آئینی تقاضوں کے برعکس تاخیر سے بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس سابق صدر رفیق تارڑ، سینیٹر رحمان ملک اور رکن قومی اسمبلی خیال زمان کے انتقال پر فاتحہ خوانی کے ساتھ ہی سوموار تک ملتوی کردیا گیا۔ اسپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ یہ پارلیمانی روایت ہے کہ کسی رکن کے انتقال کے بعد منعقد ہونے والا اجلاس احتراماً ملتوی کردیا جاتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی تاریخ میں ایسے 24 واقعات ہوچکے ہیں۔
تاہم اسپیکر یہ بتانے سے قاصررہے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لئے بلائے گئے اجلاس کو ماضی میں کتنی بار آئین کی مقررہ مدت کے بعد طلب کیا گیا اور کیا وجہ تھی کہ اگر آج مرحومین کے احترام میں اجلاس ملتوی کرکے پارلیمانی روایت کا احترام ہی مقصود تھا تو اس اہم اجلاس کو مزید تین روز کے لئے ملتوی کرنے کا کیا جواز تھا؟ اسد قیصر کے اس رویہ سے اپوزیشن کا یہ الزام درست ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے کسٹوڈین سے زیادہ اپنی پارٹی کے رکن کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی روایت پر ’لیکچر‘ دیتے ہوئے اسپیکر کو جاننا چاہئے تھا کہ اگر کسی اچھی روایت کا جاری رہنا ضروری ہے تو کسی بری اور آئین شکن روایت کے دوررس اور سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے مسلسل اپنی کامیابی کے دعوے کررہے ہیں۔ دو روز پہلے ہی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے ایک روز پہلے اپنے پتّے دکھائیں گے اور اپوزیشن کو چت کردیں گے۔ آج قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرکے حکومت نے جس حکمت عملی کا اعلان کیا ہے اس سے تو خود عمران خان شکست خوردہ، پریشان حال اور بدحواس دکھائی دیتے ہیں۔ حتی کہ انہیں ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی ہمت بھی نہیں ہوئی جہاں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونا تھی۔ اگر وہ جانتے تھے کہ یہ اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ہی ملتوی ہوجانا ہے ، اس لئے اس میں جانا ’ضروری‘ نہیں ہے تو یہ اس دینی منشور و روایت سے برعکس حرکت ہے جس کا آج کل عمران خان زور شور سے پرچار کررہے ہیں۔ کیا کسی مرحوم ساتھی کے انتقال پر فاتحہ خوانی میں شرکت ہماری سماجی دینی روایت نہیں ہے؟ اور کیا وزیر اعظم کا عہدہ اور مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ وہ ایسے موقع کو خاطر میں لانے کے لئے ہی تیار نہیں ہے؟ یا تما م تر حوصلہ مندی اور شجاعت کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود عمران خان بپھری ہوئی اپوزیشن اور قومی اسمبلی میں اپنی سکڑتی ہوئی ’اکثریت‘ سے خوفزدہ منہ چھپائے پھرتے ہیں؟
عمران خان نے ایک روز پہلے پوری پاکستانی قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ اتوار کو تحریک انصاف کے جلسہ میں شرکت کے لئے اسلام آباد پہنچیں۔ انہوں نے اس شرکت کو بدی کے خلاف نیکی کا ساتھ دینے کے مماثل قرار دیا۔ وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے ملک کے ایک معمول کے سیاسی تنازعہ کو ’کفر و اسلام‘ کی جنگ بناتے ہوئے نیکی و بدی کے معرکے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 27 مارچ کو منعقد ہونے والا جلسہ بھی اس سلسلہ ہی کی کوشش ہے۔ لیکن عمران خان اس اسمبلی سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہیں جہاں قانونی و آئینی طریقہ سے بدی کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے ۔ ایک بہادر اور ذمہ دار سیاسی لیڈر اور باوقار وزیر اعظم کے طور پر تو عمران خان کو جلسے کرنے، عوامی رابطہ مہم چلانے، ویڈیو پیغام جاری کرنے اور دھمکیوں یا دعوؤں سے اپنے حامیوں سے زیادہ خود کو یقین دلانے کی بجائے کہ وہ بہر حال سرخرو ہوں گے، اسپیکر سے مطالبہ کرنا چاہئے تھا کہ وہ اپوزیشن کی ریکوزیشن آنے کے فوری بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں تاکہ ایک تو اپوزیشن کو مزید ’سازشیں‘ کرنے کا موقع نہ ملے ، دوسرے وہ دھڑلے سے اجلاس میں جاکر اپنی اکثریت ثابت کرکے عدم اعتماد کی ’شر انگیز‘ کوشش کو ختم کردیں۔ لیکن وزیر اعظم کی بدحواسی اور پریشان حالی سے تو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ دیانت دار عمران خان کے دور میں ’نیکی‘ منہ چھپائے پھرتی ہے۔ خود اپنی دیانت و امانت کا عدالتی سرٹیفکیٹ دکھانے اور مخالفین کو ہر طرح کے برے لقب سے پکارنے والے کسی سیاسی لیڈر کے لئے یہ صورت حال انتہائی شرمناک اور قابل صد افسوس ہے۔
عمران خان حیران کردینے کے دعوے کررہے ہیں لیکن ان دعوؤں کے پیچھےیہ شدید خواہش کارفرما دکھائی دیتی ہے کہ کسی طرح اپوزیشن کے ساتھ کوئی درپردہ مفاہمت ہوجائے اور وہ عدم اعتماد کی تحریک پر رائے دہی پر اصرار نہ کرے۔ اب ان دروازوں کا پتہ تو عمران خان ہی جانتے ہیں جنہیں اس سلسلہ میں مدد کی درخواست کے لئے بار بار کھٹکھٹایا جارہاہے لیکن ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ عمران خان میں کسی بھی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ کسی بحران کو سمجھنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ اسی لئے امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ سے ملاقات کو وہ پاکستان کے لئے ورلڈ کپ جیتنے جیسی کامیابی قرار دے رہے تھے اور اسی لئے روسی صدر پوٹن نے یوکرائن پر حملہ کے موقع پر عمران خان کو اپنی سفارتی کامیابی اور سیاسی سرخروئی کا ’نمونہ‘ بنا کر پیش کیا اور پاکستانی وزیر اعظم اسے اپنی کامیاب ’غیر جانبدارانہ‘ پالیسی کا ثبوت بتاتے ہوئے ایک ایسے صدر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے جو ایک خود مختار ہمسایہ ملک کے خلاف کھلی جارحیت کا مرتکب ہؤا تھا۔ البتہ وہ سیاسی فائدے کے لئے یورپی ممالک کے سفیروں کے ایک مشورہ نما خط کو بنیاد بنا کر یورپ اور امریکہ کو ’چیلنج‘ کرکے اپنی بہادری ثابت کرنے کا ڈھونگ ضرور کررہے ہیں۔ یہ رویہ عام طور پر شکست خوردگی کا اظہار ہوتا ہے۔
تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے عمران خان اور تحریک انصاف کی حکمت عملی اب کوئی راز نہیں رہی۔ وہ تاخیری ہتھکنڈے اختیار کرکے اس تحریک پر ووٹنگ کو زیادہ سے زیادہ دیر کے لئے مؤخر کروانا چاہتے ہیں۔ اس دوران عوامی رابطہ مہم اور تند و تیز بیانات کے ذریعے وہ خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں ان حلقوں سے مواصلت و مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آئے جن کی ناراضی نے اب عمران خان کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔ تاکہ اسی ’ذریعے ‘سے اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلینے کے باوجود کسی طرح تحریک عدم اعتماد پر اصرار سے روکا جاسکے۔ ویسے زیادہ درست تو یہ بات ہے کہ عمران خان درحقیقت اپنی نااہلی، امور حکومت سے ناواقفیت، معاشی حقائق اور سفارتی حساسیات سے نابلد ہونے کی وجہ سے اپنی پارٹی اور حکومت کو ایک طرف کنواں ، دوسری طرف کھائی جیسے دوراہے پر لے آئے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ اگر عمران خان پر اعتبار کربھی لے تو بھی اس کے پاس ان کی ناکامیوں کو سمیٹنے اور ان کا حل تلاش کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ تاہم وزیر اعظم اپنی سی کوششیں ضرور کررہے ہیں۔ عوامی رابطہ مہم عوام کو متاثر کرنے سے زیادہ ان حلقوں کو ’ڈرانے‘ کا ہتھکنڈا ہے جن سے مدد مانگی جارہی ہے لیکن دستیاب نہیں ہوپارہی۔
