یہ مارچ 2016 کی 18 تاریخ تھی۔ جمعۃ المبارک کے یوم سعید کی خوش جمال ساعتیں۔ صبح کاذب کی دم توڑتی گھڑیاں۔ مسجدوں سے ابھی فجر کی اذانیں بلند نہیں ہوئیں تھی۔ ایک بڑے گھر کے بڑے پھاٹک سے ”جری کمانڈو ‘‘ نکلا۔ سیاہ رنگ والے شیشوں کی سیاہ رنگ گاڑی میں بیٹھا۔ سکیورٹی کی چیختی چنگھاڑتی گاڑیاں اُ س کے آگے پیچھے ہو لیں۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر امارات ائر لائنز کا طیارہ تمام مسافروں کو اپنی آغوش میں لیے اُس کا منتظر تھا۔ اُس کی گاڑی جہاز کی سیڑھی کے ساتھ لگی۔ آخری مسافر تیز تیز زینے پھلانگتا طیارے میں داخل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دروازہ بند ہوا اور طیارہ اُڑان بھر گیا۔ جانے سے ایک دن قبل اُس نے اخبار والوں سے کہا تھا :
”میں ایک کمانڈو ہوں۔ اپنی مادرِ وطن سے محبت کرتا ہوں۔ میں چند ہفتوں یا مہینوں میں لوٹ کر آرہا ہوں ‘‘
وہ دن اور آج کا دن۔ اُس نے پلٹ کر نہ پوچھا کہ اُس کے ہجرو فراق میں اُس کی مادرِ وطن پر کیا بیت رہی ہے۔
پاکستان کے عزت مآب چیف جسٹس نے قاضیانہ جلال و جمال کے تمام ترطمطراق کے ساتھ ایک بار پھر کہا کہ ”وہ واپس آجائے اورمقدمات کا سامنا کرے۔ اس کو غداری جیسے مقدمے کا سامنا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت اُسے ضمانت دے رہی ہے کہ وہ آئے تو اُسے گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ کہیں اُسے ایسی صورتِ حال میں واپس نہ آنا پڑے جو اُس کے لئے باوقار نہ ہو۔ جب تک وہ زندہ ہے، اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتوں کے سامنے پیش ہو۔ ہم اُس کی رہائش کے لئے اُسکے فارم ہاؤس کی صفائی ستھرائی کرادیتے ہیں۔ اِ س کی سیکورٹی کے لئے رینجرز کے بریگیڈ لگادیتے ہیں۔ وہ رضاکارانہ واپس آجائے۔ تو اِ س کی عزت میں اضافہ ہو گا۔ وہ تو خود سپریم کورٹ میں واپسی کا وعدہ کرکے گیا تھا۔ اِ س کی کمر میں تکلیف ہے تو یہاں اس کا علاج کراتے ہیں۔ وہ خود کو جرات مند کما نڈو کہتا ہے تو جرات کرے۔ ۔ واپس آئے۔‘‘
جناب چیف جسٹس کئی ماہ سے اُسے پکار رہے ہیں۔ لیکن اُن کی پکار، اُس کے عالیشان فلیٹ کی سمندر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے دبیز ریشمی پردوں میں لرزش تک پیدا نہیں کرپارہی۔ وہ کھڑکی کھول کر سمندر کی نیلگو ں لہروں پر تیرتے بجروں کو دیکھتا اور سگار کے کش لگاتا رہتا ہے۔ وہ اپنے سر پہ تنے خیمہ عافیت کی طاقت سے آگاہ ہے۔ جانتا ہے کہ گستاخ ہوائیں اُس کے خیمے کی طنابیں اکھیڑ نا تو کجا، اس میں تھگلی بھر چھید بھی نہیں کرسکتیں۔ چار چھ ہفتوں کا کہہ کر اُس نے ملک چھوڑا تھا۔ اب اڑھائی سال سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے لیکن وہ ”کمانڈو ‘‘ ہے۔ سو کسی کی گرفت میں نہیں آرہا۔
