یہ اکتوبر 1984 کی بات ہے یہ وہ دور تھا جب پاکستان ہاکی کے کھیل پر حکمرانی کرتا ، تمام اعزازات ہمارے ملک کے پاس تھے ، قومی سطح پر اس کھیل کی مقبولیت کی وجہ سے تعلیم اداروں میں اس کھیل کی باقاعدہ ٹیمیں ہوتی تھیں اور ان کی تربیت پر توجہ بھی دی جاتی تھی پاکستان کا پہلا آسٹرو ٹرف ہاکی کلب آف پاکستان میں لگا تو قومی کیمپ بھی وہیں لگتا اور بین الاقوامی ٹورنامنٹ بھی کراچی ہی میں منعقد ہوتے ، اس وجہ سے ہمارے اسکول اور دیگر کئی مقامی کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کھلاڑیوں سے ملنے کا موقع ملتا ، اس دور میں مقامی کلب اور تعلیمی ادارے اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے خصوصی کیمپ اور دورں کا بندوبست ذاتی طور پر کرتے،
اسی سلسلے میں ہمارے اسکول کی ہاکی ٹیم کا دورہ پنجاب کے لئے دو شہروں لاہور اور گوجرہ کا انتخاب کیا گیا، گوجرہ اس دور میں کسی بھی ہاکی کے کھلاڑی کے لئے ایک خواب تھا اس شہر نے پاکستان کو کئی نامور اولمپئن دئے اور اس دور میں پاکستان جونئیر ٹیم میں س سات کھلاڑی کھیل رہے تھے اور اس میں سے اکثر 1994 کا ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔
جب ہم سب پنجاپ میں اپنے پہلے پڑاؤ گوجرہ جانے کے لئے ٹرین میں بیٹھے تو وہ ایک خوابوں کا سفر تھا جذبات سے بھرا حنیف خان کے دیس سے سمیع اللہ اور کلیم اللہ کے شہر بہاولپور سے ہوتا ہوا منظورالحسن اور رشید الحسن کے ارمانوں بھرے شہر گوجرہ اور آخر میں پر جوش کپتان اختر رسول کے شہر لاہور ، یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے میدان ہاکی کے کھلاڑیوں سے آباد ہوتے اور کئی نوجوان دل میں حسن سردار کی طرح انڈیا کے خلاف تاریخی گول جیسا گول ، سمیع اللہ اور کلیم اللہ کی طرح حملہ کرنے کے خواب سجائے ہوتا اسی طرح کے مستقبل کے خواب سجائے ہم بھی گوجرہ پہنچ گئے، گوجرہ کوئی زیادہ ترقی یافتہ شہر نہیں تھا اور یہاں کوئی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس بھی نہیں تھا ہمارے قیام کا انتظام ایک مقامی کھلاڑی کی حویلی نما گھر میں تھا یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی تھی جب تک کہ ہم اس جگہ پہنچ نہ گئے ، کراچی کے چھوٹے گھروں کے عادی بچوں کے لئے 35 کنال کی چار دیواری والا گھر حیران کن تھا ، جس میں کئی کمرے ، دالان اور صحن تھے یہ گھر وہاں کے ایک زمیندار ممتاز حسین کا تھا جو بی اے پاس تھے اور مقامی اسکول کے استاد بھی تھے ہم مین گیٹ سے حویلی میں داخل ہوئے تو احساس ہوا کہ وہاں تو بڑے استقبال کی تیاری تھی جس میں خلوص اور محبت کا اظہار زیادہ اور دنیا داری کم تھی ہم گھر کے ملازمین اور دیگر افراد نے سامان لے لیا اور فوراً کھانے کے انتظامات میں لگ گئے ہم گھر کے مرکزی حصے کے دائیں جانب کئی کمرے تھے جو خاصے وسیع اور خوبصورت تعمیر ہوئے تھے تقریباً پونے ایک بجے لنچ کے انتظامات مکمل کر کے ممتاز حسین صاحب کے بیٹے باری باری سارے کمروں میں گئے اور کھانے کی دعوت دی جو کراچی سے آئے لوگوں کے لئے معمول سے کافی پہلے تھی کیونکہ شہری علاقوں میں لنچ ذرا دیر سے ہوتا تھا کھانے کے دوران ممتاز صاحب نے اپنا اور خاندان کے افراد کا تعارف کروایا ان کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں تینوں بیٹے اور تین بیٹیاں شادی شدہ تھے ان کے دو بھائی انگلینڈ تھے ان کی بیگم زہرا ممتاز جن کو سب بی بی صاحبہ کہتے ایک کم گو مگر مضبوط