سب سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ میرے بچپن کا کچھ حصہ سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر دیناج پور اور باقی حصہ ملتان میں گزرا ہے ۔ دونوں ملکوں کے رہن سہن اور رسم ورواج مختلف ہیں ، اس لئے دونوں ملکوں میں عید بقرعید اور محرم بھی مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ ہم جس علاقے میں رہتے تھے وہاں شیعہ اور سُنی دونوں آباد تھے ۔ یہاں شیعوں کی تعداد بہت کم تھی ، اس لئے یہاں شعیوں کے لئے نہ تو کوئی الگ سے مسجد تھی اور نہ ہی کوئی امام باڑہ، شعیہ اور سنی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے تھے، البتہ بہاری سنیوں کے دو امام باڑے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک میدان تھا ، جہاں مٹی کا ایک چبوترہ تھا ، جو امام باڑہ کہلاتا تھا۔ محرم کا چاند نظر آنے سے دو تین دن پہلے چبوترے کی لپائی اور اس کے ارد گرد کی جگہ صاف کی جاتی اور بڑے بڑے بانسوں کو کاٹ کر گتکہ کھیلنے کے لئے لاٹھیاں بنائی جاتیں اور ان کو سبز رنگ میں رنگ دیاجاتاتھا۔ چاند نظر آتے ہی یہاں بڑے بڑے بانسوں پر جھنڈے لہرائے جاتے کچھ نوجوان باری باری ڈنکا بجاتے اور کچھ گتکہ کھیلتے۔
گتکہ کا کھیل دیکھنے کے لئے بچوں کے ساتھ ساتھ جوان اور بوڑھے بھی میدان میں جمع ہو جاتے اور یاعلی اور یا حسین کا نعرہ لگا کر داد دیتے تھے۔ لوگ گھروں سے چھوٹی بالٹیوں یا لوٹوں میں شربت بنا کر لاتے، ایک ڈاڑھی والے صاحب تھے ، جن کی پان سگریٹ کی دُکان تھی، ان کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن لوگ اُنہیں مولوی صاحب کہتے تھے، ان پر ختم پڑھنے کے بعد بچوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔یہ سلسلہ یکم محرم سے لے کر 9 محرم کی رات گئے تک جاری رہتا تھا ۔ یہاں 9 محرم کی شام سے لے کر رات گئے تک باقی دنوں کی نسبت زیادہ لوگ آتے اور نیاز تقسیم کرتے تھے۔ 9 محرم کی رات کو یہاں سے تعزیہ نکلتا تھا ، تعزیہ کو پورے علاقے میں گھمایا جاتا، کچھ لوگ مرثیہ اور سلام پڑھتے جاتے ۔چوراہوں پر جلوس کو روک دیا جاتا اور لڑکے گتکہ اور تلوار بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک لڑکے کو لٹا کر اُس کے سینے پر اینٹ رکھ دیتے ۔ بھر ایک لڑکا لاٹھی لہراتا ہوا آتا اور لاٹھی کو پوری طاقت کے ساتھ اینٹ پر مارتا ، اینٹ کے دو ٹکڑے ہو جاتے اور اوروہ لڑکا یا حسین کا نعرہ لگاتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوتا۔ تعزیہ کا یہ جلوس دس محرم کو صبح کی اذان کے وقت امام باڑہ پر وپس آجاتا اور ظہر کی نماز کے بعد جلوس دوبارہ نکلتا اور مختلف راستوں سے ہوتا ہوا شام کو بڑے میدان میں پہنچ کر گھوڑا شہید کے مزار پر پہنچ کر ختم ہوتا تھا۔ پورے دیناج پور سے نکالے گئے شیعہ اور سنیوں کے تمام جلوس اسی جگہ آکر ختم ہوتے تھے۔ دس محرم کو یہاں اُسی طرح میلہ لگتا تھا جیسے ہمارے ہاں عرس کے موقعوں پر میلے لگتے ہیں ، میلے میں بچوں کے لئے جھولے اور پنگوڑے کے علاوہ یہاں مٹی کے کھلونے اور برتن کے ساتھ ساتھ مٹھائیاں اور دوسری کئی چیزیں ہوتی تھیں۔ دس محرم کو میری والدہ مجھے نہلا دھلا کر اس طرح تیار کرتیں جیسے بچوں کو عید پر تیار کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد مجھے ایک روپئے کا نوٹ دیتیں جیسے عیدی دی جاتی ہے ۔