اُس نے نو برس تک ناقوسِ حکمرانی بجانے کے بعد، اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد بھی لندن کا رختِ سفت باندھا اور نو مبر 2008میں یہاں سے کوچ کرگیا۔ اُ س کے ’رزقِ فراواں ‘ سے شکم سیر ہونے والا ایک حلقہ اُس سے جُڑارہا۔ 2013 کے انتخابات کی رُت آئی تو اُنہیں ”کمانڈو‘‘ کی ”ہوسِ اقتدار ‘‘ کو ہوا دینے اور جیبیں بھرنے کا سنہری موقع مل گیا۔ اس کے حاشیہ نشینوں اور اُ س کی شاداب چراگاہوں کے خوشہ چینوں نے اُسے جھانسہ دیا کہ پاکستانی قوم اُس کی راہ دیکھ رہی ہے۔ وہ پاکستان آئے۔ انتخابات میں اپنی جماعت کی قیادت کرے۔ اور ایک بار پھر فاتح کی حیثیت سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے۔ اِ س کے پُرانے ادارے کے مخلص ساتھیوں نے اُسے روکا۔ کہا کہ خود کو اور ادارے کو آزمائش میں نہ ڈالے لیکن خواب کا خمار اُس کے اعصاب پر چھا چکا تھا۔
چارسال چار ماہ بعد 24 مارچ 2013 کو وہ چشم ِ تصور میں لاکھوں افراد کے پُر جوش ہجوم کا جانفزا نظارہ لئے کراچی کے جناح انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر اُترا تو ملکی و غیر ملکی صحافیوں کا ایک غول اُس کے ہمرکاب تھا۔ اُس نے خواب آلودہ آنکھوں کے نیم وا جھروکوں سے دیکھا۔ پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اجرتی نعرہ زنوں کے مٹھی بھر دیہاڑی داروں کے سوا کوئی نہ تھا۔ انتخابات تو وہ کیا لڑتا، اُس کے کاغذات بھی مسترد ہوگئے۔ اُس کا نام بھی بے نظیر بھٹو قتل اور کئی دیگر مقدمات میں، ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) پر ڈال دیا گیا۔ ”مادرِ وطن‘‘ نے اُسے جکڑ لیا۔ مزید ستم یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے انتخابات جیت گئی۔ اٹک قلعے میں ڈال دیا جانے والا ”ہائی جیکر ‘‘ ملک کا وزیرا عظم بن گیا۔ ”کمانڈو‘‘ کے سارے خواب کرچیاں ہوگئے۔ خود کو آہنی حصار کی گرفت میں محسوس کرتے ہوئے اس نے رحم طلب نگاہوں سے ایک بار پھر راولپنڈی کی طرف دیکھا۔ جنرل کیانی نے وہی جواب دیا جو اگست 2008 میں دیا تھا۔
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وزیراعظم نواز شریف کے لئے مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ قائم کرنا کتنا بڑا چیلنج تھا۔ اسے باہر سے ہی نہیں، اندر سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ یہ مزاحمت وقت کے ساتھ ساتھ توانا ہوتی گئی۔ جنرل کیانی کی رخصتی اور نئے چیف کی تقرری کے بعد اس مزاحمت میں خاصی سنگینی آگئی۔
2014 میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں میں اور بھی بہت کچھ تھا لیکن” سنگین غداری ‘‘ مقدمہ بھی ایک نمایاں محرک تھا۔ یہ دھرنے شروع ہونے کے کوئی دو ہفتے بعد، 27 اگست 2014 کی شام کا ذکر ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت اور مختصر خطاب کے بعد وزیر اعظم واپس جانے لگے تو مجھے گاڑی میں بٹھالیا۔ شاہراہ ِ دستور آتش فشاں بنی ہوئی تھی اور ” گو نواز گو ‘‘ کی گونج تیز تر ہورہی تھی۔ میں نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔ ”میاں صاحب! یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ کوئی خاص وجہ ہے آپ کے ذہن میں؟ ‘‘ وزیراعظم نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لاتے ہوئے سرگوشی ہی کے انداز میں صرف ایک لفظ کہا۔ ”مشرف ‘‘