اس دوران کسی بھی قیمت پر اپنی پارٹی کے منحرف ارکان کو واپس لانے اور حکومت میں شریک جماعتوں کو حمایت جاری رکھنے پر مجبور کرنے کی کوششیں تیز کی گئی ہیں۔ ان کوششوں کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ہی قومی اسمبلی کا اجلاس مسلسل مؤخر کیا جارہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج کےاجلاس سے پہلے اسپیکر سے ملاقات کرکے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی آئینی ترمیم کا مسودہ اسد قیصر کو پیش کیا اور اس معاملہ کو حالیہ اسمبلی اجلاس میں پیش کرنے کی درخواست کی جو فطری طور سے فوری طور پر مان لی گئی۔ اب شاہ محمود قریشی جنوبی پنجاب کے ناراض ارکان سے کہہ رہے ہیں کہ ’علیحدہ صوبہ بنانا ہے تو آؤ ہمارا ساتھ دو ‘۔ یعنی انتخابات سے پہلے کئے گئے وعدے پر عمل درآمد کے لئے جو کام ساڑھے تین سال میں نہیں کیا جاسکا ، اسے اب کرنے کا اعلان کرکے ٹوٹی پھوٹی پارٹی کی مرمت کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ منحرف ارکان خواہ ان کا تعلق ترین گرپ سے ہو یا علیم خان گروپ سے یا وہ خود انفرادی حیثیت میں حکومت سے نالاں ہوں، اتنا تو ضرور جانتے ہوں گے کہ اس وقت ان کی مدد کیوں مانگی جارہی ہے۔ عمران خان ایک بار اس مشکل سے نکل آئے تو وہ ان سب ارکان سے چن چن کر بدلے لیں گے، اس وقت جن کی منت سماجت کا ہر طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔
حکومت نے ایک امید سپریم کورٹ کے ریفرنس سے لگا رکھی ہے۔ اسے توقع ہے کہ عدالت عظمی کسی طرح یہ ’مشورہ‘ دے دے کہ منحرف رکن تاحیات نااہل ہوجائے گا تو وہ یہ چھری ناراض ارکان کے گلے پر رکھ کر ان سے عمران خان پر ’اعتماد‘ کا اقرار کروا سکے گی۔ دوسری طرف حکومت ناراض حلیف پارٹیوں کو ایک بار پھر ’ایک پیج ‘ پر لانے کے لئے سندھ میں گورنر راج لگانے کی پیشکش کے علاوہ قومی خزانے کے منہ کھولنے کے لئے تیارہے تاکہ کسی بھی طرح یہ اس وقت حکومت کا ساتھ نہ چھوڑیں اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہوسکے۔ ویسے ’دیانت دار وزیر اعظم ‘ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں ہوتا ۔یہ کام صرف سندھ ہاؤس میں ہوتا ہے جہاں نوٹوں کی بوریا ں پہنچانے کے لئے شاید سرکاری ٹرانسپورٹ استعمال ہوئی تھی کیوں کہ یہ بوریاں عمران خان اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں کے علاوہ کسی کو دکھائی نہیں دیں۔
’آؤ مل کر بات کرو ، مسئلے حل کرلیں گے‘ کے عنوان سے جب حلیف جماعتوں یا ناراض ارکان سے رابطہ کیا جاتا ہے تو یہ بھی دراصل ’ہارس ٹریڈنگ ‘ ہی کا طریقہ ہے۔ یا اگر سپریم کورٹ کے ریفرنس کا دباؤ ڈال کر ارکان کو اپنی صوابدید کے برعکس ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے تو اسے نیکی کی کون سی قسم میں شمار کیا جائے گا؟ اس کے باوجود عمران خان نیکی کا نمائیندہ اور اس کے خلاف سیاسی و آئینی کوشش کرنے والے سب بدی کا پرچار کرنے والے کہلائیں تو اسے بوالعجبی نہ کہا جائے تو کیا سمجھا جائے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )