سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو انتہائی بھونڈے انداز میں سزا سنانے کے ایک ہی روز بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ سے کم داموں تحائف خریدنے کے الزام میں طویل قید ، جرمانہ اور نااہلی کی سزا سنائی ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کسی ضابطہ یا قانون کا لحاظ کیے بغیر یوں سزا کا اعلان کیا جیسے اس کے بعد انہیں کسی کو سزا دینے کا موقع نہیں ملے گا۔
یہ بات اس حد تک تو سچ ہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اگلے ماہ کے وسط میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں۔ انہیں 2012 میں اسلام آباد احتساب عدالت کا جج مقرر کیا گیا تھا اور ان کی تقرری میں تین مرتبہ توسیع کی گئی۔ پہلی توسیع 2015 دوسری 2018 اور تیسری توسیع 2021 میں دی گئی تھی۔ البتہ انہوں نے بیماری کے عذر پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے لیے گزشتہ دنوں وزارت قانون کو درخواست بھیجی تھی۔ یہ درخواست مسترد کردی گئی اور انہوں نے دوبارہ کام شروع کردیا۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کہ انہیں ایک اہم مقدمہ کی سماعت کے درمیان میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی خواہش کیوں محسوس ہوئی اور نہ ہی وزارت قانون کی طرف سے درخواست مسترد کرنے کی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ حالانکہ سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ سے چند ماہ پہلے رخصت پر چلے جانا معمول کی بات ہے لیکن جج محمد بشیر کو یہ ’رعایت‘ دینے سے انکار کیا گیا۔ آج انہوں نے جس ’مستعدی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے سزا اور جرمانہ کا اعلان کیا ہے، اس کی روشنی میں ضرور غور ہونا چاہئے کہ موجودہ نظام حکومت کے لئے ’جج محمد بشیر‘ کیوں ضروری ہوتے ہیں۔ اور انہیں رخصت پر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے توشہ خانہ کیس میں نیب کے ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14،14 سال کی سزا قید کی سزا سنائی ۔ اس کے علاوہ ان دونوں کو 787 ملین روپے فی کس جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ دونوں کو دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدہ کے لیے نااہل بھی قرار دیا گیا ہے۔ سائفر کیس میں قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کی طرح جج محمد بشیر نے بھی سزا سنانے کا مختصر حکم جاری کرتے ہوئے مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ اور سزا کا اعلان کرنے کے بعد عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس لیے جب تک تفصیلی فیصلہ سامنے نہ آئے، اس وقت تک ان دونوں فاضل ججوں کے دلائل اور ان وجوہ کا علم نہیں ہوسکے گا جن کی بنیاد پر دونوں مقدمات میں غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طویل سزاؤں کا اعلان ضروری سمجھا گیا ہے۔ ان دونوں مقدموں میں یہ قدر مشترک بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین اور جج محمد بشیر نے ملزمان کا حق دفاع ختم کردیا تھا اور ان کے وکلا کو استغاثہ کے گواہوں سے جرح کرنےیا حتمی دلائل دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس طرح یہ دونوں فیصلے یک طرفہ، اور مروجہ ضابطوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صادر کیے گئے ہیں۔
دونوں ججوں کے احکامات کی روشنی میں جانا جاسکتا ہے کہ ملکی نظام کو ’محمد بشیر‘ جیسے ججوں کی کتنی ضرورت ہوتی ہے اور کیوں انہیں وقت سے پہلے فارغ نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن ملک کا عام شہری اور قانون کی حکمرانی کی خواہش رکھنے والا پاکستانی ضرور یہ سوچتا اور سوال کرتا ہے کہ اس نظام کو ’جج محمد بشیر‘ سے کب نجات ملے گی۔ کب واقعی قانون کو اس کے درست تناظر میں پرکھتے ہوئے امیر و غریب پر اس کا مساوی طور سے اطلاق ممکن ہوسکے گا۔ کب قانون کی لاٹھی ریاست کے ہاتھ میں پکڑا ہؤا ایساچابک نہیں رہے گی جسے صرف ’ناپسندیدہ‘ لوگوں پر برسا کر ریاستی جاہ و جلال کا اظہار ضروری سمجھا جائے گا۔ کب تک اس ملک کے لوگ، اس روز روشن کا انتظار کرتے رہیں گے جب قانون سے ماورا کچھ عناصر شہریوں کو اٹھانے، غائب کرنے اور ہلاک کردینے پر قادر نہیں رہیں گے اور کب ملکی عدالتیں قانون کی فہم اور انصاف فراہم کرنے کی کمٹمنٹ کے ساتھ کسی ضرورت، دباؤ، مجبوری کے بغیر وہی فیصلہ کرسکیں گی جو عدل کی میزان پر پورا اترے اور جس پر نہ آج اور نہ ہی کل آنے والا کوئی مبصر انگلی اٹھا کریہ کہنے کا حوصلہ نہ کرے کہ یہ تو کہیں سے ڈکٹیٹ کیا ہؤا فیصلہ ہے یا ’یہ میچ تو فکسڈ تھا‘۔
