پاکستان کی دبنگ خاتون یا آئرن لیڈی کو لاہور میں سپرد خاک کردیاگیا اور میں خوش ہوں بہت خوش ۔ مظلوموں ،محکوموں ،مقہوروں کے حق میں اٹھنے والی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی اور میں خوش ہوں ،بہت ہی خوش ۔تین روز قبل جب مجھے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے کی اطلاع ملی تھی تو میں بھی سوگوار تھا ۔۔ دو دن اداسی چھائی رہی ،رہ رہ کر یہی خیال آتا تھا کہ اب کون ہے جو ظالموں کو ببانگ دہل للکارے گا اب کون ہے جو حقیقی حکمرانوں کو ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ڈفر کہے گا۔ ایسے بہت سے سوالات تھے جو مجھے اداس کئے ہو ئے تھے مگر تیسرے دن میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ عاصمہ جہانگیر کی موت پر بھی بہت سے لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا مگر نہ میں ” محب وطن“ ہوں نہ ہی دنیا میں جنت جہنم کی الاٹ منٹ کرنے والا زمینی خدا ۔۔ میں تو عام سا گناہ گار بندہ ہوں ۔۔ میری خوشی کچھ ایسی ہے کہ جب کوئی جیالا جئے بھٹو کا نعرہ لگاتا ہے اور ضیا باقیات کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں بس اس لمحے جو خوشی محسوس ہوتی ہے آج بھی میں ویسے ہی خوش ہوں۔ پاکستان میں بہت سے متقی پرہیز گار اور سند یافتہ محب وطن لوگ ہیں جن کے لئے عاصمہ جہانگیر ہمیشہ باعث آزار رہیں ۔میں اس بات پر خوش ہوں کہ میڈم عاصمہ جاتے جاتے بھی ان کے لئے مستقل رنج والم کا بندوبست کر گئیں ۔۔ آپ سوشل میڈیا دیکھئے ایک مخصوص طبقے کے دل ودماغ سے اٹھتا دھواں صاف دکھائی دے گا
میں اس لئے خوش ہوں کہ عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابو اعلیٰ مودودی صاحب کے فرزند ارجمند جناب حیدر فاروق مودودی نے پڑھائی یہ خبر سنتے ہی میں مزید خوشی کشید کرنے سوشل میڈیا پر پہنچا ۔۔ کیابتاؤ ں کیا حسین منظر تھا ارتھیاں جل رہی تھیں ،محب وطن اور متقی ،پرہیز گار، ہدایت یافتہ لوگوں کی۔ جل جل کر کوئلہ ہو چکے تھے ۔ کوئی حیدر فاروق مودودی کو نا خلف کہہ رہا تھا اور کوئی قادیانیت کا الزام لگا رہا تھا ۔۔ ایک ہدایت یافتہ نے کوثر وتسنیم میں دھلی زبان میں فرمایا کہ “ یہ (حیدر فاروق مودودی)تو اپنے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہوا اور کمرہ بند کر کے بیٹھا رہا تھا ۔ کسی نے بڑے مودودی صاحب کی تمام اولاد گنوائی ،ان کے کارنامے بیان کئے اور پھر حیدر فاروق کو گندا انڈہ ٹھہرایا ایک بطل جلیل نے تو حیدر فاروق مودودی کو حضرت نوح کے بیٹے سے تشبیہہ دے ڈالی ۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ کے بعد منصورہ اور “ وہاں“ جو سوگ کا منظر ہے وہی میری خوشی کا ایک سبب ہے ۔ میری مسکراہٹ کی دوسری وجہ وہ دلیر خواتین ہیں جو عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہوئیں ۔ سچ تو یہ کہ پینٹ کوٹ اور جینز پہنے نماز جنازہ پڑھنے والی خواتین نے مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی روح کی آسودگی کا سامان کیا ۔۔ خواتین کے حوالے سے ایک بر محل بات یہ یاد آئی کہ ماضی قریب اور حالیہ دنوں میں یہ تیسرا واقعہ جب خواتین جنازوں میں شریک ہوئیں ۔۔ بلوچستان میں نواب خیر بخش مری کا جنازہ بھی بلوچ خواتین نے ایک فرقہ پرست جماعت کے مقامی سربراہ سے چھین لیا تھا ۔ غیور خواتین نے مسلک اور عقیدے کے بنیاد پر لوگوں کا قتل عام کرنے والے اس ملا کو جنازہ پڑھانے کی اجازت نہ دی نہ ہی ان خواتین نے نواب کے ” وہاں “ کے ہدایت یافتہ بیٹے کو باپ کی میت کو چھونے کی اجازت دی ۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں بدکاری کے الزام میں نیک پاک مردودوں نے ایک خاتون کو سنگ سار کیا تھا اور جنازہ اٹھانے پر بھی پابندی لگا دی تھی وہ شاید تاریخ کا اکلوتا جنازہ تھا جسے غیور افغان خواتین نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر آخری منزل تک پہنچایا تھا۔۔ آج جب میں نے عاصمہ جہانگیر کے جنازہ میں گاگل لگائے خواتین کو دیکھا تو بتا نہیں سکتا کہ کتنا خوش ہوا ۔ مگر یہ خوشی اسلام پسندوں کا ردعمل جانے بنا ادھوری تھی سو پھر سے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تو دل باغ باغ ہوگیا وہاں پھر سے ہاہاکار مچی ہوئی تہی اسلام کے لئےپھر خطرہ پیدا ہو گیا ۔لوگ اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے پر مرنے کے قریب تھے مرحومہ سمیت تمام شرکا جنازہ کو جہنمی قرار دیا جاچکا ہے ۔ لوگ توبہ استغفار کے کمنٹس کر رہے ہیں ۔ کسی کو خواتین کی شرکت پر اعتراض ہےاور کوئی مردوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہونے پر تلملا رہا ہے ۔میری خوشی کی تیسری وجہ عاصمہ جہانگیر کی سرکاری اعزاز کے بغیر تدفین ہے شکر مردہ خراب ہونے سے بچ گیا ورنہ وہ کتنی ناراض اور نا خوش ہوتیں ۔ ان کی عظمت اور بلند مقام کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ڈفروں نے ابھی تک ان کی رحلت پر تعزیت نہیں کی ۔
خدا نخواستہ اگر ایدھی صاحب کی طرح ان کی میت بھی ہائی جیک کر لی جاتی تو کیا ہوتا ؟
فیس بک کمینٹ