ویسے تو پولیس ایوب خان کے زمانے سے اس کے دو گورنروں نواب امیر محمد خان آف کالاباغ اور جنرل موسیٰ خان کے ذریعے ’’سیاسی‘‘ بن چکی تھی لیکن یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے پولیس کو باقاعدہ سیاسی نتائج حاصل کرنے کو فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی دھاندلیوں میں بھی استعمال کیا تھا تو بی ڈی نظام میں وڈیروں، چوہدریوں، نمبرداروں اور سرداروں کے ووٹ ایوب خان کو دلوانے کو بھی۔ یہ بھی ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ اس کی حکمران کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی صدر اور جنرل سیکرٹری ترتیب وار ڈی سیز اور ایس پیز کو بنایا جائے۔ پھر جب ایوب خان کے کابینہ سے الگ ہوکر ایسے دبنگ آمر کے خلاف بھٹو راستوں پر نکلے تھے تو یہی ’’سیاسی پولیس‘‘ اس کے آ ڑے آئی۔ ایوب خان کے خلاف ملک میں عوامی رابطے کی مہم کے دوران جب ذوالفقار علی بھٹو حیدرآباد پہنچے تھے جس ہوٹل میں ان کا قیام اور استقبالیہ تھا اس ہوٹل کے مالکان کو اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے بھٹو کا اپنےہوٹل میں کمرہ اور تقریب کینسل نہ کیے تو وہ ہوٹل میں توڑ پھوڑ کو ’’لوگ‘‘ بھیجے گا۔ یعنی کہ ایس پی کی سرکردگی میں غنڈہ گردی۔ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کے کمرے کی بکنگ ہوٹل مالکان نے بھٹو سے دیرینہ دوستی کے باوجود کینسل ہی کردی تھی۔ جب بھٹو وہاں پہنچے تو ہوٹل کو تالے لگے تھے۔
لیکن جب بھٹو وزارت سے الگ ہو چکے تو لاڑکانہ کا ایس پی عرفان تھا۔ کئی سال بعد عرفان نے اپنے کسی واقف کار کو بتایا تھا کہ ایک رات ان کی ڈیوٹی المرتضیٰ میں تھی اور رات گئے بندوق کے فائر پر ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا ان کے کمرے میں ننگے پاؤں پریشان حال بھٹو کھڑے تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر ایس پی عرفان کو بتایا کہ ان کے بیٹے شاہنواز کے ہاتھوں کسی نوکر کا اتفاق سے خون ہو گیا ہے۔ تو عرفان نے پریشان بھٹو سے کہا وہ جائیں جا کر آرام کریں اور وہ خود باقی کیس کو سنبھال لے گا۔ تو اسی طرح پولیس حکمرانوں اور سیاستدانوں کی وفادار ہوتی ہے۔ یہی عرفان جام صادق علی کے دور میں پھر اسپیشل برانچ کا ڈی آئی جی بھی بنایا گیا تھا۔ ایسے کئی راز ڈی آئی جی عرفان اپنے سینے میں دفن اپنے ساتھ لے گیا ہوگا۔
پھر جب بھٹو صدر اور وزیر اعظم بنے تو انہوں نے جس طرح پولیس، فیڈرل سیکورٹی فورس یا جاسوسی سول یا غیر سول اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد اور طاقت کیلئے استعمال کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ سندھ تو بالکل اس میں ایک ریاست کے اندر الگ پولیس ریاست تھی۔ محمد خان جونیجو ہوم سیکرٹری، سندھ کا آئی جی سردار عبدالرحیم رئیسانی کو بنایا لیکن اصل طاقت اور ریاست ان کے آبائی لاڑکانہ کے ایس پی پولیس محمد پنجل کے ہاتھ میں تھی جس کے ذریعے اس نے بھٹو کے سیاسی چاہے ذاتی مخالفین کو ’’آہنی پنجے‘‘ سے نچوڑا اور رگڑا۔ پھر وہ بھٹو کے مقامی مخالف یا غیر ووٹر غیر سیاسی شیخ برادری کے افراد تھے کہ سندھی قوم پرست نوجوان اور ان کے گھر والے محمد پنجل بھٹو کا راؤ انوار بنا ہوا تھا۔ یہی محمد پنجل ایس پی و دیگر نامی گرامی پولیس افسر تھے جن کے ہاتھوں بھٹو حکومت کے دوران سیاسی اور ذاتی مخالفین کے ماورا عدالت قتل ہوئے۔ ان قتلوں کی ابتدائی شروعات امن عامہ کے نام پر لاڑکانہ ضلع اور ڈویژن سے ہی شروع ہوئی جب جرائم پیشہ افراد کیلئے ’’گولی کا آرڈر‘‘ متعارف کروایا گیا۔ کہتے ہیں سب سے پہلے بھٹو کی بڑی بیگم امیر بیگم کے گھر نقب لگا کر چوری کرنے والے چوروں پر ماورائے عدالت ’’گولی آرڈر‘‘ کی تعمیل کی گئی۔ پھر شاید سکھر کے بدنام زمانہ کھوسو اسمگلر جس کے گھر میں پھر آج کے نادرا تب شناختی کارڈ آفس قائم کیا گیا تھا۔ لیکن پھر کچھ دنوں بعد سیاسی مخالفین کو بھی جھوٹے مقابلوں یا تحویل میں تشدد کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ ایسے مقتولین میں پیر پگاڑو کے خلیفہ امین فقیر سمیت چھ حر مرید، جنہیں لاک اپ سے نکال کر پولیس نے گولیاں مار دی تھیں نیز ایک اور ڈی ایس پی کے ذریعے جامشورو انجینئرنگ کالج کا ہونہار لیکچرار اشوک کمار اور سردار عطاء اللہ مینگل کا جواں سال بیٹا اٹھا لیے گئے جن کی لاشیں اب تک نہیں ملیں۔ ڈی ایس پی جو ضیاء الحق کے دنوں میں سات سال کے قریب ان گمشدگیوں میں جیل کاٹ چکا تھا اس نے اپنے قریبی لوگوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے چیف منسٹر کے حکم پر ان دونوں کو ٹھٹھہ میں گھوڑا باری کے قریب سمندر برد کیا تھا۔ دبنگ چیف منسٹر نے نہیں لیکن ڈی ایس پی نے ان گمشدگیوں پر سزا کھائی۔
پہلا ماورائے عدالت قتل لاہور شاہی قلعے میں حسن ناصر کا تھا جو ایوب خان کی آمریت کے دوران ہوا۔ لیکن بھٹو کے جمہوری عوامی دور میں اسد اللہ مینگل، اشوک کمار، جانی داس، حسین ناصر زیدی سمیت ایسے کئی نوجوان غائب ہوئے جن کے گھر والے آج بھی ان کا انتظار کرتے ہیں۔ اشوک کمار اور جانی داس کی ماؤں کا تو مجھے پتہ ہے۔ اسی طرح حسین ناصر ثانی کی بہن کا۔ بھٹو دور میں اس طرح کی گمشدگیوں پر سندھی زبان کے صف اوّل کے افسانہ نگاروں میں سے نسیم کھرل نے اپنی ایک شاہکار کہانی ’’مساوات‘‘ بھی لکھی تھی جو پولیس کے ہاتھوں نوجوانوں کی ماورائے عدالت قتل کے پس منظر میں ہے۔ اسی طرح امر جلیل کی امر کہانی ’’قربان علی کنگلے کی روح‘‘ ہے جو اشوک کمار کی ’’حوالاتی گمشدگی‘‘ کے پس منظر میں ہے۔ حالیہ دنوں میں جب زرداری نے کہا کہ اس میں بھٹو کی روح آ گئی ہے تو میں نے کہا تھا کہ کاش وہ امر جلیل کی مذکورہ کہانی پڑھ لیتے۔ امر جلیل بھی ان لکھنے والوں میں سے تھے جن کے خلاف ایک کہانی لکھنے پر بدنام زمانہ ڈیفنس آف پاکستان رولز(ڈی پی آر) کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔
بھٹو کے دورکا خاتمہ ہوا ۔ پنجل ایس پی کا آج تک پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں گئے اور کب فوت ہوئے۔ حروں کے قتل میں ملوث ایس پی غلام شبیر کلیار کا تو انتقال ہی فاٹا کے علاقوں میں روپوشی میں ہوا۔
