حادثے پہ حادثہ، سانحے پہ سانحہ، یہی ہماری روز مرہ زندگی ہے۔ شائد ہی کوئی دن خیریت سے گزرتا ہو آفاتِ سماوی و ارضی پر تو ہمارا اختیار نہیں کہ سیلاب، آندھیاں، طوفان اور زلزلے کسی سے پوچھ کر نہیں آتے۔ مگر ریل کی پٹر ی کو درست حالت میں رکھ کر ریل گاڑیوں کے حادثات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور دنیا نے یہ کر کے دکھا بھی دیا ہے۔ اسی طرح سڑکوں، پلوں کی دیکھ بھال سے ٹریفک کے حادثات میں ہونے والے جانی نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے اور دنیا نے یہ بھی کر دکھایا ہے۔ چلیں ان کو بھی چھوڑ دیں کہ ان پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے مگر جن حادثات سے بچنے کے لئے مالی وسائل کی کوئی ضرورت نہیں صرف اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ اخلاقی اور سیاسی سانحات ہیں۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔
ہمارے ہاں ان سب کی بھرمار ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ہم اجتماعی خودکشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ نہ صرف بڑھ رہے ہیں بلکہ اس کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔ جرائم ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر ان پر قابو پانے کے لئے ہمہ جہت کوششیں اور کاوشیں کی جاتی ہیں۔ گاہے محبت سے تبلیغ سے ترغیب سے کام لیا جاتا ہے گاہے سختی بلکہ گرختگی سے اصلاح کا راستہ نکالنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اصولی طور پر یہی طریقے اپنانے کا انتظام و انصرام کیا گیا ہے۔ مگر کتابوں میں، خطابوں، تحریروں میں تقریروں میں، عمل کے میدان میں ہم ڈھیلے ہیں اور مزید ڈھیلے پڑتے جا رہے ہیں۔ انجام صاف ظاہر ہے۔ سنا کرتے تھے کہ ”قدر گھٹا دیتا ہے روز کا آنا جانا“ پھر یہ بات آشکار ہوئی کہ جو کوئی کسی جگہ پر قیام کرتا ہے۔ رہائش رکھتا ہے معمولاتِ زندگی انجام دیتا ہے۔ آئے روز آتا جاتا ہے تو اس کے دل سے اس جگہ کا خوف یا احترام زائل ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورکن کے دل سے قبر کا خوف جاتا رہتا ہے اور مدرس کے دل سے مدرسہ کا احترام ختم ہوتا جاتا ہے پارلیمنٹرین کے دل سے پارلیمان کا اور مجاور کے دل سے مزار کا تقدس رخصت ہونے لگتا ہے (الا ماشاء اللہ) ہمارا آج کا قومی منظر نامہ انہی افسوسناک حقائق سے آراستہ ہے قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا وہ کیا کم تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں اودھم مچا دیا گیا۔ کیا جمہوری اور سیاسی لوگ ایسے ہوتے ہیں؟ یا کیا انہیں ایسا ہونا چاہئے سیاسی و جمہوری میدان میں اجتماعی خودکشی کا یہی اصلی تے صحیح طریقہ ہے۔ کر لیجئے۔ بعد میں بیٹھے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہئے گا کہ ”پہلے گالی اس نے دی۔ پہلے تھپڑ اس نے مارا“
اول تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا طریقہ پہلے اجلاس میں غلط تھا کہ وزیر اعظم کو خطاب نہیں کرنے دیا گیا۔ شور مچا مچا کر ایوان سر پر ہی نہیں اٹھایا۔ وزیر اعظم کا گھیراؤ کر لیا۔ مؤقف یہ تھا کہ یہ وزیر اعظم منتخب نہیں چنتخب ہے الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہے اس کو ایوان میں بولنے نہیں دیں گے چنانچہ ڈھائی تین سال تک قائد ایوان ہی ایوان سے خطاب نہ کر سکا۔ پھر دوسری طرف والے بھی بپھرنے لگے۔ اپوزیشن والوں کی تقاریر میں شور مچا کر بدلہ لینے لگے۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ سرکاری ارکان قومی اسمبلی اپنی جیبوں میں سیٹیاں ڈال کر لے آئے۔
اپوزیشن لیڈر خطاب کرنے لگے تو شور ہی نہیں مچایا ہنگامہ کھڑا کر دیا دو دن تک اپوزیشن لیڈر خطاب نہ کر سکے۔ کورم کی نشاندہی ان کی طرف سے کی گئی جن کی ذمہ داری ایوان چلانا ہوتی ہے ایوان بھگانا نہیں۔ مخالف کے نہلے پر اپنا دہلا پھینکنے کی پالیسی کامیاب رہی۔ اب اپوزیشن مان گئی ہے۔ معاہدہ کر لیا کہ اپوزیشن لیڈر کو تقریر کرنے دیں ہم بھی قائد ایوان کو وزیر اعظم کا خطاب سکون سے سنیں گے۔ چنانچہ اپوزیشن لیڈر تیسرے دن تقریر کرنے میں کامیاب رہے۔ اب دیکھیں عدم برداشت کا رویہ ترک ہوتا ہے یا اجتماعی خودکشی کا راستہ ہی اپنایا جاتا رہے گا؟ بلوچستان اسمبلی کی، ارکان اسمبلی کی جانب سے تالا بندی اور پھر ٹینک کی چھوٹی بہن بکتر بند گاڑی کی ٹکر سے دروازہ توڑ کر وزیر اعلیٰ/ قائد ایوان کو اندر پہنچانے کے عمل نے بھی سیاسی خودکشی کا چلن بھی نمایاں کیا۔ ایوان کا احترام اہلِ ایوان کے دل سے نکلا جاتا ہے تو ”دیگر قوتوں“ کو لحاظ کرنے کی کیا پڑی ہے جناب؟ سندھ اور وفاق کے معاملات المناک منزل کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
باہمی برداشت کے جذبے سے تو جمہوریت کی گاڑی کی پٹڑی پر رکا جا سکتا ہے ”گھسن مکی“ ہو کر نہیں اگر تو فواد چودھری مشن محض انتخابی کامیابی کے لئے لڑائی کا داؤ پیج ہے تو بھی انداز بھونڈا ہے۔ قومی یکجہتی کو تہہ و بالا کر کے انتخابی ماحول کو اپنے حق میں کر بھی لیا جائے تو یہ کوئی منافع کا سودا نہیں۔ وزیر اطلاعات کو ملک کے ہر حصے کا وزیر اطلاعات ہونا چاہئے کسی صوبے یا علاقے کا مخالف ہونے کا تاثر بھی اجتماعی خودکشی کی جانب ہی ایک قدم ہے۔
لاہور کے ایک مدرسے میں استاد کی شاگرد سے بد اخلاقی کا واقعہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے جو کئی سال سے ہوتا رہا وہ بھی قابل مذمت اور قابل سزا ہے۔ اس سے یہ کہہ کر اگر پہلو تہی کی جائے کہ ”یہ تو معمول کا واقعہ ہے“ تو یہ اس سے بھی بڑا سانحہ ہوگا۔ المیہ ہوگا، یہاں تو ”عذر گناہ بدتر از گناہ“ والا معاملہ ہے۔ استاد اگر ویڈیو پیغام میں بودے دلائل اور جواز نہ دیتے اور سیدھے سیدھے خود کو قانون کے حوالے کر دیتے تو استادی کا کچھ نہ کچھ بھرم رہ جاتا وہ تو ملزم سے مفرور بھی ہوئے اور میانوالی سے دھر بھی لئے گئے۔ اس طرح انہوں نے خود پر ہی نہیں اپنے پیشے اپنے مکتب فکر اپنے ادارے پر بھی خودکش حملہ کر دیا ہے انا للہ و انا الیہ راجعون۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)
فیس بک کمینٹ