فوجی عدالتوں کا قیام پاکستان میں جمہوری اقدار کی پامالی اور عدالتی نظام کی ناکامی کی ایک واضح علامت ہے۔ یہ عدالتیں قومی سلامتی کے نام پر متعارف کرائی گئیں، لیکن ان کے پیچھے چھپی کہانی وہی ہے جو ہر دور میں آمریت کی شکل میں سامنے آتی ہے آئین کی خلاف ورزی، جمہوری حقوق کی پامالی اور عدلیہ کے اختیارات میں کمی۔ پاکستان میں فوجی عدالتوں کا قیام ایک ایسا عمل تھا جس نے صرف عوامی اعتماد کو مجروح نہیں کیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کیا۔
مبصرین کے مطابق ملٹری کورٹس کا وجود خود اس بات کا اعتراف ہے کہ ریاست اپنے عدالتی نظام پر اعتماد کھو چکی ہے۔ آئین پاکستان کے تحت شہریوں کو شفاف اور غیر جانبدارانہ عدالتی کارروائی کا حق حاصل ہے، مگر فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت خفیہ طور پر ہوتی ہے اور ملزمان کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل نہیں ہوتا۔ ان عدالتوں میں فیصلے عموماً سیاسی دباؤ اور ریاستی مفادات کے تابع ہوتے ہیں، جس سے انصاف کے اصولوں کی پامالی ہوتی ہے۔ فوجی عدالتیں نہ صرف آئین کی روح کے منافی ہیں بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کے معیارات کے بھی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
فوجی عدالتوں کی موجودگی ایک جمہوری معاشرے میں آزادی اظہار، اختلاف رائے اور سیاسی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کا آسان ترین ہتھیار بن چکی ہے۔ حکومت سیاسی مخالفین کو دبانے اور انہیں جیلوں میں ڈالنے کے لیے ان عدالتوں کو استعمال کرتی ہے۔ یہ عمل صرف جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عوام میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ریاستی ادارے خود ہی آئین کے تحت حاصل ہونے والے شہری حقوق اور آزادیوں کی پامالی کر رہے ہیں۔ ان عدالتوں کے فیصلے سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں ہوتے ہیں اور اس سے نہ صرف حکومت کا کردار مشکوک ہوتا ہے بلکہ انصاف کے سچائی سے بھی عوام کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
ملٹری کورٹس میں فیصلے اکثر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بنتے ہیں۔ ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت خفیہ ہوتی ہے، زبردستی اعترافات کرائے جاتے ہیں اور ملزمان کو قانونی معاونت فراہم نہیں کی جاتی۔ بین الاقوامی تنظیمیں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے کئی بار ان عدالتوں کی مذمت کی ہے اور ان کو عالمی معیارات کے خلاف قرار دیا ہے۔ یہ عدالتیں نہ صرف ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان فیصلوں کے ذریعے انسانوں کی عزت و وقار کو پامال کیا جاتا ہے، جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ملٹری کورٹس کا قیام پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو سنگین حد تک نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ عدالتیں دنیا کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں خامیاں ہیں اور وہاں انصاف کی فراہمی میں مشکلات ہیں۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے ان فوجی عدالتوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان عدالتوں کو پاکستان کے جمہوری اقدار کے مخالف قرار دیا ہے۔ ان عدالتوں کے فیصلے پاکستان کی ریاستی حیثیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کے عالمی تعلقات اور تجارتی روابط کو متاثر کر سکتے ہیں۔
سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ایک ایسا عمل ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس میں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات چلانے کی تاریخ ملک میں پہلے بھی موجود رہی ہے، اور اس کے نتائج آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ 1980 میں پنجگور کا واقعہ ایک یادگار ہے، جب فوجی عدالت نے 10 افراد کو پھانسی کی سزا دی تھی، بعد میں عدالت عالیہ نے اسے غیر آئینی قرار دیا تھا، لیکن اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے سول عدالتوں کے فیصلوں کو غیر مؤثر کرنے کے لیے حکمنامے جاری کیے تھے۔ یہ عمل ملکی سیاست اور عدلیہ پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، جس کے نتائج آج بھی بدترین ہیں۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں اس وقت اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عدالتی اصلاحات کرے اور ایک ایسا نظام تشکیل دے جس میں سویلینز کے مقدمات میں شفافیت ہو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ فوجی عدالتوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت اور سیاسی رہنماؤں کو ماضی کے آمرانہ اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے اور ان غلطیوں کو تسلیم کر کے ان کے اثرات کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ عمران خان اور جنرل باجوہ کی حکومت نے طاقت کےنشےمیں ایسی غیرجمہوری پالیسیاں اپنائیں جو سول بالا دستی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں۔ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا، صحافیوں کو نوکریوں سے نکالنا اور قوم میں پولرائزیشن کو بڑھانا ایسی پالیسیاں تھیں جنہوں نے ملکی عدالتی اور سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
یہ ضروری ہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کی موجودگی کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے بجائے ایک شفاف اور غیر جانبدار عدالتی نظام قائم کیا جائے۔ سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی بھی نفی ہے۔ حکومتی سطح پر نہ صرف اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ عدلیہ کو بھی اس معاملے میں جرات مندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل نہ صرف آئین کی بالادستی کو یقینی بنائے گا بلکہ ملک میں عدل و انصاف کے اصولوں کو بھی تقویت دے گا۔
فیس بک کمینٹ