یہ ایک مفروضہ ہی سہی، مگر سوال اٹھانے میں کیا حرج ہے؟ پچھلے سات، آٹھ سال میں عمران خان کی فالوونگ کی "نیوز سینس ویلیو” اس قدر بڑھ چکی تھی کہ وہ ہر ریاستی ادارے پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ پریس تقریباً یک طرفہ ہو چکا تھا، آخری مزاحمت میر شکیل الرحمان کی شکل میں تھی، جو انجام کو پہنچ چکی تھی۔ عدالتوں پر ایسا دباؤ تھا کہ وہ آئین کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کرنے پر مجبور تھیں۔ یہ کہنا کہ جسٹس عطا بندیال، اعجاز الاحسن اور منیب اختر اپنے اہل خانہ کے زیرِ اثر فیصلے دے رہے تھے، ایک کمزور دلیل ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ خوفزدہ تھے۔ اگر انہوں نے عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ دیا، تو ایک مشتعل ہجوم انہیں اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنا سکتا تھا۔ عطا بندیال کو اس کا تلخ تجربہ پہلے ہی ہو چکا تھا جب انہوں نے اسمبلی توڑنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور پی ٹی آئی کے حامیوں نے انہیں "قابلِ گردن زنی” قرار دے دیا تھا۔
زمان پارک میں قلعہ بند ہو کر عمران خان نے جس طرح ریاستی اداروں پر پیٹرول بموں سے حملے کروائے، وہ ایک واضح پیغام تھا کہ اب حکومت کی رِٹ ختم ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ان کے خاندان کو سوشل میڈیا پر مہم چلا کر دباؤ میں لایا گیا، عدالتیں جھک چکی تھیں، پولیس سرنڈر کر چکی تھی۔ اب صرف فوج باقی تھی، اور اسے زیر کرنے کے لیے "ڈرٹی ہیری” جیسے القابات دیے گئے۔ عمران خان کی حکمتِ عملی واضح تھی، وہ مسلسل فوج کو دباؤ میں لا کر اپنی فتح کا راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ ان کے حامیوں کو اس سے پہلے ایک کامیاب مثال مل چکی تھی ۔۔
جنرل باجوہ کی صورت میں۔ ایک ایسا جرنیل جو پہلے مریم نواز کے دباؤ میں آیا، اور پھر اپنی بقا کے لیے پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے پر مجبور ہوا۔ عمران خان کی "سیاسی بصیرت” دیکھیے کہ رات کو وہ باجوہ کو "میر جعفر” کہتے اور دن میں انہیں ایکسٹینشن دینے کی پیشکش کرتےہیں ۔لیکن اس بار کہانی میں ایک نیا کردار آیا حافظ۔ عاصم منیر یہ ایک ایسا جرنیل تھا جس کے اعصاب آہنی تھے، جو نہ تو مشتعل ہجوم سے خوفزدہ ہوا، نہ ہی سوشل میڈیا کی بلیک میلنگ میں آیا۔ عمران خان کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا، ورنہ اس سے پہلے ہر طاقتور شخصیت، ہر حسین چہرہ، ہر دبنگ آواز اس کے سامنے بے بس ہو جاتی تھی۔ لیکن جب فوج پر دباؤ کام نہ آیا، تو آخری چال نو مئی کو چلی گئی۔
فرض کریں کہ نو مئی کے احتجاج کو منظم حملہ نہ بھی سمجھا جائے، تو کیا یہ محض اتفاق تھا کہ مظاہرین ٹھیک ان جگہوں پر پہنچے جن کے راستے بھی عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتے؟ اگر یہ محض عوامی ردعمل تھا، تو کیا اس کا مقصد فوج کو دباؤ میں لانا نہیں تھا؟ اگر یہ دباؤ کام کر جاتا، اور ججز اگلے دن عمران خان کو رہا کرنے کے بعد فوج کو مذاکرات کا پیغام بھیجتے، تو کیا ہوتا؟ عمران خان کی تاریخ دیکھیں تو وہ یہی مطالبہ کرتے کہ ان کے سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا جائے، طلعت حسین، نجم سیٹھی، نصرت جاوید اور حامد میر کو میڈیا سے نکلوایا جائے، اور الیکٹ ایبلز کو ان کے پیچھے دھکیلا جائے۔ پھر فروری کے بجائے الیکشن اگست میں ہوتے، نیب کو دوبارہ اپنی مرضی کے مطابق چلایا جاتا، اور جو سیاستدان راہِ راست پر نہ آتے، ان پر رانا ثناء اللہ کی طرح ہیروئن کے کیسز ڈالے جاتے۔
عمران خان کے نزدیک "نیوٹرل ہونا جانور ہونے کے مترادف تھا”— یعنی وہ فوج کو کبھی غیر جانبدار نہیں رہنے دیتے۔ قرآن کے حوالے دے کر وہ خود کو "حق” ثابت کرتے اور ہر مخالف کو "باطل” قرار دیتے۔ عدلیہ میں اپنے ججز تعینات کروا کر، قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججوں کو سائیڈ لائن کر کے، وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے۔ خیبر پختونخوا کو طالبان کے حوالے کیا جا سکتا تھا، نیب کو ایک نئے جسٹس جاوید اقبال کے سپرد کر دیا جاتا، اور ایک میجر جنرل کی ڈیوٹی لگا دی جاتی کہ سوشل میڈیا سے ناپسندیدہ ٹویٹس ڈیلیٹ کرائے۔
اگر عمران خان نو مئی میں کامیاب ہو جاتے تو ہم ایک ایسے پاکستان میں ہوتے جہاں میڈیا مکمل طور پر بکا ہوا ہوتا، ججز کی تعیناتی عمران خان کی مرضی سے ہوتی، مخالفین پر جھوٹے کیسز بنتے، فوج کو سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا جاتا، اور کوئی آواز اختلاف کی ہمت نہ کر سکتی۔ یوتھیے مخالفین کی کردار کشی کرتے، جیسے وہ آج بھی مریم نواز کے مصافحے کو لے کر انہیں "رنڈی” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوا؟ کیونکہ پہلی بار، ایک ایسا شخص سامنے آیا جو نہ جھکا، نہ بکا، نہ ڈرا۔ ورنہ شاید آج کا پاکستان ایک یک طرفہ آمریت کی تصویر ہوتا ایک ایسا پاکستان جہاں صرف ایک ہی شخص "حق” ہوتا اور باقی سب "باطل”۔
فیس بک کمینٹ