علم، ہنر اور زرخیز ذہن، کسی چیز کی کمی نہیں پاکستان میں ۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کیلئے بنیادی ضرورت ہے۔ فرمان نبوی مہد سے لحد تک علم کے حصول کی تلقین کرتا ہے۔ پہلی وحی ہی حصول علم کا فلسفہ بیان کرتی ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کا انحصار بھی تعلیم پر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تعلیم میں بہت سی مشکلات اور مسائل کا حل ہے۔ ایک وقت تھا جب بی اے کو تعلیم کی انتہا سمجھا جاتا تھا اب بی اے بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ جدید علوم اور ان کی جہتیں اس قدر ہیں عام علم عمومی ہو کر رہ گیا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کر لی ہے، اس کے ساتھ ساتھ چلنا سب کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی فروغ حاصل کر رہی ہے۔ اب لوگ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کا ادراک حاصل کر چکے ہیں لیکن اتنی اعلیٰ تعلیم کے باوجود روزگار کے مواقع محدود اور راہیں مسدود ہیں۔ یہی ایک المیہ ہے جس سے لوگ علم کی شاہراہ پر چلنے سے گریز پا ہیں۔ روزگار کے ذرائع، وسائل اور راہیں کشادہ اور زیادہ ہوں تو لوگ علم و ہنر کی جانب زیادہ دلچسپی سے گامزن ہو جائیں۔ وطنیت اور پاکستانیت کی محبت کا یہ عالم ہو کہ کسی میں بیرون ملک جانے کی تحریک پیدا نہ ہو۔ علم برائے علم ہی نہیں علم برائے غم روزگار ناگزیر ہے۔ آج مردوں کے ساتھ خواتین بھی سائنس و فن میں اتنی ہی متحرک ہیں جتنا وقت کا تقاضا ہے لیکن بات یہ ہے جب کسی درخت پر پھل لگے لیکن اسے کھانے والا کوئی نہ ہو، پھول کھلیں مگر اس کی خوشبو کسی کی سانس معطر نہ کر سکے تو نتائج حوصلہ افزا نہیں مایوسی میں ڈھل جاتے ہیں۔ ملک وسائل سے مالا مال ہے۔ نئی نسل زرخیز ذہنوں کی مالک ہے۔ ضرورت اہل اقتدار کی سوچ کی ہے جو علم کی قدردان ہوں، محنت کرنے والوں کو ان کی قدر اور معاوضہ دینے پر یقین رکھتی ہو۔ علم، سوچ اور محنت کا صلہ ملنے کا ماحول ملک کو جنت بنا سکتا ہے۔ ہمارا وطن صلہ دینے والے معاملے میں پسماندہ ہے۔ علم اور علم والوں کی کمی نہیں ہے لیکن یہاں علم اور محنت کا صلہ نہیں ملتا پھر لوگ کہتے ہیں اس علم کا کیا فائدہ جو ہمارے گھر کا چولہا نہ جلا سکے ۔ جہاں جہالت کا راج ہو اور جاہل ہی معتبر ہوں وہاں سے علم ہجرت کر جاتا ہے ۔
فیس بک کمینٹ