کیا عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے؟؟؟
یہ سوال پاکستان کے ایلیٹ ترین ڈرائنگ رومز میں بیٹھنے والے عزت مآب سے لیکر تھڑے پر بیٹھے ان دو لوگوں کے مابین بھی زیرِ بحث ہے کہ جنھوں نے بھیک مانگنے کا کیرئیر ایک ساتھ شروع کیا تھا…
اس ملک میں ایسے لوگ اس وقت بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ جن کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی فوج کی اصلیت بتانے والا عمران خان ہے اور اس آنکھ کھلنے کے عمل کو وہ شعور کہتے ہیں…. انکے بقول عمران خان اور پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کی بڑی وجہ بھی یہی شعور ہے، ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ چاہے عمران خان گورننس میں ناکام ہے، چاہے اسکی ساری ٹیم ناکارہ ہے، اس میں سیاسی سمجھ بوجھ نام کو نہیں ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ شعور ہی کافی ہے جو عمران خان نے انہیں دیا ہے…
انکے بقول 9 مئی اور 26 نومبر 16 دسمبر 1971 سے زیادہ بڑے سانحات ہیں 9 فروری 2024 کے الیکشنز میں ہونے والی دھاندلی 1970 میں شیخ مجیب کے ساتھ ہونے والی دھاندلی سے کہیں بڑی ہے، اور جنرل عاصم منیر جنرل یحیٰی ہے….
اس سوال پر غور کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا کیا ہے؟؟
علماء کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ کسی ایک شخص، ایک گروہ یا ایک طبقے کا نام نہیں ہے بلکہ
"کسی ملک یا ریاست کے مقتدر حلقے جس میں فوج، عدلیہ، بزنس کمیونٹی، اہم سیاسی شخصیات، بیورو کریسی، میڈیا وغیرہ سب مل کر ایک جالا بناتے ہیں ایک ویب تشکیل پاتا ہے جو ایسی کسی طاقت، تحریک یا سوچ کو ابھرنے نہیں دیتا کہ جو ان سب کے مشترکہ مفادات کو کسی بھی قسم کی ٹھیس پہنچانے کا باعث ہو”
عموما ان سب کا سب سے اہم مشترکہ مفاد طاقت اور اختیار کی ڈور کو اپنے ہاتھ میں رکھنا، کیوس پیدا کرنا اور اس کو مینٹین کرنا ہے…..
12 اکتوبر 1999 کو جب ملک پر مارشل لاء نافذ ہوا اور میاں نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں اکیس سال کی سزا ہوئی تو ہمارے ڈرائنگ روم میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ کیا میاں نواز شریف اسٹیبلیشمنٹ کے سامنے تن کر کھڑے ہو گئے ہیں یا نہیں تو بعضوں کا خیال تھا کہ یہ والا نواز شریف وہ نہیں ہے کہ جو آئی جے آئی کو ہیڈ کیا کرتا تھا…..لیکن ہوا یہ کہ آٹھ مہینے بعد میاں صاحب انقلاب سمیت معاہدہ کر کے ملک سے چلے گئے اور پرویز مشرف نو سال تک یہاں مسلط رہا……
اسی طرح واقفان حال کہتے ہیں کہ 1982 میں عمران خان اس وقت کپتان بنے کہ جب ان سے سینیئر پانچ لوگ ٹیم میں موجود تھے جن میں ان کے بقول انکے مینٹور کزن ماجد خان، انکو باؤلنگ سکھانے والے سرفراز نواز اور ایشین بریڈ مین ظہیر عباس شامل تھے…..
جب عمران خان انڈیا سے میچ جیتے تو ملک میں قومی چھٹی کا اعلان جنرل ضیاء الحق نے کیا، کرکٹ ڈپلومیسی کی عظیم الشان ٹرم بھی ضیاء الحق کی ایجاد تھی جب عمران خان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور کلکتہ ٹیسٹ دیکھنے ضیاء الحق ہندوستان جا پہنچے تھے….1984 میں عمران خان ریٹائرمنٹ لینے لگے تو یہ ضیاء الحق ہی تھے کہ جنہوں نے انکو انکے اس فیصلے سے باز رہنے پر تیار کیا ورنہ عمران خان سے کپل دیو کی کپتانی میں جیتا گیا بھارتی ورلڈکپ برداشت نہیں ہو پا رہا تھا…..
