جیسا مصنف ویسی تصنیف عجیب بھولی بھالی سیدھی سادی، رواں دواں، برجستہ اور کرماں والی آپ بیتی ہے۔ چودھری شجاعت حسین کی کتاب جس کا عنوان ہے’’سچ تو یہ ہے!‘‘۔ چودھری صاحب پیشہ ور لکھاری نہیں اور یہی سادگی و پرکاری اس کا حسن ہے۔اس کتاب کو ’’بھولی بھالی‘‘ لکھتے ہوئے میرے دھیان میں وہ مشہور ’’بھولی‘‘ بھی ہے جس نے کہا تھا’’میں بھولی ضرور ہوں مگر اتنی بھی نہیں‘‘ یہ تحریر بھی بھولی ضرور ہے مگر اتنی بھی نہیں کیونکہ یہ کتاب پڑھے بغیر کسی کو پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ عام زندگی میں بھی چودھری صاحب بظاہر بےضرر سا جملہ لڑھکا دیتے ہیں لیکن اس کی ضرب بہت کاری ہوتی ہے، مثلاً مجھے آج بھی یاد ہے کہ نواز شریف کے’’انجام‘‘(پارٹ ون) پر تبصرہ کرتے ہوئے چودھری صاحب نے کہا تھا’’میاں صاب نے ملک نوں ماسی دا ویہڑا سمجھ لیا سی‘‘۔ چودھری صاحب کا’’مٹی پاؤ‘‘ بھی بہت مشہور ہے اور میں نہیں جانتا کہ کتنے لوگوں کو ان دو لفظوں کا حقیقی شعور ہے کہ انسانی زندگی کا تو اخیر ہی’’مٹی پاؤ‘‘ ہے اور اگر انجام یہ ہے تو آغاز سے انجام تک یہی رویہ اپنانے میں کیا مضائقہ ہے لیکن المیہ یہ کہ اکثر انسانوں کے اندر ننھے منے فرعون چھپے ہوتے ہیں۔ مبارک ہیں وہ لوک دانش سے مالامال لوگ جن کے اندر چھوٹے موٹے درویش چھپے ہوتے ہیں۔ چودھری شجاعت کا تعلق اسی محدود برادری سے ہے، نیم درویش اور پورا دانا۔چودھری صاحب کی آپ بیتی سے اندازہ ہوا کہ جہاں ہماری سیاست میں کمینے، کم ظرف اور منتقم مزاج لوگ ہوتے تھے وہاں چودھری ظہور الٰہی اور اکبر بگٹی جیسے لجپال اور مفتی محمود، غوث بخش بزنجو، باچا خان جیسے معصوم درویش صفت لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو آج کی سیاست میں نایاب نہ سہی کمیاب ضرور ہیں۔ چودھری شجاعت بزنجو صاحب بارے لکھتے ہیں’’وہ اکثر ہمارے گھر آیا جایا کرتے تھے۔ ان کو مکس چائے بہت پسند تھی۔ آتے ہی کہتے’’بھئی وہ گڑ بڑ والی چائے پلاؤ‘‘ وہ مکس چائے کو’’گڑ بڑ والی چائے‘‘ کہتے۔ لال مرچ کے وہ شیدائی تھے۔ لال مرچ کے دو بڑے چمچے دیکھتے ہی دیکھتے نگل جاتے‘‘۔ اکبر بگٹی کو اس کے برعکس سبز مرچ پسند تھی۔ دوپہر کے کھانے میں، میں نے اکثر دیکھا کہ دس بارہ بڑے سائز کی نہایت کڑوی ہری مرچیں کچی چبا گئے‘‘۔ مولانا مفتی محمود مرحوم و مغفور بارے لکھتے ہیں’’مولانا مفتی محمود شوگر کے مریض تھے لیکن میں نے اپنے گھر میں کئی بار ان کو اس طرح دیکھا کہ ایک بڑی سی پلیٹ میں آم ہیں، آم میں سے گٹھلی نکال کر اس میں آئس کریم ڈال کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھارہے ہیں تاکہ کوئی ان کو ٹوک نہ دے کہ شوگر کی وجہ سے اتنا میٹھا ان کے لئے اچھا نہیں‘‘۔اب تو وہ قائدین ہیں جو پورا پورا ملک کھا جائیں تو ڈکار نہ ماریں۔ ڈاکے بھی ماریں اور آنکھیں بھی دکھائیں۔ یہ لال یا ہری مرچیں،آم یا آئس کریم نہیں ملکی وسائل ہڑپتے ہیں۔ کوئی حساب مانگے تو تڑِتے اور تڑپتے ہیں۔میں نے جان بوجھ کر خود کو اس کتاب کی لائٹر سائیڈ پر رکھا ہے کیونکہ دوسری سائیڈ کے ساتھ برادر عزیز حامد میر گزشتہ روز پورا پورا انصاف کرچکے ہیں۔اس کتاب سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی ہمارے سیاستدان استاد دامن اور حبیب جالب جیسے مجذوبوں کو بھی محبوب اور محترم رکھتے تھے۔ یہ انہی کی تربیت تھی کہ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی نوجوانی میں استاد دامن کے حجرے ٹکسالی گیٹ میں حاضری دیا کرتے اور ان کے بزرگ حبیب جالب جیسوں کے نخرے اٹھایا ا ور اس پر فخر کیا کرتے۔ آج اگر ویسے سیاستدان نہیں رہے تو استاد دامن اور جالب کی جگہ پر بھی تو دکانداروں کے سوا کچھ نہیں۔ دونوں انتہاؤں پر قحط الرجال انتہا پر ہے تو وہ مصرعہ ہانٹ کیوں نہ کرے’’زوال آئے تو پورے کمال میں آئے‘‘چودھریوں کی’’شریفوں‘‘کے ساتھ تعلق تعارف کی تاریخ بھی بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے جو یہ بھی بتاتی ہے کہ جھوٹ سچ، وفا بے وفائی وغیرہ کی روز اول سے ہی ان کے گھر میں کوئی اہمیت، حیثیت اور وقعت نہ تھی۔ یہی ان کی’’ترقی‘‘ کا راز بھی ہے کہ ہر معاشرے میں ترقی کے اپنے اپنے’’راز‘‘ اور ’’انداز‘‘ ہوتے ہیں……انجام خدا جانے!مختصراً یہ کہ ایوب خان کے دور سے گزر کر 1970کے انتخابی معرکے، بھٹودور، 77کی پی این اے تحریک، جنرل ضیا کے عہد اور بینظیر ، نواز زمانوں سے ہوتے ہوئے پرویز مشرف کے عہد سے’’فکس‘‘ ہوچکے الیکشن 2008تک یہ کتاب انتہائی اہم اور قیمتی دستاویز ہے، خصوصاً سیاست کے طالبعلموں کے لئے جنہیں چودھری شجاعت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔نواز شریف کو بھی چاہئے، ’’فارغ ہو کر کچھ لکھیں، اگر لکھنا آتا ہو، بصورت دیگر کسی منشی کو ڈکٹیٹ کرادیں۔ حالات سازگار ہیں کیونکہ جیل تصنیف و تالیف کے لئے خاصی ریلیف فراہم کرتی ہے خصوصاً سیاستدانوں کے لئے ……اگر میاں صاحب واقعی سیاستدان ہیں!
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