت کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ اگر عورت کی صحیح خودمختاری دیکھنی ہو تووہ امریکی عورت کو حاصل ہے لیکن پھر بھی مردانہ سماج مردانہ سماج ہے۔ پدرانہ سماج ہر جگہ پدرانہ سماج ہوتاہے۔ امریکہ بدقسمتی سے عورت کو اب بھی صدر منتخب کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ اسی لئے ہم نے دیکھا امریکی اکثر مردوں نے ٹرمپ کو ہی منتخب کیا۔ لیکن جب ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں عہدہ صدارت سنبھالا تو دس لاکھ عورتوں نے واشنگٹن میں مارچ کیا۔ وی ریزسٹ یعنی ہم مزاحمت کرتےہیں تحریک کی بنیاد رکھ دی۔
تو میں کہہ رہا تھا کہ جب بریٹ کووانوو کی نامزدگی کی توثیق کی سماعت ہوئی تو بیچاری کرسٹین بیلسی کے الزامات کا پہلے تو مذاق اڑایا گیا ۔ یہاں تک کہ الزام تلے آئے ہوئے جسٹس کے عہدے پر آنیوالے شخص نے اسے جھوٹ قرار دیا اور کئی مرد سینیٹر و دیگرنے وہی موقف اختیار کیا جو مظلوم عورتوں کیساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر آمر کیا کرتےہیں۔جب کئی عورتیں اس عورت کی حمایت میں امریکی سینیٹ میں بول اٹھیں تو وہ عورتیں بھی کہنے کو آگے آئیں جن کے ساتھ بھی زیادتی ہوچکی تھی۔ الزام لگانے والی خاتون کرسٹین بیلسی کا پولی گراف (جھوٹ پکڑنے والی مشین) ٹیسٹ بھی ہوا ۔ حالانکہ پولی گراف ٹیسٹ تو الزام تلےآنیوالے کا ہونا چاہئے تھا۔ دو باہمت خواتین نے نامزد کردہ جج کو لفٹ سے نکلتے ہی آڑے ہاتھوں لیا۔ لیکن ایسے بھی ظالم مرد تھے جنہوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں کے بعد وہ خاتون گواہی کہاں سے لائے گی۔ مجھے لگا واشنگٹن نہیں مظفر گڑھ کی پنچایت ہے۔ ایک پاکستانی فیمنسٹ خاتون نے یہ سب ٹیلی وژن پر دیکھتے کہا ’’مجھے تو یہ سب دیکھ کر قے آ رہی ہے‘‘
لیکن اگلے دن ہیلری کلنٹن اٹلانٹک میگزین کے میلے میں ایک نشست میں کہہ رہی تھیں کہ وہ ایک وکیل کی حیثیت سے خاتون کے الزامات کو انتہائی قابل اعتبار مانتی ہیں۔ وگرنہ کون خود کو ایسے عذاب سے گزرنے دے گا۔
اس غصے اور احتجاج پر سبکی پر انتظامیہ نے اعلان کیا اب ایف بی آئی بریٹ کووانوو کے خلاف تحقیقات کرے گی لیکن وائٹ ہاؤس نے ایف بی آئی کی تحقیقات کے دائرے کو محدود رکھنے کا حکم جاری کیاہے۔ اگر امریکہ میں عورت کو انصاف نہ ملے گا تو پھر کہاں ملے گا؟ فی الحال تو ان دنوں یہ امریکی سماج اس معاملے میں خطہ برصغیر لگتا ہے۔ لیکن مجھے نہ جانے کیوں یقین ہے کہ یہاں فتح آخر عورت کی ہوگی۔ کئی خواتین نے کہا کہ کرسٹین بیلسی فورڈ کے کیس نے ان کے زخموں کو پھر سے ہرا کر دیا ہے۔
اگر ایسا شخص جج مقرر ہوگیا تو پھر ایک طویل رات ہوگی۔کیونکہ امریکہ میں سپریم کورٹ کا جج جس کی نامزدگی صدر کرتا ہے تا عمر ہوتا ہے.یہ دوسری بات ہے کہ وہ برطرف ہو جو کہ کم ہوتا ہے، یا خود ریٹائرڈ ہو جائے یا پھر استعفیٰ دے دے، جج کووانوو اس وقت پچاس کے پیٹے میں ہے اور ابھی عمر پڑی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت نو جج ہوتے ہیں جن کی صدر امریکہ کی طرف سے نامزدگی کے بعد سینیٹ توثیق کرتی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ میں ٹرمپ کی مہربانی سے قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہے۔اگر کووانوو کی توثیق ہوگئی تو پھر امریکہ میں بھی جہان خانی انصاف ہوگا۔ جہان خانی انصاف کیا ہوتا ہے ؟ یہ صرف کوئی سندھی ہی بتا سکتا ہے۔
پھر وہی بات کروں کہ اپنے مقدمے میں اپنی آخری دفاعی تقریر میں بھٹو نے بھی کہا تھا ’’ہم اسے جہان خانی انصاف کہتے ہیں می لارڈ! “ شاید سارے طاقتور مرد کہیں بھی ہوں جہان خان ہی ہوتے ہیں۔ پھر وہ مرد سفید فام ہو اور اسٹرئٹ ہو۔ طاقت بھی رکھتا ہو۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