بینظیر بھٹو کو عمران خان آکسفورڈ کے زمانہ طالبعلمی سے جانتے تھے انکے بقول انکو چونکہ بھوک بہت لگتی تھی اور انگلینڈ میں کھانا نپا تٌلا ملا کرتا تھا فرماتے ہیں کہ بینظیر ہر ویک اینڈ پر ایک شاہانہ دعوت دیا کرتی تھی تو ہم بھی اس پارٹی میں چلے جاتے اور پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے لیکن جب کبھی موقع آیا انہوں نے بینظیر پر نواز شریف کو فوقیت دی زیرِ تعمیر شوکت خانم ہسپتال میں ایک بم دھماکہ ہوا بینظیر وہاں پہنچیں تو عمران خان وہاں سے نکل گئے جب کہ نواز شریف کے دورے کے دوران وہاں موجود رہے افتتاح کی وزیر اعظم بینظیر کی خواہش کے باوجود عمران خان سے افتتاح نواز شریف سے کرایا…..
عبد الستار ایدھی کے بقول وہ حمید گل کے ساتھ انکے پاس آئے تھے اور بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے میں ایدھی صاحب کی مدد کے طالب تھے….
پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے لیکن پرویز مشرف اس سے انکاری تھے انکا کہنا تھا کہ میں نے اسکو دس سیٹس آفر کیں تھی لیکن اس نے کہا کہ ہم نوے سیٹس جیت رہے ہیں یہ جو تم نے ووٹر کی عمر اٹھارہ سال کر دی ہے تمہیں آئیڈیا نہیں ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں یوتھ مجھے ووٹ کرے گی لیکن ہوا یہ کہ عمران خان خود بڑی مشکل سے اپنی میانوالی کی سیٹ جیت کر وہاں پارلیمنٹ پہنچے ظاہر ہے الیکشن میں انکے خلاف دھاندلی ہوئی ہو گی….
2006 میں میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے جس کا سب سے بنیادی اور اولین مقصد پرویز مشرف کے قبضے سے ملک کو چھڑانا تھا ملک کی نوے فیصد سیاسی جماعتوں نے اس میثاق پر دستخط کئے، لیکن عمران خان اس معاہدے کا حصہ نہیں بنے، وہ آج تک اس میثاقِ جمہوریت کو میثاقِ کرپشن کہتے ہیں…..
بینظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان آئے الیکشنز کا اعلان ہوا اسی اثنا میں بینظیر بھٹو سڑک پر ماری گئیں پرویز مشرف اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی کہ الیکشن نہ ہوں اور عمران خان نے عین وہی کیا جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی یعنی الیکشنز کا بائیکاٹ آپ وہ واحد سیاستدان ہیں کہ جنہوں نے بینظیر بھٹو کی تعزیت تک کرنا مناسب نہیں سمجھا……
2008 کے الیکشنز کا بائیکاٹ کرنے والا عمران خان 30 اکتوبر 2011 کو مینار پاکستان کے سائے تلے کھڑا انقلاب کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور 2013 کے الیکشنز میں ہار جانے کا بدلا ایک طرف پنجاب بند کر کے اور دوسری جانب کے خیبر پختونخوا کی حکومت ہونے کے باوجود ملک میں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے لینا چاہتا تھا کسی سیاسی جماعت سیاسی شخصیات سے بات کو تیار نہ ہونے والا عمران خان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بلانے پر ایسے خوش ہوا کہ جیسا وہ ورلڈکپ کی ٹرافی جیت کر بھی نہیں ہوا تھا…..
2018 کے الیکشن جیت کر بھی حکومت بچانے کے لیے کبھی قمر جاوید باجوہ کو قوم کا باپ، جمہوریت پسند جنرل، ایک پیج، تا حیات ایکسٹینشن سے لیکر ڈرٹی ہیری، میر جعفر، میر صادق، نیوٹرل جانور تک کا سارا سفر طے کیا جو ٹانگ میں گولی کھا کر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں گرا کر بھی جیل میں ہی جا کر رکا….
اب باری آئی مزاکرات کی تو ارشاد فرمایا کہ ہم صرف اسٹیبلشمنٹ سے مزاکرات کریں گے کل تک امریکہ کو ایبسولوٹلی ناٹ کہنے والا عظیم فرزندِ اسلام آج یا ٹرمپ یا ٹرمپ کا ورد کر رہا ہے لیکن وہ ہے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ….
پی ٹی آئی وہ جماعت کہ جس میں ایوب خان کا پوتا عمر ایوب اپوزیشن لیڈر ہے، ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق کی مسلم لیگ ضم ہوئی وہ پی ٹی آئی کہ جس کی آدھی کابینہ پرویز مشرف کی تھی آج بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے….
اور آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ عمران خان نے چیئرمین تحریک انصاف گوہر خان کی موجودہ آرمی چیف سے خفیہ ملاقات کو خوش آئند قرار دیا ہے اور بیرسٹر گوہر خان اس ملاقات کی تردید کر رہے ہیں…..
فیس بک کمینٹ