فنون لطیفہ میں ادب یعنی لٹریچر اور ادب میں مشاعرے ہماری تہذیبی زندگی کے بے حد اہم اجزاء اور عناصر ہیں۔ روایت، گمان، خیال اور تاثر یہی ہے کہ ان عناصر سے وابستگی بندے کو تہذیب اور شائستگی سکھاتی ہے۔ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ لکھنؤ میں بالخصوص تہذیبی زندگی کے یہ عناصر اتنے مضبوط و توانا تھے کہ صاحب حیثیت شرفاء عمومی طور پر تربیت اور تہذیب سیکھنے کیلئے اپنے بچوں کو بالاخانوں اور طوائفوں کے ہاں بھجوایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بالا خانوں اور طوائفوں کے ہاں باقاعدہ ادبی محافل اور مشاعرے وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ اہل ادب صرف اپنی ’’ہوس‘‘ اور تسکین کیلئے ہی نہیں، ذوق شعر اور مکالمہ کیلئے بھی طوائفوں کے ہاں جاتے اور انہیں اپنے ہاں بلاتے۔ادبی محافل اور ادیبوں، شاعروں کی مجلسوں میں یہ خواتین اہتمام سے شرکت کیا کرتیں۔ زمانہ بدلہ، زمانے کے انداز بدلے، اقدارمیں تبدیلی آئی تو یہ سب کچھ بھی متروک ہو گیا، تاہم ادبی تقریبات اور مشاعروں کی روایت جاری اور بہت توانا رہی مگر اب یہ روایت اور سلسلہ تقریباً معدوم یا بہت کم ہو گیا ہے۔ مختلف انداز کی ادبی تقریبات تو خیر اب بھی قابل ذکر تعداد میں ہر شہر اور قریہ میں ہوتی رہتی ہیں البتہ مشاعروں کا سلسلہ کچھ کم کم ہو گیا ہے اور اب خال خال اور کبھی کبھار ہی قابل ذکر مشاعروں کا تذکرہ ملتا ہے البتہ یہ ضرورکہیں نہ کہیں ہو رہا ہے کہ جہاں چار شاعر اکٹھے ہوئے، مشاعرہ ہو گیا تاہم اس سے مجھ ایسے شاعری اور مشاعروں کے ’’رسیا‘‘ کا ’’ٹھرک‘‘ پورا نہیں ہوتا۔ مشاعروں کی یہ قدیم اور کہنہ روایت کیونکر ختم ہو گئی یا کردی گئی میرے پاس اس حوالے سے مستند اورحتمی معلومات تو نہیں مگر ماضی کے معروف شاعر احمد پھپھوندی کے اس شعر:
ادب نوازی اہل ادب کا کیا کہنا
مشاعروں میں اب احمق بلائے جاتے ہیں
سے بہرطور کچھ گمان کیا جا سکتا ہے، مگر واللہ عالم بالصواب۔ لیکن ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ ان دنوں مشاعروں کا بحران تو ہے ناں! اور آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ کسی چیز کی کمی اورکمیابی کے دنوں میں اس کی دستیابی ہو جائے تو کتنا بھلا لگتا ہے، کتنی خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ اور بلاشبہ یہ اس کالم نگار کی خوش بختی ہے کہ پچھلے دنوں اسے ایک بھرپور اور شاندار مشاعرے کی صدارت میں خوشی، تسکین اورمسرت کے یہ لمحے میسر آئے۔ یہ سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس میں منعقدہ ، دلوں کو موہ لینے والا ایک بڑا مشاعرہ، جس کا اہتمام یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات کے سلسلہ میں پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم نے کیا تھا۔ جاوید ندیم خود شاعر نہیں مگر شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی انہی دنوں یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات کے حوالے سے انہوں نے ایک بھرپور اور یادگار مشاعرے کا انعقاد کیا تھا۔ وہ مشاعرہ اس قدر کامیاب رہا اور پسند کیا گیا کہ لاہور کیمپس کے انچارج ڈائریکٹر ڈاکٹر اکرا م اور ڈاکٹر شفیق کی آشیرباد سے انہیں مشاعرے کو تقریبات کا لازمی حصہ بنانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ چنانچہ سال گزشتہ کی طرح امسال بھی وہ کالم نگار کی معاونت و اشتراک سے ایک بھرپور مشاعرہ کرنے میں بہت کامیاب ٹھہرے، جو بلاشبہ ان کی ادب دوستی ’’شاعر دوستی‘‘ اور ’’مشاعرہ بازی‘‘ کا خوبصورت اظہار ہے۔ آیئے چند لمحوں کیلئے آپ کو مشاعرہ گاہ میں لے چلوں۔ چند جھلکیاں اور چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