منتظم تھیں کھانے کے دوران ہی شب و روز کے معمول کا بھی اندازہ ہو گیا کہ یہاں زندگی عشاء کی نماز کے بعد ختم ہو جاتی لوگ جلد سونے اور جلد اٹھنے کے عادی ہیں اور ہاکی کے کھلاڑیوں کو نماز کی بعد منہ اندھیرے گراؤنڈ کا رخ کرنا ضروری تھا ورنہ سخت سزا ملتی ، ہمارا قیام یہاں پانچ روز تھا آج مرتب پروگرام کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے کھانا لگا دیا گیا ہم نےمحسوس کر لیا تھا کہ اس منظم بندوست میں بی بی صاحبہ کا بڑا عمل دخل ہے وہ جتنی کم گو تھیں اتنی ذہین اور تیز رفتار تھیں گھر میں 20 افراد کا قیام اور اتنا ڈسپلن جس کی مثال کسی پروفیشنل ہوٹل میں نہ ملے ، وہ خاتون ہر وقت ہاتھ میں تسبیح رکھتیں چہرے پر ایک سکون۔
کھانے کے بعد ہم سونے کے لئے چلے گئے جو کہ ایک مشکل عمل تھا کیو نکہ ہم سب اس دور کی واحد تفریح ٹی وی دیکھنے کے عادی تھے اگر چہ ٹی وی تو دستیاب تھا مگر ہم چونکہ ہاکی کے سٹڈی ٹور پر تھے تو لوکل ڈسپلن کو فالو کرنے کے پابند تھے خیر میں نے بستر پر لیٹے ہی ایک تاریخ کی کتاب نکال لی اس دوران گھر میں مکمل سکوت چھا گیا اور برابر والے کمرے سے ٹی وی کی آواز آ نے لگی اظہر لودھی اور مہ پارہ صفدر خبریں پڑھ رہے تھے ممتاز حسین صاحب نے پہلے پوری توجہ سے خبریں سنی اور پھر ٹی وی بند کرنے کے بعد پنجابی کی ایک مخصوص گالی اظہر لودھی کو دی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیھڑی کیسٹ بھری انہیں اوہی بولنا ، اور شاید سونے چلے گئے
اگلی صبح ہم نماز فجر کے فوراً بعد ٹریننگ کے لئے گراؤنڈ پہنچے تو اندازہ ہوا کہ گوجرہ سے تعلق رکھنے والے ہاکی اولمپین دراصل ایک معجزہ سے کم نہ تھے دراصل یہ ایک جذبہ ہی تھا جو ان سہولیات سے عاری بے ترتیب میدانوں میں کسی مکمل سیفٹی کٹ کے بغیر کھیلنے والے لڑکوں میں موجزن تھا اور خدا اپنے کرم سے اس کھیل کو عبادت سمجھ کر کھیلنے والے کو دنیا بھر میں کئی بار وکٹری اسٹینڈ پر لایا اور ان محنت کشوں کے ہو نہار بچوں نے بی بی صاحبہ جیسی ماؤں کی تسبیح کی لاج رکھی اور پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو سربلند کیا ،ہمارا شیڈول میں صبح ٹریننگ اور شام کو کسی مقامی ٹیم کے ساتھ دوستانہ میچ ہوتا ، یہ وہ دور تھا جب شاید علاقائیت اور لسانیت کا بیج تو بو دیاگیا تھا مگر اس کا زہریلا پودا ابھی پروان نہیں چڑھا تھا اسی لئے لوگوں کی محبت ہم لوگوں سے مثالی تھی ، ہم پریکٹس کے بعد جب واپس پہنچے تو ناشتہ کے انتظامات مکمل تھے یہ ایک فائیو سٹار ہوٹل کے بوفے کے مانند تھا مگر ایک چیز حیران کن اور ناقابل توقع تھی وہ تھی ایک دیسی گھی سے تیار کردہ چوری ، بی بی صاحبہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھی ، تاکہ مہمان کھلاڑیوں کا انرجی لیول بھی کم نہ ہو اور اگر کوئی بچہ گھر میں ناشتہ میں اس کا عادی ہے تو اسے کمی محسوس نہ ہو مختصراً بڑے ہی خلوص اور محبت کا اظہار کیا گیا تھا ہم پانچ روز قیام کے بعد اس جگہ ایک دلی لگاؤ محسوس کر رہے تھے کچھ لڑکے پہلی بار کراچی سے باہر آئے تھے ، اس قیام میں ایک اہم بات بی بی صاحبہ کی ذات ان کا ڈسپلن ان کی نپی تلی گفتگو اور بروقت احکامات اور بچوں بلخصوص بیٹوں کا تابعدار باوجہ ادب و احترام و انس تھا اور ادب و احترام کا یہ معیار ان کی بہوؤں میں بھی تھا بڑی ہی عارفانہ مزاج باوقار خاتون تھیں ۔
