میں نے حال ہی میں مہدی لغاری کے ناول "عشق آباد سے اشک آباد” کا مطالعہ شروع کیا ہے، اور اگرچہ ابھی چند ابتدائی صفحات ہی طے کیے ہیں، مگر یہ تخلیق اپنی گہرائی اور کشش کے باعث دل و دماغ کو بے اختیار اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ ابتدا ہی سے یہ ناول قاری کو ایک ایسے جہان میں داخل کر دیتا ہے جو بظاہر اجنبی محسوس ہوتا ہے، مگر اندر ہی اندر ایک انجانی مانوسیت کا احساس جگاتا ہے، جیسے یہ کہانی انسان کی اپنی ہی باطن کی کسی تہہ سے ابھر رہی ہو۔
مہدی لغاری کا اسلوب اور علامتی ساخت گبریل گارسیا مارکیز کی یاد تازہ کراتی ہے، خصوصاً اُن کے شہرۂ آفاق ناول “One Hundred Years of Solitude” کے جادوئی حقیقت نگاری کے رنگوں میں۔ تاہم، لغاری کے ہاں جذبے کی شدت اور معنویت کی تہہ داری شاید اس سے بھی زیادہ مؤثر دکھائی دیتی ہے، کیونکہ ان کی روایت قاری کے اندر ایک ایسی یاد اور احساس کی سرزمین میں جنم لیتی ہے جو خود قاری کے وجود کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔
یہ تاثرات خلوصِ دل سے پیش کیے جا رہے ہیں — بطورِ تحسین اور اس غیر معمولی ادبی کارنامے پر مصنف کو دلی مبارکباد کے طور پر۔
فیس بک کمینٹ

