ایک بار پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو مٹھائیاں بانٹنے کی بہت جلدی ہوتی ہے اس طرح شاید وہ اپنے دل کو بہلانے اور مخالفوں کو پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں 1999ء کے پرویزی مارشل لاء پر پیپلزپارٹی نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور بعد میں انہیں اپنے سیاسی دشمن نوازشریف کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کر کے اسی ”نجات دہندہ“ کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی۔ مسلم لیگ (ن) نے 2016ء میں پانامہ کیس میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم آنے پر مٹھائیاں بانٹیں کہ ”مصیبت ٹل گئی“ مگر بعد میں اسی جے آئی ٹی کی تحقیقات نے (ن) لیگی قیادت کا بوریا بستر گول کر دیا۔ اب کے پھر ڈسکہ الیکشن کالعدم ہوئے اور دوبارہ پولنگ 18 مارچ کو کرانے کے فیصلے پر (ن) لیگ نے مٹھائیاں کھائیں اور دوسروں کو کھلائیں مگر اس کے مضمرات پر غور ہی نہیں کیا کہ ضمنی انتخابات میں ملتانی سائیں گیلانی کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔ اسلام آباد سے سینٹ کی اکلوتی جنرل نشست پر وہ حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کے مقابل ہیں یہ انتخاب قومی اسمبلی نے کرنا ہے جہاں اپوزیشن کی متحدہ قوت مل کر بھی حکومتی اتحاد سے 19 ووٹ پیچھے ہے۔ اگر اپوزیشن حکومت کے 10 ارکان توڑ کر اپنے ساتھ ملا لے تو اس کے پاس سادہ اکثریت آ سکتی ہے۔ لیکن کوئی سرکاری ایم این اے ٹوٹے کیوں؟ حکومت کے پاس تو دینے کے لئے کچھ ہوتا ہے اپوزیشن کسی ایم این اے کو کیا دے سکتی ہے۔ نہ وزارت، نہ مشاورت، نہ ترقیاتی فنڈ نہ ملازمتیں، ایک ہی بات کہی جا رہی ہے حفیظ شیخ چونکہ پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں اور باہر سے درآمد شدہ اور ان کو ٹکٹ دینے کے لئے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اس لئے متعدد ایم این اے ان کے خلاف ووٹ دیں گے۔ چنانچہ سید یوسف رضا گیلانی جیت جائیں گے۔ اپوزیشن کے دلِ خوش فہم کو یہ دلیل بھاتی ہو تو ہو مگر عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے پھر پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار کے طور پر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے میدان میں اترنے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی صفیں درست کرنے کا کام کافی حد تک کر لیا ہے۔ حالیہ ضمنی الیکشن نے اپوزیشن کا کام اور مشکل کر دیا ہے۔ خالی ہونے والی دونوں قومی نشستیں اپوزیشن کی تھیں۔ کرم ضلع کی نشست جمیعت علمائے اسلام (ف) اور ڈسکہ کی قومی نشست مسلم لیگ (ن) کی تھی۔ کرم ضلع کی نشست تو سیدھی سیدھی تحریک انصاف نے جیت لی۔ ڈسکہ کی نشست پر افراتفری پھیلا کر اس کی پولنگ مؤخر کرالی۔ اب پولنگ برائے سینٹ الیکشن (3 مارچ)کو ہوگی اپوزیشن اپنے پکے دو ووٹوں سے محروم ہو گئی اس طرح اس کے امیدوار کی کامیابی اور مشکل ہو گئی۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی 20 ماہ بعد ضمانت پر رہائی ان کے خاندان، اپوزیشن اور کارکنوں کے لئے باعث خوشی یقیناً ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ سینٹ کے الیکشن میں نہیں ہوگا۔ پنجاب کی تمام گیارہ نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں اب سینٹ الیکشن میں پنجاب اسمبلی کا بھی کوئی کردار نہیں رہا تو اپوزیشن لیڈر کا کیا کردار رہ گیا؟