جب ہم واپس جانے کو تیار ہوئے تو مقامی لوگوں نے محبت اور تحائف کی ساتھ رخصت کیا مگر اس دوران ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے ہی سفری روداد لکھنے پر مجبور کیا
اس سفر کی اہم باتوں میں سے ایک اہم بات بی بی صاحبہ کی شخصیت اور ان کے ہاتھوں کی بنی چوری تھی جب ہم رخصت ہونے لگے تو ہم سب کو ایک تحفہ ٹور کے ہر رکن کے لئے 4 کلو دیسی گھی تھا جس کے لئے 20 ایک جیسے ایلومینیئم کے ڈبوں کا بندوست کیا گیا جب ہم رخصت ہونے لگے تو ممتاز حسین صاحب اور بی بی صاحبہ نے بڑی محبت کا اظہار کیا ہم نے ان سے دعائیں کرنے کا کہا اور دوسرے چوری اور دیسی گھی کی تعریف کی تو اس وقت وہ عارف مزاج خاتون ایک مصلح کی طرح بولیں ۔
"پتر کدی کسی نوں نئیں کہڑاں دعاواں دے کوئی کم ظرف دعاواں نئی دیندا بس دعاواں لیئا کرو ظرف وا لیاں کولوں تے اے چوری کدی گیھئو تے آٹے نال نئی بنندی اے تے چوری گنن وال ہتھ نے جھیڑے چوری اچ سواد لئے آندے نیں ”
آج تقریباً 36 سال گزرنے کے بعد بھلا ہو اس لاک ڈاؤن کا جس کچھ ایسے لوگوں کا احاطہ کرنے کا موقعہ دیا کہ جو حقیقتاً دعائیں لیکر کامیاب ہوئے ورنہ ان کے ارد گرد ایسے بہت ہی باصلاحیت لوگ موجود جنہوں نے زندگی کی چوری پورے خلوص سے نہیں گنی اور ارد گرد صاحب ظرف لوگوں سے دعائیں نہیں لے سکے اور ایک مشکل زندگی جی رہے ہیں
میرا سلسلہ روز گار ایک ایسا شعبہ ہے جس میں بہت سارے لوگ اپنے ملازمت و کیریئر کے مسائل سے دو چار ہو کر آتے ہیں کچھ کامیاب و متمٰئن لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اگر ہم کسی ایک ہی شعبے اور لیول پر لوگوں پر دیکھیں تو بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ دستیاب وسائل جن میں وقت بھی شامل ہے جن لوگوں نے اپنے حصے کے گھی آٹے اور چینی کا بہترین استعمال کیا اور کیریئر کی چوری پورے خلوص سے بنائی اور مخلوق خداکی دعائیں بھی لیں وہ بڑی متمئن ہیں۔
میں کچھ دوستوں یا ایسے افراد کے نام نہیں لکھ رہا مگر ان میں ایک بات ضرور مشترک ہے کہ ان لوگوں نے زندگی کے سفر میں دستیاب وسائل کو بہترین استعمال کیا مگر اپنے مزاج میں انکسار اور ملنساری کو لازم رکھا اور فرض شناسی نے ان کو دوسروں سے ممتاز کر دیا میں تقریبا 30 سال بعد اپنے ایک سینیئر کالج فیلو کو ملنے ان کے دفتر گیا ہمارے کالج فیلو ز زیادہ تر کاروباری بن گئے سرکاری ملازمتوں میں بہت کم گئے میرے یہ سینئر ایک حساس ادارے میں بہت اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں مین گیٹ سے استقبالیہ اور پھر پوری ملاقات میں 30 سال کا فاصلہ نظر نہ آیا اور اہم بات جو نوٹ کیا وہ ان کا عمومی طرز عمل سب کے ساتھ شفیقانہ رویہ تھا ہم کسی بھی عہدے پر ہوں ہم اس میں عمل پیشہ ورانہ تقاضوں پر کام کرتے ہیں مگر ہمارا عمومی طرز عمل اور انداز گفتگو دل سے خاموش دعائیں نکلتی ہیں اور یہی وہ کمائی ہے جس سے کامیابی کا راستہ آسان ہو جاتاہے
میرے ایک کولیگ اور پرانے دوست نے کچھ عرصہ قبل ایک بڑی ملٹی نیشنل سے ملازمت چھوڑ دی ، پھر کرونا اور لاک ڈاؤن شروع ہوگیا ظاہر بات ہے یہ کوئی ملازمت پیشہ لوگوں کے لئے اچھی خبر نہیں لایا پچھلے ہفتے ان کی کال آئی اور بتایا کہ ان کوایک ملٹی نیشنل کمپنی سے سی او او کی آفر آئی ہے اس درویش صفت انسان کو تقریباً 25 سال سے جانتا ہوں دنیا کی بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم دنیا کے بڑی کمپنیوں میں ملازمت مگر اس انسان نے پروفیشنل تقاضوں کے ساتھ ساتھ انسانی اخلاق کو بھی اہمیت دی یہ شخص جہاں بھی موجود ہوتا ہے مسکراہٹیں بکھیر تا ہے اور اپنے ساتھیوں کی ڈویلپمنٹ پر پوری توجہ دی یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان سب کو خوش نہیں کرسکتا مگر کچھ عادات کو اپنا کر اور انکو اپنی روز مرہ کے معاملات کا حصہ بنا کر عزت نفس کے احترام اور حسن انتظام جیسی عظیم نیکی کا عادی بن جاتا ہے اور ایسا کار خیر ہے جس کا مطلب ” نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے ” ۔
