بندہ کسی بھی سکول میں پڑھا ہو، مدرسے کا طالب علم رہا ہو یا پھر کسی سے گھر میں انگریزی اردو سیکھی ہو، جب سیکھ لیا جائے تو اس کے نتیجے میں لفظ جاننے والا ہو جاتا ہے۔ جہاں یہ لفظ لکھے جائیں وہ کاپی قابل احترام کہلاتی ہے۔ بچپن میں سبھی کو سکول کی کاپیاں کتابیں وغیرہ خراب کرنے پہ بہت ڈانٹ پڑا کرتی تھی۔ وہ اصل میں ایسا دور تھا جو سیکھنے کے عمل سے گزرنے کا تھا۔ سو طرح کی احتیاطیں کرنے کے باوجود کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہمیشہ ہو جاتی تھی۔ کل ہم لوگ یہ سب کرتے تھے، آج ہمارے بچے کرتے ہیں۔ بہت دور کہیں دل کے کسی کونے میں ایک خواہش یہ ضرور ہوتی تھی کہ جس کام سے منع کیا گیا ہے اسے ہر حال میں کرنا ہے تو بس وہ کام پھر ہوتا ہی ہوتا تھا۔ بہت سی چیزیں لیکن پھر بھی رہ گئیں۔ ایک ہوم ورک والی، کلاس ورک والی یا کسی رف کاپی کے ساتھ کیا کیا ظلم و ستم ہو سکتے تھے، کوئی حد نہیں، کوئی حساب نہیں، مل کر سوچتے ہیں کہ ان میں سے کون سا کام ہم کرنے سے رہ گئے؛
گندی ہینڈ رائٹنگ میں کاپی پہ نام تو سبھی نے لکھا ہو گا، کیا اپنا نام الٹا کر کے لکھا ہے کبھی؟ جیسے میرا نام لامج نینسح بنے گا، تو پہلی آپشن تو یہ ہے۔ چائے یا کافی گرا دینا وہ خیر ایک عام سی بات ہے، کاپی کے اوپر چھلانگ لگائی ہے کبھی؟ کبھی گندے ہاتھ کاپی کو لگائے ہوں اور وہ خراب ہو گئی ہو؟ کبھی اس کا باہر والا گتہ کھینچ کے الگ کر دیا ہو؟ کبھی اس کی ایک طرف دو پینسلیں اور پانچ چھ ربڑ بینڈ لگا کے گٹار بجایا اور دوسری طرف کان لگا کے سنا ہو؟ صفحوں پہ فل زور سے پینسل دبا کے لکھا ہو؟ ضرورت پڑنے پہ فوراً کاپی کے بیچ والے دو صفحے نکالے ہوں؟ ہوم ورک غلط ہو جانے پہ سٹیپلر گوند یا کچھ بھی لگا کے دو صفحے آپس میں جوڑ دئیے ہوں؟ کبھی ٹرین یا بس میں بیٹھ کے لکھا ہو، وہ جس میں لکھائی بالکل کیڑے مکوڑوں کے جیسی نظر آتی ہے؟ پراٹھا کھانے کے بعد آخری صفحے سے ہاتھ پونچھے ہوں؟ اگر کبھی چبایا ہو تو کاپی کے صفحے کا ذائقہ یاد ہے؟ بارش ہونے پہ اسی صفحے سے کشتیاں بھی بنائی ہوں گی اور بارش نہ ہونے پہ اسی کے جہاز بنے ہوں گے۔ پستول بھی بنایا تھا کبھی؟ ایک صفحہ ایسا ہوتا ہو گا جہاں پوری دنیا کا گھچ مچوڑا مارا جاتا ہو گا۔ پین لکھ نہیں رہا تو ادھر چیک کرنا ہے، سیاہی ختم ہے تو اسی صفحے پہ جھٹکنا ہے، نب چیک کرنی ہے تو ادھر لکیریں مار کے دیکھنا ہے، یا پھر جو سیدھے ہاتھ سے لکھنے والے ہیں انہوں نے الٹے ہاتھ سے لکھنے کے تجربے کیے ہوں گے، حد تو یہ ہے کہ یاروں نے پینسل منہ میں دبا کے بھی لکھا ہو گا، کتنے ویہلے ہوتے تھے بھائی‘ قسمے؟ چلیے انہی صفحوں میں تتلیاں، سوکھے پتے اور وہ مور کے باریک والے پر رکھ کے آگے نکلتے ہیں۔