مغرب کے بعد میں اپنے دادا کے ساتھ میلہ دیکھنے جاتا اورکافی دیر تک گھومنے کے بعد واپسی ہوتی تھی۔ دس محرم کی شام اکثر گھروں میں کھچڑا اور گوشت پکتا تھا ، جس طرح ہمارے ہاں کابلی چنے کا پلاؤ پکتاہے ، اسی طرح کھچڑا بھی پکتاہے فرق صرف یہ ہے کہ اس میں چنے کی جگہ چنے کی دال ڈالی جاتی ہے۔ کھچڑا صرف اور صرف دس محرم کو ہی پکایا جاتا تھا ، عام دنوں میں کوئی نہیں پکاتا تھا۔اس کے علاوہ 9 محرم کی رات کو عورتیں گھروں میں میدہ یا سفید آٹے میں گھی، چینی، گری اور بادام وغیرہ ڈال کر موٹی موٹی روٹیاں بناتیں جسے روٹ کہتے تھے اور روٹ کو ہاون دستے میں کوٹ کر اُس کاملیدہ بناتی تھیں جیسے ہمارے ہاں چوری بنائی جاتی ہے۔ دس محرم کی صبح نیاز کے طور پر اسے گھروں میں تقسیم کی جاتا تھا، جس طرح ہمارے ہاں حلیم تقسیم کی جاتی ہے۔ کھچڑے کی طرح روٹ یا ملیدہ بھی صرف محرم میں بنایا جاتا تھا، عام دنوں میں روٹ نہیں پکایا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ بہاری سنی کرتے تھے جبکہ بنگالی سنی ایسا کچھ نہیں کرتے تھے۔ ہمارے گھر سے تقریباً آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤ ں تھا ، بعد میں کچھ بنگالی لڑکوں نے یہاں ایک امام باڑہ بنا لیا تھا اور وہ اُسی طرح تعزیہ اور جلوس نکالتے تھے، جیسے بہاری نکالتے ، راستے میں بنگالیوں کا جلوس بھی بہاریوں کے جلوس کے ساتھ شامل ہو جاتا تھا۔ہمارے علاقے میں سنیوں کے ساتھ ساتھ شیعہ بھی آباد تھے جو سب کے سب بہاری تھے، صرف ایک بنگالی شیعہ تھا جو بعد میں سنی سے شیعہ ہوا تھا۔ محرم کا چاند نظر آنے کے بعد اکثر شیعہ کالے لباس میں نظر آتے، یہاں شعیوں کا کوئی امام باڑہ نہیں تھا البتہ دو گھر ایسے تھا جہاں روزانہ مجلس اور ماتم ہوتی تھی، سب لوگ وہیں جاتے تھے ، ان میں ایک گھر چھ نمبر بلاک میں تھا جبکہ دوسرا دو نمبر بلاک میں ۔ یہاں عورتوں اور مردوں کی الگ الگ مجالس ہوتی تھیں، عورتوں کی مجلس مغرب سے پہلے ختم ہو جاتی تھی جبکہ مردوں کی مجلس رات دیر تک جاری رہتی تھی۔ دس محرم کو ماتمی جلوس بھی انہی دو گھروں سے نکلتے اور ایک جگہ مخصوص جگہ پر پہنچ کر دونوں جلوس اکٹھے ہو جاتے اور اپنے گھوڑا شہید کے مزار پر جاکر ختم ہوتے تھے۔اُن دنوں وہاں شیعہ اور سنیوں میں محبت اور بھائی چارہ تھا ۔ میں نے وہاں کبھی کسی سنی کو شیعوں کے خلاف کچھ کہتے سنا اور نہ ہی وہاں اُس وقت تک کوئی شیعہ سنی فساد یا جھگڑا ہوا تھا۔ اکثرسنی عورتیں بھی سیاہ لباس پہن کر مجلس میں جاتی تھیں اور اُن میں سے بعض ماتم بھی کرتی تھیں۔
1974 میں ہمارے ملتان آنے کے بعد جب پہلا محرم آیا تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کیوں کہ یہاں سنیوں کا کوئی امام باڑہ نہیں تھا اور نہ یہاں گتکہ کھیلنے اور ڈنکا اور تاشوں کے ساتھ تعزیہ کا جلوس نکالنے کا رواج تھا۔ اُن دنوں بھی یہاں اُستاد شاگرد کے علاوہ کئی تعزیے نکلتے تھے، ان میں ایک تعزیہ ملتان کینٹ سے نکلتا تھا ، جو شائد اب بھی نکلتا ہے۔ اُن دنوں محرم میں دہشت گردی کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا ، اس لئے بڑی تعداد میں بچے، بوڑھے ،جوان تعزیہ اور ماتمی جلوس دیکھنے حرم گیٹ اور کینٹ جاتے تھے۔ایک مرتبہ میں بھی دوستوں کے ساتھ ماتم دیکھنے گیا، لیکن میرے دوستوں نے مجھے ماتم نہیں دیکھنے دیا اور دور کھڑا کر دیا کہ کہیں میں زنجیر زنی کا منظر دیکھ کر بے ہوش نہ ہو جاؤں۔ اب تو 9 اور دس محرم کو گھر سے نکلنے کا حوصلہ نہیں ہوتا، بس گھر میں بیٹھے یہ دعا مانگتے رہتے ہیں کہ یا اللہ یہ محرم خیریت سے گزر جائے۔ اُن دنوں ماتمی جلوس کے راستوں پر پانی اور شربت کی سبیلیں لگائی جاتی تھیں جہاں سے شیعہ اور سنی دونوں ہی پانی اور شربت پیتے تھے۔ 1980میں یا اس کے بعد ضیا دور میںپہلی مرتبہ ہم نے سپاہ صحابہ کا نام سنا اور خطیب جمعہ کے خطبوں میں کفر کے فتوے لگانے لگے اور بعض مسجدوں میں کافر کے نعرے لگنے لگے، صرف یہی نہیں بلکہ ٹرین کی بوگیوں، بسوں اور دیواروں پر بھی یہ نعرہ دکھائی دینے لگا۔