اپنی خوشبو میری سانسوں کا مقدر کردے
صرف سانسیں ہی نہیں دل بھی معطر کردے
(زرقا نسیم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری آنکھوں کو میں نے چوما ہے
اب میں ہونٹوں سے دیکھ سکتا ہوں
(کفایت اعوان)
۔۔۔۔۔
تجھ سے بہتر تیری تصویر نہیں بن سکتی
تیری تصویر بناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
۔۔۔۔۔
میرا افسانہ مکمل نہیں ہونے دیتیں
تیری آنکھیں میری تحریر میں آ جاتی ہیں
(سلیم اختر ملک)
۔۔۔۔۔
فقط کچے گھڑے کے واسطے میں
یہ دریا ہاتھ سے روکے کھڑی ہوں
۔۔۔۔۔
شہر ایسے سوال پر اترا
شام پڑنے لگی جوابوں سے
(پروین سجل)
۔۔۔۔۔۔۔
چھان کر خاک اپنے ماضی کی
روز اک آسماں بناتی ہوں
(یاسمین ریاض شاہ)
۔۔۔۔۔۔
حالت ہجرمیں جو پھول بھی کملائے ہیں
زخم بن کے مری آنکھوں میں چلے آئے ہیں
قتل ہوتے ہوئے خوابوں کے جنازے ہم نے
اشک برساتی ہوئی آنکھ میں دفنائے ہیں
(زہد شمسی)
۔۔۔۔۔
میں نے پہچان لیا اس کو نشانی تھی وہی
بانکپن اس کا وہی اس کی جوانی تھی وہی
ضبط گریہ تو کیا، آنکھ کا پانی نہ گیا
دل تو سمجھا تھا مگرآنکھ نہ مانی تھی وہی
(ڈاکٹر عبدالکریم خالد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے من کی مراد پا جائو
گھر میں کوئی نہیں ہے آجائو
(ممتاز راشد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے خوش آ نہیں سکتا کسی کا منتظر رہنا
مگر وہ خوبصورت ہے اسے تاخیر کا حق ہے
(غلام حسین ساجد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو منہ کو آ رہی تھی وہ لپٹی ہے پائوں سے
بارش کے بعد خاک کی سیرت بدل گئی
(حسین مجروح)
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واسطے میں تم سے ہوا ہوںکنارہ کش
کشتی کو تم نے پار لگانا تو ہے نہیں
محفل میں حسن کی مرا جانا فضول ہے
تم سا کوئی وہاں نظر آنا توہے نہیں
(اقبال راہی)
۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں محبت وہ بڑھانے آئے
میری ٹانگوں کو دبانے آئے
گر گئے آپ سبھی نالے میں
جو مجھے نالہ ٹپانے آئے
۔۔۔۔۔
کسی کا فیض رہا ہے کہاں صدی بہ صدی
صرف حضورؐ ہیںجلوہ فشاں صدی بہ صدی
(ڈاکٹر ظفر علی راجا)
۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں تھوڑا سا دکھ دے کر تمہارا امتحاں کر لوں
کیا تم نے جو مجھ سے ، میں بھی سے جانِ جاں کرلوں
نہ ٹیلی فون، نامہ بر، نہ ایس ایم ایس نہ ای میلنگ
کیوں نہ اس بے رخی پر، خود کو تم سے بدگماں کر لوں
(ابصار عبدالعلی، صدر مجلس)
یونیورسٹی کیمپس میں ہونے والے اس مشاعرہ کے موقع پر ایڈیٹوریم باذوق طلبہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ طلبہ واہ واہ کرتے، سیٹیاں اور تالیاں بجاتے ہوئے شعرا کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ گویا خوب ہلہ گلہ بھی رہا جو عمومی طور پر کالج اوریونیورسٹی مشاعروں کی ایک روایت رہی ہے۔ یہ مشاعرہ بجا طور پر تفریح طبع کیلئے منعقد کیاگیا تھا مگر میری دانست میں یہ ایک مثبت تفریحی سرگرمی کے ساتھ ساتھ حاضر شعرا، اساتذہ اور خود شعرا کیلئے بھی ذہنی و فکری بالیدگی اورحصول شعور کا ایک ذریعہ تھا۔ اپنی اس رائے کی تقویت کیلئے میں جناب ناصر زیدی کا ایک شعر پیش کرتے ہوئے آپ سے اجازت چاہوںگا:
میں بے ہنر تھا مگر صحبت ہنر میں رہا
شعور بخشا ہمہ رنگ محفلوں نے مجھے
فیس بک کمینٹ