سینٹ الیکشن کے حوالے سے تواتر کے ساتھ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اس میں حکومتی پارٹی تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اور حکومتی اتحاد کو واضح اکثریت حاصل ہو جائے گی اور اپنی مرضی کی قانون سازی کر سکے گی۔ اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف کی 14 نشستیں تھیں جن میں سے 7 سینٹر ریٹائر ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے مطابق ان کے 21 نئے سینٹر منتخب ہوں گے اور یوں ان کے 28 سینٹر ہو جائیں گے جو کسی ا ور جماعت کے پاس نہیں ہوں گے۔ پنجاب سے ان کو چھ سات نشستیں ملنے کی امید تھی مگر انہیں قاف لیگ کو ایڈجسٹ کرنا پڑا۔ انہیں 5 نشستیں ملیں (ن) لیگ بھی 5 لے گئی۔ اسی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کے 43 ارکان ہیں وہ اپنا حصہ لیں گے۔ تحریک انصاف یہاں سے بھی چھ سات لے سکے گی۔ بلوچستان میں بی اے پی (باپ) کے مطالبات ایسے ہیں کہ تحریک انصاف کو متوقع حصہ شاید نہ مل سکے۔ اسی طرح سندھ میں ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی نے دو سینٹرز کا دانہ ڈالا ہے اس سے خوفزدہ ہو کر شاید تحریک انصاف کچھ زیادہ دینے پر رضا مند ہو جائے تو تحریک انصاف کے کل سولہ سترہ سینٹر ہی منتخب ہو سکیں گے۔ ان کی کل تعداد بائیس تئیس ہو جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے متوقع سینٹرز 19، مسلم لیگ (ن) کے 18، جے یو آئی کے 5 جماعت اسلامی کا ایک، پی این پی مینگل کے 2 باپ کے 13 یا 14، ایم کیو ایم کے تین، اے این پی کے دو، جی ڈی اے کے دو نیشنل پارٹی کے دو، ملی عوامی پارٹی کے دو جبکہ 4 آزاد ارکان سینٹ متوقع ہیں۔ اس طرح حکومتی اتحاد کے پاس کم و بیش نصف ارکان سینٹ ہی ہوں گے۔ دو تین ووٹوں کا فرق رہنے کا اندازہ ہے۔ سینٹ ارکان کی اس وقت تعداد 104 ہے۔ قبائلی علاقے کے 8 سینٹر ہوتے تھے۔ چار ریٹائر ہو گئے۔ علاقہ کے پی کے میں ضم ہو گیا۔ اب نیا ایوان ایک سو ارکان پر مشتمل ہوگا۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ حکومتی اتحاد کو معمولی اکثریت ہو گی تاہم ماضی کے تجربات کہتے ہیں کہ سینٹ انتخابات کے حوالے سے کوئی بات حتمی نہ سمجھی جائے۔ سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکان کی تعداد سب کو معلوم ہے لیکن پیسہ، دباؤ اور خلائی مخلوق سمیت بہت کچھ ہے جو نتائج کو متاثر کر سکتا ہے۔ لیکن کیا سینٹ میں سادہ اکثریت حاصل کر لینے سے اقتدار مکمل ہو جاتا ہے؟ اور کیا اکثریتی پارٹی من مانی کر سکتی ہے اور کیا قانون سازی ہمارے ارکان پارلیمینٹ کی ترجیحات میں شامل ہے؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ فاضل ارکان پارلیمینٹ قانون سازی کو کبھی ترجیح اول نہیں سمجھتے بہت سے تو تعلیم کی کمی کی وجہ سے دور دور رہتے ہیں اور واضح اکثریت کا مطمح نظر ترقیاتی کام، ترقیاتی فنڈز، ذاتی مفادات کا حصول ہی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے بلدیاتی اداروں کا کام ارکان پارلیمینٹ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے اگر ایک ہی پارٹی کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں اکثریت حاصل ہو تو قانون بنانے میں کسی حد تک وقت کی بچت ہوتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کل کے انتخابات کو سیاسی بیرو میٹر یا جماعتوں کا پیمانہ مقبولیت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے نتائج سے اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو نفسیاتی فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ سیاسی کارکنوں کے لئے مٹھائیاں کھانے اور کھلانے کا ایک موقع ضرور نکل آئے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)
فیس بک کمینٹ