پاکستانی آج یوم آزادی منا رہے ہیں مگر میں بجھے بجھے دل سے اپنے دوستوں سے مخاطب ہوں۔ میں 14 اگست 1947 کا اپنے ہی گھر کا منظر اگر چشم تصور سے دیکھوں تو میری ماں جو اس وقت اسلامیہ کالج کوپر روڈ کی فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی اور بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم ممتاز شاہنواز کی سرکردگی میں تحریک پاکستان کی سرگرم رکن ہونے کی وجہ سے جیل میں قید تھی۔ میرے ماموں سید اسد حسین شاہ بھی تحریک پاکستان کے سرگرم سپاہی اور قید تھے۔ انہیں پاکستان بننے کی کس قدر خوشی ہوئی ہو گی یقیناً وہ جیل میں کیا گیا تشدد بھول کر ایک آزاد ملک کے حصول پر پھولے نہیں سما رہے ہوں گے کہ اتنی صعوبتوں کے بعد ایک سرزمین جیت لی جس پر وہ اب ہر طرح سے آزاد تھے۔ یقیناً ان لوگوں نے سوچا ہوگا کہ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ رہتے تھے بقول جناح صاحب we can’t dine together کہ ہم اکٹھے بیٹھ کر ایک ٹیبل پر کھانا نہیں کھا سکتے۔
یہ بھی جناح صاحب نے کہا تھا ہماری ایک کتاب ہے اور خدا ایک رسول ایک اور اقلیتیں ہماری ہم وطن اور ہمیں اتنی ہی عزیز جتنے کے مسلم ۔ مگر میں آج 14 اگست 2023 بروز سوموار اکیلی بیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کہ آج وہ لوگ اگر زندہ ہوتے جنہوں نے صعوبتیں برداشت کیں تو ان کے کیا خیالات ہوتے ؟
میری ماں نے بورسٹل جیل کے گیٹ پر بیری کے درخت پر چڑھ کر جھنڈا لگایا جیل میں تعینات لیڈی کانسٹیبلز نے اتنا مارا کہ منہ سے خون جاری ہو گیا اور زنجیروں سے باندھ دیا۔ دوستو میں نے لفظ لیڈی کانسٹیبلز پر زور دیا کیونکہ چند روز قبل کے مناظر آنکھوں کے سامنے میرا منہ چڑا رہے ہیں کہ اپنے ہی عزیز وطن کی مرد پولیس عورتوں کو گھسیٹ رہی تھی ۔گھروں میں دروازے توڑ کر گھسی ہوئی تھی اور معصوم بچیاں خوف و ہراس سے آنکھیں پھاڑے سہمی کھڑی تھیں۔ اور وہ اقبال جس کا احسان ہے ہم پر اور اس کا نام ہماری پہچان ہے اس کی بہو ناصرہ اقبال کھڑی پوچھ رہی تھی کہ گیٹ کیوں توڑا اندر کیسے داخل ہوئے؟
آج بوجھل دل سے بول رہی ہوں حالانکہ ضرور کچھ دوست کہیں گے کہ نہ کرو ایسی باتیں کیونکہ بولنا منع ہے میں سوچ رہی ہوں آخر ہم ہیں تو انہی لوگوں کی اولاد جنہوں نے مشکلیں اٹھائیں بے سر و سامانی میں گھر بار چھوڑ کر نئے وطن کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے آگئے۔
میرے ہم وطنو 14 اگست 1947 کو دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تھی جس کی تاحال مثال نہیں ملتی بوجھل دل سے پوچھتی ہوں اس ہجرت کے بعد ہم کتنے کامیاب ہوئے؟ ہجرت بہت مجبوری میں کی جاتی ہے جب روزگار اپنے دیس میں نہ ملے تو دیار غیر بھوک مٹانے نکلنا پڑتا ہے۔ آج 14 اگست 2023 کو یہ سوچنا ہو گا کہ یہ نوبت کیوں آرہی ہے صرف یہ سوچ لیں ہمارے بچے پیدا ہوتے ہی مقروض کیوں ہیں اور آپ کے سیاسی لیڈروں کی اولادیں پیدائشی کھرب پتی۔ ہمارے بچوں کی سی وی اتنی مضبوط کہ بغیر سفارش غیر ملک ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں اور ان کی نالائق بچوں کی فرضی سی وی خود بیٹھ کر بنائیں کہیں چپڑاسی اور آیا بھی لگنے کے لائق نہیں اور آپ ان لوگوں کے آ گے می رقصم رقصم می رقصم۔ آپ ڈیزرو کرتے ہیں انہی حالات کو… کبھی جرات کی ہے آ پ نے کسی بھی سیاسی ناخدا سے پوچھنے کی کہ 40 سال پہلے تو چھوڑیں ہندوستان مشترکہ کے وقت تیرا باپ کیا تھا اور اب تیرا خزانہ کھل جا سم سم والا کیسے بن گیا؟ میرا مقروض بچہ دیار غیر میں مزدور اور تیرا بچہ قانون کیوں ہے ؟ .بس اس 14 اگست اپنے ذاتی مفاد بھول کر اپنی غیرت اپنی حمیت کو جھنجوڑو ورنہ بچے کچے بھی ہم ختم ہو جائیں گے۔
فیس بک کمینٹ