جماعت اسلامی ہر انتخاب سے پہلے کچھ نعرے، کچھ بدکلامی اور کچھ بے بنیاد دعوے کرنا اپنا ’دینی فریضہ‘ سمجھنے لگی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب جماعت میں کسی ذی فہم کے لیے قیادت حاصل کرنے کا امکان بھی نہیں ہے بشرطیکہ عقل و شعور رکھنے والا کوئی شخص ایسی انتہاپسند جماعت میں شامل ہونے کا حوصلہ کر لے۔ سراج الحق اس وقت اس منصب جلیلہ پر فائز ہیں اور یوں لگتا ہے کہ انتخابات سے پہلے وہ عقل و خرد کی ہر حد پھلانگ کر جنون کی وادیوں میں جلوہ افروز ہونا چاہتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت تعلیم سے نابلد ہے اور ملک میں مذہبی نعروں اور لایعنی تفہیم سے ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ بہت سے لوگ جواز، دلیل اور حجت کو فضول اور بے مقصد سمجھنے لگے ہیں۔ سراج الحق جیسے لوگوں نے انہیں باور کروا یا ہے کہ جذبہ ایمانی ہو تو کوئی بھی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عقل سے عاری اسی مزاج کی وجہ سے تحریک لبیک پاکستان کے مرحوم بانی لیڈر خادم حسین رضوی نعرہ تکبیر لگا کر واہگہ بارڈر عبور کرنے کا قصد کرتے رہے تھے اور ان کی اس تعلی پر نعرے لگانے والے کبھی یہ باور نہیں کرسکے کہ خادم رضوی اور ان کے ہمنوا خواہ وہ کسی بھی مذہبی فرقے یا پلیٹ فارم سے جد و جہد کر رہے ہوں، ان کا ’جہاد فی سبیل للہ‘ صرف کسی جلسے کے اسٹیج یا مسجد کے منبر تک محدود ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کی دو نسلوں کو مذہبی فریضہ کے نام پر دہشت گردی میں جھونک دینے والے ان ملاؤں نے اپنے بچوں کو کبھی اس ’جہاد‘ میں شامل ہونے کے لیے نہیں بھیجا جس میں وہ دوسروں کے بچوں کو جھونکتے رہے تھے۔
سراج الحق نے آج لاہور میں ’یوم یکجہتی کشمیر ریلی‘ سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسی لایعنی لیکن اشتعال انگیز باتیں کی ہیں جو کسی سیاسی لیڈر کے منہ سے زیب نہیں دیتیں۔ جماعت اسلامی البتہ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے ایسی سب باتوں کو اسلامی فرض کا نام دے کر عوام کو فریب دینے کی اپنی سی کوشش ضرور کرتی ہے۔ ابھی تک اتنی تو خیر رہی ہے کہ تمام مجبوریوں، گمراہی اور مذہبی وفور کے باوجود عوام نے کبھی مذہبی سیاسی جماعتوں کو اعتماد کے قابل نہیں سمجھا۔ انہوں نے مذہبی جنونیوں کی صدا پر نعرے تو لگائے ہیں لیکن انہیں ووٹ دے کر کبھی اس پوزیشن میں نہیں لائے کہ وہ حکومت قائم کرنے یا حکومتی امور پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوتے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں 70 برس کے دوران میں جمہوری نظام پنپ نہیں سکا۔ تین دہائی سے زیادہ مدت تک فوج نے براہ راست حکومت کی ہے اور باقی وقت میں عسکری قیادت ہی کی منصوبہ بندی سے جمہوری تماشا منعقد ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے جب ملک کے سیاسی لیڈروں کو مطعون کر کے ملکی بربادی کا سارا بوجھ ان کے پلڑے میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے اتفاق ممکن نہیں ہوتا۔ سیاست دان اس حد تک تو ضرور قصور وار ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوام کے ووٹوں کی بجائے، اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی و خوشنودی کو ضروری سمجھا۔ اس طرح انہیں اقتدار تو مل گیا مگر اختیار نہیں مل سکا۔ اسی اختیار کی تگ و دو میں ہر وزیر اعظم (جن میں تین بار ملکی حکومت کی سربراہی کرنے والے نواز شریف بھی شامل ہیں ) کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور حکومت ختم ہونے کے بعد قید و بند کی صعوبت کے علاوہ ذاتی کردار کشی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مشکل اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کو درپیش ہے۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان سمیت کوئی بھی لیڈر پرانی روش تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