ضیاء الحق کا دور تو اپنے پیشرو سے بھی کئی سو گنا فسطائی تھا۔ لیکن جب سندھ میں جام صادق علی کا دور آیا تو پی پی پی کے کارکنوں اور رہنماؤں سمیت بشمول آصف علی زرداری (جو کہ نہ تب پی پی پی لیڈر تھے نہ کارکن) جام نے اپنی ’’سیاسی پولیس‘‘ کو انتہائی بدترین انتقامی انداز میں استعمال کیا۔ وزیر داخلہ عرفان اللہ مروت، کراچی سی آئی اے زیر کنٹرول سمیع اللہ مروت، اور دیگر خاص ایس پیز اور ڈی آئی جیز تھے جو تھرڈ ڈگری تشدد، حوالاتی قتل، گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ایسے بھی جن کو تھانیدار سے ایس پی اور ایس پی سے ڈی آئی جیز بنا دیا گیا۔ ان کی واحد اہلیت سیاسی مخالفین، جام مخالفین اور پی پی پی کے کارکنوں اور رہنماؤں پر بے دریغ تشدد تھا جن میں خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔ جنرل شفیق رپورٹ فقط اس کا ایک رخ ہے۔ بظاہر خود کو ایماندار کہلانے والے ایسے پولیس افسر جعلی پولیس مقابلوں میں مرنے والوں کے ’’سروں کی قیمت‘‘ وصول کر کے کروڑ پتی بن گئے۔ سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوانوں کو غائب کر کے ان پر تھرڈ ڈگری تشدد کیا گیا۔ کئی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے۔ منیرہ شاکر، شہلا رضا، ٹوانہ اور غریب کارکن عیسیٰ بلوچ کی بیوی پر سی آئی سینٹر میں تشدد کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی کے جام کے ہاتھوں تشدد سہہ کر رہا ہو کر آنیوالے جلک رہنما سے بینظیر نے پوچھا تھا کہ ’’جام صادق علی مخالفین پر ایسے ہتھکنڈوں میں کس کا شاگرد ہے؟‘‘تو رہنما لاجواب ہوگیا تھا۔ ’’میں اب بی بی سے کیا کہتا کہ جام صادق علی یہ سب آپ کے والد سے سیکھا تھا۔‘‘
لیکن جب بینظیر کے دونوں ادوار آئے تو ان کی حکومتیں جام صادق علی سے کئی ہاتھ کیا میل آگے تھیں۔ یہی وہ دوسرا بینظیر دور تھا جس میں ایس ایچ او انوار احمد کی تعیناتی گڈاپ تھانے پر کرنے کے احکامات پرائم منسٹر ہاؤس سے بذریعہ فیکس آئے تھے۔ کراچی آپریشن کے زمانے میں کراچی میں اپنے علاقے میں اسی انوار احمد نے لائوڈ اسپیکر پر موبائل سے اعلان کروایا تھا کہ اگر کوئی نوجوان کاٹن کا جوڑا یا بیس بال ٹوپی الٹی پہنے گا تو گرفتار کیا جائے گا۔ کراچی آپریشن کے جعلی مقابلوں سے یہ ایس ایچ او انوار احمد اب ایس ایس پی راؤ انوار تھا۔ راؤ انوار کل کا پرانا محمد پنجل ورژن ہے لیکن رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ اتھارٹیوں، دہشت گردی کے جدید زمانوں میں وہ ’’ٹرمینٹر ٹو ٹائپ‘‘ ’’انکائونٹر اسپیشلسٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایسے زیادہ تر جعلی مقابلوں میں مارے جانیوالوں کے سر کی اصل قیمت یا شہر کے کرائم رپورٹر بتا سکتے ہیں یا پھر اسپتالوں کے میڈیکو لیگل انچارج۔ لیکن انکو جعلی مقابلوں میں نہیں مرنا۔ مارتا جا سر کی قیمت وصول کرتا جا۔
فیس بک کمینٹ