11 مارچ 2025 ۔۔صوبہ بلوچستان کے شہرکوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین جعفر ایکسپریس ، جس میں عورتوں، مردوں اور بچوں سمیت چارسو پچاس مسافرسوار تھے۔وہ اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لئے بیتاب منزل کی طرف رواں دواں اس بات سے بے خبرتھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ان کی ٹرین پہاڑوں اور سرنگوں سے گزرتی ہوئی خوبصورت مناظر پیش کرتی چھکا چھک جارہی تھی کہ اچانک ٹرین پر اندھا دھند فائرنگ ہونے لگی ۔سامنے دہشت گردو ں نے بم کے دھماکے سے ٹرین کی پٹڑی اڑا دی ۔ ٹرین کے ڈرائیور نے جھٹکے سے ٹرین ریورس کی اور پیچھے سرنگ میں روک دی ۔دیکھتے ہی دیکھتے اسلحہ سے لیس کالی پگڑیوں اور لمبی لمبی شلوارقمیض میں ملبوس دہشت گرد ٹرین میں گھس آئے ۔ان دہشتگردوں کا تعلق علیحدگی پسندجماعت بلوچ لبریشن آرمی( بی ایل اے) سے تھا۔انہوں نے ٹرین کو یرغمال بنا لیا ۔تمام مسافروں پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ۔خبر نہ ہوئی کہ کس نے ایف سی سپیشل فورس کو آگاہ کیا اورپھر ایسا ہی لگا جیسے فلم مشن امپاسیبل کی شوٹنگ کی شروع ہو گئی ہو۔
مسلسل دو دن کے مشکل ترین آپریشن کے بعد آرمی اور سپیشل فورس نے مسافروں کو باز یاب کروا لیا۔ 33دہشتگرد ہلاک ہوئے اور21 شہری اور ایف سی کے 4 جوان شہید ہوئے.
بلوچستان میں اپنی نویت کا یہ پہلا دہشت گردی کا واقعہ ہے جس نے تمام پاکستانیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔یہ واقعہ نہ صرف وفاقی و صوبائی برسراقتدار حکومت ،سیاست دانوں ، محب وطن پاکستانی عوام خصوصاً انسانی حقوق کے علمبردار تنظیموں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ دہشت گردی کا انتہائی قدم اٹھانے کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔ایسے حالات کا ذمہ دار کون ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی نے دہشت گردی کا یہ ایک انتہائی قدم اٹھایا ۔یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعہ کے دوران دہشت گردوں کو افغانستان میں موجود ماسٹر مائنڈ سے مسلسل ہدایات ملتی رہیں جبکہ پاکستان دشمن بھارتی میڈیا فوری طور پر متحرک ہوگیا اور اپنے مذموم مقاصدکے پراپیگنڈے کی خاطر جھوٹی خبریں دینے کے ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔
سیکورٹی فورسز نے فوری کارروائی شروع کردی ۔آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹر اور ڈرونز کا استعمال بھی کیا گیا ۔تین دن کے جاری آپریشن میں بہت لوگوں کو باز یاب کروا لیا گیا۔ آخر دہشت گردوں کی ہلاکت اور بے گناہ شہریوں کی شہادت اور ایف سی کے جوانوں کی شہادت کے بعد اس خطرناک آپریشن کا اختتام ہوا ۔
صدر مملکت ،وزیراعظم،وزیرداخلہ، چیف آف آرمی اور دوسرے اکابرین نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور دہشت گردوں کی مکمل سرکوبی کے عزم کا اظہار کیا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی انسانی جانوں کو ڈھال بنانے کی اس مذموم کوشش کو ناقابل قبول قرار دیاہے۔ بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلیٰ اختر مینگل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’بلوچستان کا کوئی ایسا علاقہ باقی نہیں جہاں حکومت یہ دعویٰ کر سکے کہ اس کا کنٹرول ہے۔’ہم نے خبردار کیا تھا، ہم سے پہلے والوں نے بھی خبردار کیا تھا مگر ان باتوں کو سنجیدہ لینے کی بجائے لوگوں کا نہ صرف مذاق اڑایا گیا بلکہ لوٹ مار اور قتل عام کا بازار گرم کیا گیا۔اختر مینگل کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے اور بلوچستان کے تمام سرداروں بشمول سردار اختر مینگل کو اعتماد میں لے کر مثبت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ۔انہیں وفاق کی زنجیر میں پرونے کی کوششیں تیز کرنی چاہئیں ۔
سیکورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود ایک بڑی ٹرین پر حملے کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے مزید موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔حکومت اور سیکورٹی اداروں کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرناپڑے گی ۔صوبے میں بڑھتی ہوئی شورش کو طاقت سے دبانے کی بجائے اس کا ٹھوس حل نکالنا ہوگا۔ تاکہ ملک دشمن قوتوں کے عزائم کو خاک میں ملا یاجاسکے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوامیں امن وامان یقینی بنانے کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل بیٹھ کر ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی ۔جس سے ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔اورماضی میں ہونے والی ناانصافیاں اور غلطیوں کو سدھایا جا سکے تاکہ لوگ امن کی فضا میں سانس لیں۔ پہلے ہی ہوشربا ءمہنگائی اور دہشت گردی کے واقعات سے عوام تنگ آ چکے ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ ملک دشمن عناصردونوں صوبوں کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازشوں میں کہیں کامیاب نہ ہو جائیں ۔
فیس بک کمینٹ