گلی میں چاچا خدا بخش کی جو دکان تھی وہاں سے ہم لوگ سوکھا دودھ اور چورن وغیرہ لیا کرتے تھے۔ اس وقت چورن گلے اور جسم کے لیے برابر صحت بخش ہوتا تھا اور سوکھا دودھ تو خیر چونکہ دودھ ہے اس میں کون برائی نکال سکتا ہے؟ یہ الگ بات کہ وہ دودھ پانی میں کبھی مکس نہیں ہوتا تھا، روکھا زبان سے چاٹ کے کھا لیا تو ٹھیک، جو کبھی اسے پانی میں ملا کے اصلی دودھ بنانے کی کوشش کی جاتی تو سوائے پھٹکیوں کے حاصل کچھ نہیں ہوتا تھا۔ چاچا خدا بخش جو تھے، اللہ بخشے وہ سوکھے دودھ کی پڑیاں بنا کے دیتے تھے۔ وہ بڑا آرٹ تھا، کاپیوں کے کتنے ہی صفحے میں نے یہ سیکھنے کے لیے ضائع کیے تھے کہ پڑیا کیسے بنائی جائے۔
ایک صفحہ کاپیوں میں ایسا مظلوم بھی ہوتا تھا‘ جسے اچھی طرح سے ٹائٹ گرپ کر کے نوکدار پینسل سے اس میں سوراخ کیے جاتے تھے۔ ایک صفحہ وہ ہوتا تھا جس پہ سارے دنیا جہان کا آرٹ بنانا فرض ہوتا تھا۔ دائرے، پھول بوٹے، بغیر کسی ڈیزائن کا ڈیزائن، ایویں منہ اٹھا کے بنایا گیا کوئی بھی غیر جیومیٹریکل نمونہ یا اور کچھ نہیں تو ہاتھ میں دو پینسلیں اکٹھی پکڑ کے خطاطی کی مشق اسی صفحے پہ کرنا فرض ہوتی تھی۔ جب وہ پورا بھر جاتا تو اسی صفحے پہ تھوڑی سی روشنائی ٹپکانے کے بعد اسے سامنے والے صفحے سے ملا کر تھپتھپایا جاتا، پھر جو ڈیزائن بنتا اس میں بھی سو طرح کی شکلیں ڈھونڈی جاتیں۔ کبھی انہی کاپیوں میں اخبار سے کاٹی ہوئی تصویریں بھی چپکی ہوئی ملا کرتیں۔ ماڈرن بچے اس وقت بھی سٹیکر چپکایا کرتے تھے۔ میٹرک میں آتے آتے انہی صفحوں پہ گھر کا حساب اور بازاری شاعری لکھے پائے جاتے تھے۔ وہ گھر کے سودے کا حساب ویسے اکثر اس لیے تفصیل سے لکھا جاتا تھا کہ ٹک کہاں سے لگانا ہے۔ ٹک لگانا بھی ایک آرٹ ہوتا ہے۔ جس نے لگایا ہوا ہے وہ جانتا ہے۔ جو اچھا بچہ ہو گا وہ آج بھی اچھا ہی بچہ ہے۔
کبھی پورے کی پوری کاپی بارش میں گیلی ہونے کے بعد جب سیاہی پھیلی ہو گی تو اگلے دن ٹیچر نے کیا حال کیا ہو گا؟ کبھی اسی کاپی پہ ڈائری لکھی گئی ہو گی، کبھی کوئی خواب جو رات میں دیکھا اور یاد رہ گیا وہ لکھا ہو گا، اور ایک کام تو سب نے کیا ہو گا، اپنے نام کا پہلا حرف اور ‘اس‘ نام کا پہلا حرف آگے پیچھے ضرور لکھے ہوں گے‘ جو نام بس دو چار ماہ کے لیے دھڑکا تھا اس کے بعد زندگی کے ہجوم میں کہیں گم ہو گیا۔ مثلاً ایچ پلس اے، زیڈ پلس بی، آر پلس ایف یا کچھ بھی۔ ہاں ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہوا کرتی تھی کہ وہی کاپی بند کرنے کے بعد جو اس کا… یار اب یہ کیسے سمجھاؤں، جس نے کیا ہے وہ جانتا ہے۔ موٹی سی کاپی یا کتاب بند کریں، اس کے سارے صفحے ایک طرف کو موڑیں، اب جو ان تمام صفحات کو ملا کر ایک باہر والی سطح بنتی ہے ادھر کوئی حرف لکھ دیجیے، وہی صفحے اب مخالف سمت کو موڑیں تو جہاں پہلے لکھا تھا وہ جگہ بالکل صاف نظر آئے گی، اب ادھر کوئی دوسرا حرف لکھ دیجیے۔ تو یہ دو حرفوں اور اک جندڑی کا کھیل کھیلتے کئی بچے ایف اے بی اے میں فیل ہو جاتے ہیں، یہ الگ کہانی ہے۔
سر مہر نیاز کہتے تھے کہ حسنین جمال غلطیاں کرتا نہیں اس سے ہو جاتی ہیں۔ نوسٹیلیجیا بھی استاد اپنے اندر بائے ڈیفالٹ ہے، مجبوری ہے اور شدید ہے۔ چنگا بھلا اپنے ٹھکانے پہ بیٹھا اس دن کتابیں دیکھ رہا تھا کہ Wreck This Journal سامنے آ گئی۔ اب عجیب سین تھا، جس کتاب کے نام کا مطلب ہی یہی ہو کہ اسے پھاڑ دیں اسے بندہ کھول کے تو کم از کم دیکھے گا۔ کھول لی اور لڑ گئی۔ یہ جو اوپر اتنے ڈھیر سارے وقوعے گنوائے ہیں ان میں سے کافی اسی کتاب کے آپشنز تھے۔ فلاں صفحے پہ زبان سے ڈرائنگ کریں، اس پہ چیونگم چپکائیں، اس پہ سر کے بالوں سے ڈیزائین بنائیں، اس پر پینٹ میں سنے ہاتھ رکھیں، توبہ توبہ۔ جو مرضی گند ماریں بس سو ایک صفحوں کی وہ کتاب پندرہ ڈالر میں خریدنا پڑے گی۔ کچھ بھی نہیں تھا لیکن سب کچھ تھا۔ کتاب بنانے والی خاتون کے مطابق یہ کتاب آپ کے غصے اور بوریت کی ساتھی ہے۔ یہ آپ کی کری ایٹویٹی کو تازہ دم کرتی ہے اور یہ آپ کو ایک آپشن مزید بھی دیتی ہے کہ جب موڈ شدید آف ہو، ڈپریشن ہو تو اس کتاب کو اٹھائیں اور یہ گھما کے سامنے والی دیوار پہ ماریں یا چھت پہ جا کے اسے نیچے پھینک دیں۔ پتہ ہے اس کی سیل کتنی ہوئی ہے آج تک؟ 70 لاکھ! گورا کیسا ظالم کتاب دوست ہے واللہ، جس پہ مرتا ہے اس کو مارنے کے لیے بھی پندرہ ڈالر خرچ کر دیتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ اچھا سے اچھا ادبی رسالہ یا کتاب ہزار سے زیادہ چھپ جائے تو مصنف کے پوتے بھی اپنے دوستوں کو گفٹ کرتے ہیں۔
پی ایس؛ یہ کتاب ہمارے بچوں کو چوبیس گھنٹے کے موبائل پن سے باز رکھنے کے لیے بہرحال اچھا آپشن ہے۔ ہر بڑے شہر کی مہنگی کتابوں والی دکان سے مل جائے گی۔ اپنی جیب نے ابھی اجازت نہیں دی، جسے مل جائے وہ ٹرائے کر لے بھائی۔ سب کا بھلا سب کی خیر!
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