نہ وہ آپس میں مل کر کسی جمہوری منصوبہ پر کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی فوج سے براہ راست تعلق استوار کرنے کی خواہش سے دست بردار ہوتے ہیں۔ حتی کہ عمران خان جنہیں مختلف مقدمات میں پے در پے سزائیں سنائی گئی ہیں، اب بھی یہ خواہش پال رہے ہیں کہ کسی طرح فوج کے ساتھ کوئی ’ڈیل‘ ہو جائے تو وہ حکومت میں آ کر مخالفین کو مزا چکھا دیں۔ اسی لیے کبھی وہ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے تو تحریک انصاف پر سرخ لکیر کھینچ دی ہے۔ وہ تو ان سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی‘ اور کبھی یہ پھلجھڑی چھوڑتے ہیں کہ انہیں تین سال خاموشی سے بنی گالہ میں وقت گزارنے کی پیش کش کی گئی تھی لیکن انہوں نے ’حقیقی آزادی‘ کے لیے جیل میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ یہی حال نواز شریف یا پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کاہے۔ نواز شریف 2018 میں انتخابات سے پہلے اور بعد میں ویسے ہی ’آپریشن کلین اپ‘ کے ذریعے اقتدار سے باہر رکھے گئے تھے جیسا کہ اب تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ شہر شہر جاکر بتا رہے ہیں کہ ’دیکھو جنہوں نے مجھے آپ سے دور کیا تھا، اب میں انہی کے کاندھوں پر سوار ہو کر آپ تک پہنچ رہا ہوں‘ ۔
اس ماحول میں جمہوریت مسلسل ایک خواب بنا ہوا ہے اور اب لوگ اس بات پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں کہ اگر کسی لولی لنگڑی جمہوری حکومت کی صورت میں ان کے مسائل کا کوئی حل نکالا جا سکے تو شاید اسی میں سب کے لیے بہتری ہو۔ اسی ماحول میں سراج الحق جیسے انتہاپسند اس کوشش یا غلط فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ شاید عوام سیاست دانوں کی عاقبت نا اندیشی کے سبب جس شدید مایوسی کا شکار ہیں، اس میں انہیں اقتدار کی بندر بانٹ میں بہتر حصہ ملنے کا موقع مل جائے۔ اسی لیے وہ تمام سیاسی لیڈروں کو مطعون کر کے ’جہادی نعروں‘ کے ساتھ عوام کا ووٹ اینٹھنے کی مہم میں مصروف ہیں۔ اسی کا نمونہ جماعت اسلامی کے امیر نے لاہور میں پیش کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نشان شیر کا حوالہ دیتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ’قوم کو فیصلہ کرنا ہے شیر کی جگہ پنجرہ ہے یا کوئی اور جگہ ہے‘ ۔ یا یہ کہ ’8 فروری کو شیر یا تیر کو ووٹ دینا آئی ایم ایف اور کشمیر کے غداروں کو ووٹ دینے کے مترادف ہے‘ ۔
جمہوریت کے نام پر فسطائی ہتھکنڈوں کی بات کرنے والے سراج الحق کو یہ بنیادی شعور بھی میسر نہیں ہے کہ جمہوری عمل میں سیاسی مخالفین کی حکمت عملی پر تنقید کی جاتی ہے اور ان کی پالیسی کے نقائص بتا کر اپنے سیاسی پروگرام کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں مخالف سیاسی لیڈر کی جگہ جیل کو قرار دینے کا مقصد یہی ہے کہ ایسا گروہ اگر خدا نخواستہ کبھی اقتدار میں آ گیا تو وہ مخالفین کے ساتھ کس بے رحمی سے پیش آئے گا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو کشمیر کا غدار کہنا، سیاسی، معاشی، سفارتی اور علاقائی حقائق سے صریحاً نابلد ہونے کا ثبوت ہے۔ جیسے پاکستان کا کوئی لیڈر کشمیری عوام کے حقوق سے انکار نہیں کر سکتا بعینہ کوئی بھی سیاسی لیڈر کشمیر کو آزاد کروانے کا اعلان بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ یہ کام پاکستان کی صلاحیت و قدرت سے ماورا ہے۔ لیکن سراج الحق کا دعویٰ ہے کہ ’کشمیر کی آزادی میں بھارت نہیں بلکہ ہمارے بزدل حکمران رکاوٹ ہیں۔ ہم اللہ کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ خون کے آخری قطرے تک کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد کریں گے‘ ۔
حالانکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی موجودہ مشکلات اور سیاسی ناکامی کی بنیادی وجہ جماعت اسلامی اور ان جیسے دیگر انتہاپسند مذہبی گروہوں کی جہاد پالیسی ہی ہے، جس نے کشمیر کی وادی میں تشدد کو عام کیا اور جائز سیاسی جد و جہد کے تمام راستے مسدود کر دیے۔ کشمیر میں اسی مسلح دخل اندازی کی وجہ سے نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت کو کشمیریوں کے رہے سہے حقوق سلب کرنے اور اسے باقاعدہ ہندوستان کا حصہ بنانے کا اعلان کرنے کا حوصلہ ہوا۔ مسلح جتھوں کے زور پر کشمیر آزاد کروانے کی اسی ناروا کوشش کی وجہ سے اس وقت برصغیر میں سیاسی، سماجی اور سفارتی دوریاں بڑھ چکی ہیں اور امن و خوشحالی کا راستہ تلاش کرنا محال ہے۔
اب یہ طے ہو چکا ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین، ان کی آزادی علاقائی میکنزم کا حصہ ہے۔ اسلام یا مسلمانوں کے حقوق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنی اصل میں کشمیر یا فلسطین باشندوں کی آزادی و خودمختاری کبھی مذہبی حق کا معاملہ نہیں تھا۔ لیکن غزہ میں حماس اور کشمیر میں مسلح جتھوں کے ذریعے مار دھاڑ اور تشدد کا مزاج عام کر کے درحقیقت ان دونوں علاقوں میں آباد عوام کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا ہے۔ اسے مسلمانوں کا مسئلہ بنا کر ان دونوں علاقوں کے غیر مسلم باشندوں کو الگ کر دیا گیا اور ان علاقوں میں آزادی کی نام نہاد تحریکوں کو تشدد اور دہشت گردی کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ کشمیر اور فلسطین میں اس افسوس ناک تجربے کی ناکامی کے باوجود جماعت اسلامی جیسے گروہ مذہبی نعرے فروخت کرنے کے جنون میں عوام کو گمراہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ حالانکہ اس وقت غزہ میں اسرائیل جیسے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے، اس کا موقع انہی مذہبی شدت پسندوں نے اسے فراہم کیا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کو آزادی کا ہتھیار بتایا گیا تو دوسری طرف مقامی آبادیوں کے سیاسی حق کو مذہبی لبادہ پہنا کر ، ان کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔ اس سے آزادی کا مقصد دور ہو گیا لیکن چند مذہب فروش گروہ ضرور سرخرو اور مالدار ہو گئے۔
پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر واقعی کشمیری عوام کو حق خود ارادی دلوانے میں سنجیدہ ہے تو یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے اسے سنجیدہ سفارت کاری، قیام امن اور باہمی مواصلت کا راستہ ہموار کرنا ہو گا۔ پاکستان کبھی بھی فوجی طاقت کے بل بوتے پر کشمیر فتح نہیں کر سکتا۔ ایوب خان نے 1965 میں ایسے ایڈونچر کا قصد کیا تھا، اس کی قیمت 1971 میں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ یادش بخیر اس وقت بھی جماعت اسلامی کے جہادی گروہوں الشمس و البدر نے بنگالیوں کا خون بہا کر سیاسی مکالمے اور مفاہمت و مصالحت کا راستہ مسدود کیا تھا۔ اب ایک بار پھر اگر سراج الحق جیسے لیڈر مذہبی نعروں کی بنیاد پر ذاتی سیاسی کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہیں تو اس کی قیمت بالآخر ملک و قوم کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔
لاہور ہی کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ’کسی سیاسی جماعت نے آرٹیکل 62، 63 ختم کرنے کی کوشش کی تو ایوان سے باہر نکال دیں گے‘ ۔ پاکستانی آئین میں یہ دونوں شقات سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں شامل کی گئی تھیں جس کے اقتدار کو دوام دلوانے کے لیے جماعت اسلامی نے سر توڑ کوشش کی تھی۔ ان شقات کا خاتمہ ملک میں صحت مند جمہوری کلچر کے فروغ کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جو لیڈر کسی قابل ذکر نمائندگی یا عوامی تائید کے بغیر سیاسی مخالفین کو ایوان سے باہر نکالنے کا ارادہ رکھتا ہو، اس کے فسطائی اور غیر جمہوری عزائم کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