میں ایک ایسے انسان کو جانتا ہوں جو ایک ادارے کے ساتھ بڑی مدت سے وابستہ ہے ایک بڑے عہدے پر فائز ہے ایک بڑے گروپ کی ذ مہ داریاں ، مگر شخصیت ایسی دلکش کہ کمپنی کے ملازمین اپنے ہر معاملے میں امید کا مرکز سمجھتے ہیں دن ہو یا رات جب بھی بات کریں ایک عجیب انرجی سے بھرا انسان اس شخص نے کچھ اس انداز سے زندگی کی چوری بنائی ہے کہ ذاتی کامیابی کے ساتھ ادارے کے ساتھ اپنے خلوص کو عادت بنا لیا ہے اور اس کے ساتھیوں کی دعائیں اس کی ہمراہ ہیں ۔
میں ایک ایسے صنعتکار کا مختصر احوال بیان کئے دیتا ہوں جس نے چالیس سال قبل ملتان سے لاہور آکر گجرانوالہ میں ایک کارخانہ لگایا اور اب بہت بڑے گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین ہیں جو بات مشترک تمام کامیاب لوگوں میں ہوتی ہے وہ پروفیشنل کمٹمنٹ کے ساتھ ٹیم ورک اور حسن اخلاق اس ادارے کے لوگ اپنے باس سے خوف کی بجائے ان کے حسن سلوک سے متاثر ہیں اسی لئے کچھ افراد چالیس سال سے ان کے ساتھ ہیں اور کبھی ان کو یا ان کے دونوں بیٹوں کو مل کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کوئی کسی بڑے گروپ کے سیٹھ صاحب ہیں کیونکہ ان لوگوں نے دوسرے کے عزت نفس کے تقدس جیسی عبادت کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے اور یہی اصل کامیابی کا راز ہے ۔
میرے پاس روانہ بے روزگار افراد کی بڑی تعداد آتی ہے یا ایسے افراد اتےہیں جو ملازمت کے دوران مسلسل پریشان ہوتے ہیں جب میں نے تحقیق کی تو ایک بات سامنے آئی کہ اول تو ان لوگوں نے اپنے پروفیشنل تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا، ملازمت کے دوران بس روانہ کی بنیاد پر گھنٹے پورے کئے ، ٹیم ورک پر یقین نہیں رکھتے، یا ٹیم ممبرز کی عزت نفس کی توہین کی عادت کی وجہ سے ٹیم بنا ہی نہیں سکے اور اپنی زندگی کے آٹھ دس گھنٹے جہاں گزارتے ہیں وہاں مسکراہٹ بکھیر سکے نہ محبت سمیٹ سکے وقت سمیت تمام وسائل کو ضائع کیا اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور غلطیوں کی اعتراف کی بجائے دوسروں کے عیب تلاش کرنے میں اپنی انرجی ضائع کی اور لیڈ کرنے کی بجائے کنٹرول اور راہنمائی کی جگہ رعب کو اپنایا اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں ایک متکبرانہ طرز عمل کو اپنایا، یہ وہ ساری چیزیں جس کا نتیجہ نیک خواہشات اور دعائیں نہیں ہوسکتا اور کہا جاتا ہے کہ کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں ناکامی ہمیشہ یتیم ہوتی ہے تو میں اس کو ایسے لکھوں گا کہ کامیابی بی بی صاحبہ کے بقول خلوص کے ہاتھوں بنی چوری ہے جو دعائیں لے کر بنی ہے اور ناکامی ان تمام عناصر میں سے صرف خلوص کا نکل جانا ہے
میں اس موضوع پر مزید لکھوں گا میں جانتا ہوں کے اس کے موضوع کے کئی پہلو ہیں جو کچھ دوستوں کے ذاتی تجربات پر مبنی ہوسکتے ہیں آج کا اختتام علامہ اقبال کے اس شعر کے ساتھ
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
(جاری)
فیس بک کمینٹ