آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا ہے کہ تیس گھنٹے کی مسلسل جد و جہد کے بعد جعفر ایکسپریس پر حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا ہے اور بیشتر مسافروں کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک ٹرین پر سوار 440 مسافر اپنے گھروں میں نہیں پہنچے ہیں۔ جنرل احمد شریف کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ آپریشن کے دوران کے دوران موقع ملنے پر ادھر ادھر بھاگ گئے تھے۔ اب انہیں تلاش کیاجارہا ہے۔
گزشتہ روز جعفر ایکسپریس ٹرین پر بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشت گردوں کا حملہ ایک سنگین واقعہ تھا لیکن اس بارے میں پاک فوج کے ترجمان نے بھی معلومات فراہم کرنے کے لیے پریس کانفرنس منعقد کرنے یا پریس ریلیز میں تفصیلات بتانے کی بجائے ایک ٹی ٹاک شو میں تفصیلات فراہم کی ہیں۔ ریاست کی طرف سے ایک اہم دہشت گرد حملہ اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی کارروائی کے بارے میں معلومات کی ترسیل کا یہ طریقہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس سانحہ کے بارے میں ملک بھر کے میڈیا کو مدعو کرکے تفصیلات فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔ کوئی ایک ٹاک شو ایسے سنگین معاملہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا مناسب پلیٹ فارم نہیں تھا۔
اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس پورے ایکشن میں سول اتھارٹیز کاکوئی نمائیندہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ صدر مملکت و وزیر اعظم سے لے کر وزیروں اور صوبائی حکام نے اس دوران متعدد بیانات یا میڈیا سے بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف زمین آسمان ایک کردینے کے متعدد دعوے ضرور کیے لیکن اس آپریشن کی تفصیلات بہر حال پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں۔ وزارت داخلہ، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ یا سول انتظامیہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔ البتہ وزیر مملکت برائے داخلہ نے طلال چوہدری نے گزشتہ روز ایک ٹاک شو میں ہی یہ دعویٰ ضرور کیا تھا کہ دہشت گرد متعدد یرغمالی مسافروں کو پہاڑوں کی طرف لے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے ایسے یرغمالیوں کی تعداد بتانے سے گریز کیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ آج جب آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل نے فوجی کارروائی کی تفصیل فراہم کیں اوربتایا کہ کیسے فوجی یونٹوں، ایلیٹ فورس اور فضائیہ نے ایک پیچیدہ اور دشوار گزار علاقے میں آپریشن کرکے دہشت گردوں کو ہلاک اور بیشتر مسافروں کو رہا کرا لیا ہے، تو انہوں نے ایسے یرغمالیوں کے بارے میں معلومات نہیں دیں جنہیں طلال چوہدری کے بقول دہشت گرد پہاڑوں کی طرف لے گئے تھے۔ غیر ملکی میڈیا میں یہ خبر بھی آتی رہی تھی کی جعفر ایکسپریس پر سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی سفر کرہے تھے۔ قیاس کیا جارہا تھا کہ دہشت گردوں کا اصل ٹارگٹ یہی اہلکار تھے۔ طلال چوہدری نے یہ کہتے ہوئے ان خبروں کی تصدیق کی تھی کہ ٹرین پر کچھ سرکاری ملازمین بھی سوار تھے۔ تاہم لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اس بارے میں کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی متعلقہ اینکر نے ان سے اس بارے میں استفسار کیا۔
