پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر طوفان برپا ہے، اور یہ طوفان کسی ایک واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ گہرے ادارہ جاتی بحران کا عکاس ہے۔ ایک طرف حکومت اپنے اقدامات کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تو دوسری طرف اپوزیشن کےاحتجاجی بیانیےنےمزید کشمکش پیداکردی ہے۔اس ساری صورتحال میں عوام کا سب سے بڑاسوال یہی ہے کہ کیا پاکستان کےسیاسی استحکام کےخواب کی تکمیل ممکن ہے؟
وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دھرنوں میں فسادات کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے عالمی معیار کی انسداد فسادات فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ گویا، انہوں نے ایک اور نیا لائحہ عمل تیار کر لیا ہے جس میں "فارنزک لیبز” اور "انسداد فسادات فورس” کی بات کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ اقدامات ملک کی امن و امان کی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے ہیں یا یہ صرف ایک سیاسی حربہ ہے؟
24 نومبر کو ہونے والے احتجاج کے دوران حکومت کی کارروائیوں نے اسلام آباد کو "سیل” کر دیا، جس سے پورے شہر میں کاروباری افراد، روزمرہ کے شہری اور وکلاء شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ کہنا کہ "آپ نے امن و امان بحال کرنا تھا مگر آپ نے پورا اسلام آباد ہی بند کر دیا”، حکومت کی ناقص حکمت عملی کو بے نقاب کرتا ہے۔ ایک طرف حکومت انسداد فسادات فورس کے قیام کی بات کر رہی ہے، دوسری طرف شہریوں کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی تاریخ احتجاجی سیاست سے بھری ہوئی ہے، مگر حالیہ دنوں میں پارٹی کے اندر کی لڑائیاں اس بات کی غماز ہیں کہ سیاسی قیادت اب منتشر ہو چکی ہے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا کہنا کہ "عمران خان کو جیل میں اصل حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاتا”، پارٹی کے اندر کی بے چینی کو اجاگر کرتا ہے۔ کیا عمران خان کو سیاسی طور پر بے وقعت کر دیا گیا ہے؟ کیا وہ اب بھی پی ٹی آئی کے "پہلوان” ہیں یا محض ایک ماضی کی یاد؟ یہی سوالات پارٹی کے اندرونی حلقوں میں سر اٹھا رہے ہیں۔
اب ان اختلافات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب بشریٰ بی بی نے پارٹی قیادت کی مرضی کے خلاف ڈی چوک کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔ کیا یہ سیاسی اختلافات محض "محدود نظر” کی بنیاد پر ہیں یا یہ حقیقت میں ایک بڑی بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ پی ٹی آئی کے اندر کی یہ لڑائیاں نہ صرف پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھاتی ہیں، بلکہ یہ عوام کے لیے ایک اور سیاسی بحران کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے حال ہی میں ہونہار طلبہ کے لیے میرٹ پر لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس تقریب میں انہوں نے پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے غیر تعمیری اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ لیکن حکومت کی جانب سے یہ اقدامات کیا واقعی تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش ہیں یا محض سیاسی مفادات حاصل کرنے کا ایک اور ہتھکنڈہ؟
لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا منصوبہ سطحی طور پر ایک مثبت قدم معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا یہ پالیسی تعلیمی بحران کے سنگین مسائل کو حل کر سکتی ہے؟ تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، نصاب غیر معیاری ہے، اور اساتذہ کی کمی ایک عام مسئلہ ہے۔ حکومت کے ان "دلفریب” اعلانات میں ان بنیادی مسائل کا کوئی ذکر تک نہیں۔ یہ پالیسی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت تعلیم کے حوالے سے ایک مربوط اور جامع پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
حکومت کو اقتدار میں آئے دس ماہ سے زائد ہو چکے ہیں، لیکن اس کی مقبولیت زمین بوس ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت ایک واضح، پرکشش، اور عوامی مسائل کے حل پر مبنی بیانیہ دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے یا قرض اسکیم کے اعلان جیسے اقدامات صرف نمائشی ہیں اور عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ حکومت نہ صرف اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے میں مصروف ہے بلکہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے نمائشی منصوبوں کا سہارا لے رہی ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام نہایت ابتر حالت میں ہے، اور اس کی اصلاح کے لیے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ لیپ ٹاپ تقسیم کرنا یا قرض دینا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ مسائل کو مزید الجھا رہا ہے۔ حکومت نے ماضی میں بھی "تعلیمی ایمرجنسی” جیسے بلند و بانگ دعوے کیے، لیکن عملی میدان میں کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ مریم نواز کے حالیہ اقدامات اسی ناکام روایت کا تسلسل معلوم ہوتے ہیں۔
مریم نواز نے ایک کروڑ روپے تک کے قرض کی فراہمی کا اعلان کیا، جو نوجوانوں کے لیے معاشی مواقع پیدا کرنے کی ایک "کوشش” ہے۔ لیکن ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ زیادہ تر سیاسی شعبدہ بازی ہی لگتا ہے۔ ایسی اسکیمیں عام طور پر شفافیت کے فقدان اور بدانتظامی کا شکار ہوتی ہیں، اور عوام کو ان کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ اعلان بھی صرف عوامی تعلقات بہتر کرنے کی ایک کوشش ہے، نہ کہ نوجوانوں کے مسائل کے حقیقی حل کی۔تعلیم جیسے اہم شعبے کو محض سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا نہایت افسوسناک ہے۔ یہ اقدامات نہ تو تعلیم کے معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں اور نہ ہی عوامی مسائل کا دیرپا حل پیش کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے سنجیدگی سے تعلیمی شعبے میں اصلاحات کے لیے کام کرے۔مریم نواز کے یہ اعلانات ان کی حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کی ایک بھونڈی کوشش ہیں۔ اگر حکومت واقعی عوامی مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو اسے نمائشی اقدامات کے بجائے عملی اور دیرپا پالیسیوں پر توجہ دینی ہوگی۔ بصورت دیگر، یہ حکومت اپنی غیر مقبولیت کے گڑھے میں مزید گرتی چلی جائے گی۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران اس بات کا غماز ہے کہ نہ تو حکومتی ادارے مستحکم ہیں اور نہ ہی اپوزیشن میں کوئی واضح حکمت عملی موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی ہیں، مگر عوام کو صرف مشکلات اور بے چینی کا سامنا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی نے ملک کے سیاسی استحکام کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور عوام کو اس کشمکش میں بری طرح گھسیٹ لیا ہے۔جب تک حکومت کے اندرونی تنازعات اور سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات کو حل نہیں کیا جاتا، پاکستان میں حقیقی سیاسی استحکام کا خواب محض ایک خواب ہی رہ جائے گا۔ آج کے پاکستان میں عوام نہ تو حکومت سے امیدیں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن سے کوئی بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کب تک اس سیاسی بحران کا یہ گہرا گڑھا مزید گہرا ہوتا جائےگا
فیس بک کمینٹ