یہ اُس طویل طلسم ہوش رُبا کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جس کا ورق ورق میری آنکھوں کے سامنے رقم ہوا۔ اس کہانی میں ایک بڑا موڑ اُس وقت آیا جب 16 مارچ 2016 کو وفاقی حکومت کی اپیل خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ برقرار رکھا جس کے تحت مشرف کانام ای سی ایل سے نکال دیا گیا تھا۔ بدھ کو فیصلہ آیا جمعرات کو مشرف نے وزارتِ داخلہ کو درخواست دی۔ اُسی دن منظوری مل گئی اور اگلی صبح طلوع ہونے سے پہلے ”کمانڈو‘‘ ملک چھوڑ گیا۔ جب وہ رخصت ہوا تو اُس پر سنگین غداری، بے نظیر بھٹو قتل، اکبر بگتی قتل اور لال مسجد سمیت کوئی درجن بھر مقدمات چل رہے تھے۔ یہ مقدمے آج بھی چل رہے ہیں۔ پاکستان کا نظام ِ انصاف پورے قد سے کھڑا ہے۔
اشتہاری مجرم، ریڈ وارنٹس، انٹر پول، مجرموں کے تبادلے، جائیدادوں کی قرقی، سار ے ضابطے زندہ سلامت ہیں۔ بے لاگ انصاف کی پرچم بردار عدالتیں پوری طرح متحرک ہیں۔ قانون کے لمبے ہاتھ چُن چُن کر مجرموں کی گردنیں دبوچ رہے ہیں۔ وہ سو سو پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ سزائیں پارہے ہیں۔ ان کے گھر، ان کی گاڑیاں، ان کا سازوسامان سبھی کچھ نیلام ہو رہا ہے۔ لیکن ”جری کمانڈو‘‘ محفوظ و مامون ہے۔ قانون کے لمبے ہاتھ اُس کی گردن کی طرف بڑھتے ہی سکڑنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہڈیوں کی گانٹھ سی بن کر شانوں سے چپک جاتے ہیں۔ کوئی رعایت، کوئی لالچ، کوئی ترغیب، کوئی ڈراوا، کوئی خوف اُسے وطن واپس لاکر کٹہرے میں کھڑا کرنے سے قاصر ہے۔
جناب چیف جسٹس کی دل سوزی و درد مندی بجا۔ قانون کے یکساں مفاد کے لئے اُن کی تڑپ کو صد سلام۔ لیکن ایک عمر، وطن عزیز کی ”عدل گاہوں ‘‘ کی نذرکرنے، برس ہا برس سے آئین، قانون اور انصاف کے کئی کئی معیارات، کئی کئی پیمانوں اور کئی کئی ترازوؤں کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہ نہیں جانتے کہ اس جادونگری میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ کیا کچھ ہورہا ہے؟ کیا اُنہوں نے اپنی پکار کو کبھی، زور آور للکار اور کبھی بتیس دانتوں سے عاری سال خوردہ بوڑھے کے پوپلے منہ کی پھسپھسی سی پھونک بنتے نہیں دیکھا؟ دیکھا ہے تو کیوں مُصر ہیں کہ” جری کمانڈو ‘‘ واپس آئے اور مقدمات کا سامنا کرے؟ جناب چیف جسٹس کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ” جرات ‘‘ ”وقار ‘‘ ”وعدہ ‘‘ اور” عزت ‘‘ جیسے جن الفاظ کی دہائی اُنہوں نے دی ہے، وہ آمروں کی ”بلیک لاء ڈکشنری ‘‘ کاحصہ نہیں ہوا کرتے۔
”جری کمانڈو‘‘ کے ناقابلِ شکست اور آئین و قانون کے تمام تقاضوں سے ماوریٰ ہونے کا کچھ تذکرہ، اگلے کالم میں۔ !