اس معاملہ کا یہ ایک اہم اور تشویشناک پہلو ہے کہ کیا واقعی دہشت گردوں کا ایک گروہ کچھ مسافروں کو اغوا کرکے پہاڑوں میں اپنے خفیہ ٹھکانوں کی طرف لے گیا ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس بارے میں خاموشی اختیار کرکے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوگا اور ان لوگوں کے عزیزوں کے لیے بھی یہ صورت حال مشکل ہوگی جن کے پیارے اب دہشت گردوں کی قید میں ہیں۔ اگر طلال چوہدری کی اطلاعات غلط تھیں تو انہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگنی چاہئے، وزیر اعظم کو یقینی بنانا چاہئے کہ آئیندہ کوئی وزیر یا سیاسی نمائیندہ باقاعدہ اتھارٹی کے بغیر کسی ایسے معاملہ پر بیان بازی سے گریز کرے جس کی تفصیلات خود اس کے علم میں بھی نہیں ہوتیں۔ اگر یہ معلومات درست تھیں تو آئی ایس پی آر یا کسی دوسری مجاز اتھارٹی کو اس بارے میں تفصیلات بتانی چاہئیں۔ یہ معلومات عام کی جائیں کہ کتنے لوگوں کو دہشت گرد اغوا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے بدلے میں ریاست سے کیا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے میں عوام کو اعتماد میں لینے اور حکومت و فوج پر لوگوں کا بھروسہ بحال کرنے کے لیے درست معلومات کی ترسیل بے حد اہم ہے۔ اگر ریاست و حکومت ایسے خوفناک واقعہ کے بعد بھی کچھ معلومات کسی خاص مقصد سے خفیہ رکھنا ضروری سمجھے گی تو عوام اور فورسز کے درمیان اعتماد بھی متاثر ہوگا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا ہے کہ وہاں پر موجود تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے ۔ ان کی کل تعداد 33 تھی۔ کلیئرنس آپریشن کے دوران کسی بھی معصوم مسافر کو نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن کلیئرنس آپریشن سے پہلے دہشتگردوں کی بربریت کا شکار ہوکر 21 مسافر شہید ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس وقوعہ میں ریلوے پکٹ پر تعینات 3 ایف سی جوان شہید ہوئے جبکہ آپریشن کے دوران ایف سی کا ایک جوان شہید ہوا۔ یہ معلومات بھی نامکمل اور ناقص ہیں۔ 33 دہشت گردوں کو مارنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوسکتا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے کل دہشت گرد 33 ہی تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپریشن کے دوران جب مسافر مسلسل فائرنگ سے بچ کر پہاڑوں میں روپوش ہورہے تھے تو متعدد حملہ آور بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر غائب ہوگئے ہوں۔ اس کے علاوہ یہ دعویٰ بھی پوری طرح قابل یقین نہیں ہے کہ ٹرین پر سوار جو 21 مسافر شہید ہوئے، وہ فوج کی کارروائی سے پہلے ہی ہلاک کیے جاچکے تھے۔ جنرل احمد شریف کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی بربریت کا سامنا کرتے ہوئے جاں بحق ہوئےتاہم عوام کی تشفی کے لیے اس ’بربریت‘ کی تفصیلات سامنے آنی چاہئیں۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جب سکیورٹی فورسز ایک ایک بوگی میں جاکر دہشت گردوں کو ہلاک اور مسافروں کو رہا کرا رہی تھیں تو یہ کیسے ممکن ہؤا کہ کوئی مسافر کسی طرف سے ہونے والی فائرنگ کا نشانہ نہیں بنا۔ اگر حملہ آور واقعی شہریوں کو ہلاک نہیں کرنا چاہتے تھے تو اس دعوے کی کیا حقیقت ہے کہ دہشت گرد عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر خود اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ بدقسمتی آئی ایس پی آر کے سربراہ کے وضاحتی انٹریو سے سوالوں کا جواب ملنے کی بجائے متعدد نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے جواب سامنے آنے چاہئیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ’ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ پاکستان کے معصوم شہریوں کو سڑکوں پر، ٹرینوں ، بسوں یا بازاروں میں اپنے گمراہ کن نظریات اور اپنے بیرونی آقاؤں کی ایما اور ان کی سہولت کاری پر نشانہ بنائیں۔بالکل واضح کردوں کہ ان کو مارا جائے گا اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جعفر ایکسپریس کے واقعے نے گیم کے رولز تبدیل کر دیے ہیں۔ کیونکہ ان دہشتگردوں کا دین اسلام، پاکستان اور بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں‘۔ اس عزم پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کے باوجود یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس وقوعہ سے کون سے رولز میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ کیا اس سے پہلے سکیورٹی فورسز کو بعض شدت پسندوں کے ساتھ ’رعایت‘ کرنے کی ہدایت دی گئی تھیں یا یہ امید کی جارہی تھی کہ قوم پرست عناصر جو علیحدگی کی جد و جہد میں ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، کسی مرحلے پر سیاسی عمل کا حصہ بن کر خوں ریزی سے باز آجائیں گے ۔ اس لیے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جاتا تھا۔ لیکن جعفر ایکسپریس پر حملہ جیسے سنگین واقعہ کے بعد سیاسی مکالمہ کا دروازہ بند کیا جارہا ہے۔ جنرل احمد شریف نے تو ایک فقرے میں بات مکمل کردی ہے لیکن یہ ایک جملہ پاکستانی سیاست میں اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی پالیسی شفٹ کا اعلان فوج کے ترجمان کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کرنے کی بجائے سول حکومت کے مجاز وزیروں کو پارلیمنٹ میں کرنا چاہئے تھا یا کسی دوسرے مناسب طریقے سے پوری تفصیل سے عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ ملک میں ایک منتخب حکومت کام کررہی ہے لیکن اگر مسلح آپریشنز کے علاوہ ملک میں تخریب کار عناصر کے بارے میں پالیسی کا اعلان بھی فوج ہی کی طرف سے سامنے آئے گا تو ایسے انتخاب اور منتخب حکومت کی رہی سہی عزت و توقیر بھی خاک میں مل جائے گی۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اس انٹرویو میں دہشت گردی کے اس واقعہ اور اس کے خلاف فوجی آپریشن پر ہونے والے مباحث پر بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ ’ ایسے موقع پر پاکستان میں کچھ مخصوص سیاسی عناصر بھی بڑھ چڑھ کر اپنے سوشل میڈیا کو فعال کر لیتے ہیں۔ اور بجائے اس کے وہ ریاست پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، وہ دہشت گردی کے اس بھیانک عمل کے لیے بے بنیاد جواز پیدا کرتے ہیں۔بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ذاتی اقتدار کی ہوس میں کچھ عناصر قومی مفاد کو بھی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے باشعور عوام ان تمام چیزوں کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ انہیں انتشاری سیاست کے پیچھے ہاتھ بھی دکھائی دے رہے ہیں‘۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا یہ اشارہ اپوزیشن کے بعض سیاسی عناصر کی طرف ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں ہر شخص کو کسی وقوعہ کے بارے میں اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں بھی اگر اس حملے کے خلاف آپریشن کے بارے میں کچھ اختلافی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو اس کا جواب سیاسی طور سے دینا مناسب ہوگا۔ پاک فوج کے ترجمان کو اس معاملہ میں ملوث ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے تفصیل سے دہشت گردی کے اس واقعہ میں ملوث عناصر کی ہمسایہ ملک سے روابط اور کارروائی کے دوران سیٹیلائٹ فون پر ہدایات لینے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا پر ایسے واقعے کی گمراہ کن رپورٹنگ شروع ہو جاتی ہے۔ پرانی تصاویر، پرانی فوٹیجز کے علاوہ مصنوعی ذہانت سے بنی ہوئی ویڈیوز اور تصاویر بھی نشر کرنا شروع کر دی جاتی ہیں۔ جنرل احمد شریف نے کہا کہ افغانستان سے روابط اور بھارتی میڈیا کی مستعدی سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردوں کو متحرک کرنے میں کون سے عناصر ملوث ہیں۔ پاک فوج کا یہ اندازہ درست ہونے کے باوجود اس جائزے میں ان عوامل کا احاطہ کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جو بلوچستان میں کئی دہائیوں سے بے چینی اور انتشار کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کو ضرور بیرون ملک سے امداد ملتی ہوگی لیکن اگر صوبے کے عوام سیاسی طور سے پریشان حال نہ ہوں تو دہشت گردوں کو ایسے منظم حملے کرنے کا نیٹ ورک تیار کرنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ بیرونی عناصر کی مداخلت کے ساتھ زمینی حالات کا جائزہ لے کربہتری کے لیے کام کا آغاز ایک مناسب طریقہ ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