’محمد بشیر‘ کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی مجبوری کا نام ہے جو اس ملک کے شہریوں پر مسلط کردی گئی ہے۔ مجبوری کے اس کھیل میں قواعد مرتب کرنے والی طاقتیں جب چاہیں جو چاہیں منظر نامہ تبدیل کرنے کی قدرت رکھتی ہیں۔ وہ قانون کی نئی تشریح، ضابطوں کو نظر انداز کرنے کی ہدایت یاتبدیل شدہ حالات میں دوست و دشمن کا تعین کرنے میں مکمل طور سے آزاد ہیں۔ ان کی یہ غیرعلانیہ اور کسی بھی قانون و آئین سے ماورا ، بے مہار طاقت کے سامنے سب ہی مجبور محض ہیں۔ ’جج محمد بشیر‘ انہی افراد میں سے ایک بے بس کا نام ہے۔ بدنصیبی سے یہ بسی ایک فرد تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک خاص عہدے پر فائز ایک فرد کے ذریعے اس لاچاری کو پوری قوم کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کہ کون سی عدالت کس کو کیا سزا دیتی ہے۔ لیکن یہ جاننا اس ملک کے ہر شہری کا حق ہے کہ جب کوئی شخص منصف کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو وہ صرف اپنے ضمیر کی عدالت میں جوابدہ ہو۔ اسے یہ دکھائی نہ دے کہ اس کے سامنے ملزم کے کٹہرے میں کھڑا شخص کون ہے، کتنا طاقت ور یا مجبور و لاچار ہے بلکہ اس کی آنکھیں جرم کی نوعیت سمجھنے، شواہد کا جائزہ لینے اور قانون کی کتاب میں لکھے احکامات کودرست تناظر میں دیکھنے کی استظاعت رکھتی ہوں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس ایک اہم مقدمہ تھا۔ ایک اہم دوست ملک کے دارالحکومت میں متعین پاکستانی سفیر کا خفیہ سفارتی مراسلہ ایک مقدس قومی امانت کی طرح ہوتا ہے جس کو پوشیدہ رکھنا بین الملکی تعلقات کی نوعیت اور قومی مفادات و سلامتی کے تحفظ کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عمران خان خواہ سفیر اسد مجید کے سائفر کے بارے میں جو بھی رنگ برنگے بیانات دیتے رہیں لیکن وزیر اعظم کے طور پر جو شخص بھی ایسی کسی دستاویز کے بارے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے یا اس مواصلت کا نام لے کر ایسی باتوں کو عام کرتا ہے جو اس میں موجود نہیں ہیں یا ان کی سیاسی تشریح سے مخصوص مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ بلاشبہ قومی مجرم ہے۔ لیکن ایک اصول بیان کرنے کے بعد کسی ٹھوس ثبوت یا متوازن اور قابل قبول دلائل کے بغیر کسی شخص کو سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سزا دینے کا اعلان نہیں کیا جاسکتا۔سائفر کیس میں قائم کی گئی خصوصی عدالت نے جیسے اس مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھائی، اس کا اندازہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے متعد بار اس کی کارروائی روکنے یا منسوخ کرنے کے احکامات سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ پھر سپریم کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ضمانت دیتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ اس مقدمہ میں سابق وزیر اعظم کو سزا دینے کے لیے قابل اعتبار شواہد موجود نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد کہ خصوصی عدالت کے جج نے ملزمان سے حق دفاع واپس لیتے ہوئے، ان کے وکلا کو اہم گواہان پر جرح کا موقع دینے سے انکار کردیا۔ اور اس سے پہلے کہ ہائی کورٹ اس بدعملی پر کوئی فیصلہ صادر کرتی، غیر معمولی عجلت میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سزا سنا دی گئی۔ مختصر سزا سناتے ہوئے بنیادی شواہد کا حوالہ دینے یا اس فیصلہ کا جواز فراہم کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ دیکھا جائے توخصوصی عدالت کے جج نے غیر ذمہ داری اور کم فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اہم مقدمہ کو خراب کیا اور ریاست پاکستان کے خلاف سرزد ہونے والے ایک جرم کے بارے میں قانون کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہے۔ اب ہائی کورٹ اگر ان کوتاہیوں کی وجہ سے اس مقدمہ کو مس ٹرائل قرار دیتی ہے تو اسے عمران خان کی فتح نہیں بلکہ ریاست کی ناکامی کہاجائے گا۔ اس سے یہ ثابت ہوگا کہ ملکی نظام ایک سنگین جرم کو مناسب طریقے سے ثابت کرنے اور شفاف عدالتی کارروائی میں کوتاہی کرنے والے لوگوں کو سزا دلوانے میں ناکام ہؤا ،کیوں کہ نظام کو ’فعال اور مؤثر‘ ثابت کرنے کے لیے ’جج محمد بشیر‘ بھرتی کیے گئے ہیں جنہیں مہروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں قومی مفاد ثانوی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔
آج توشہ خانہ ریفرنس میں بعینہ ویسی ہی عجلت، بدنظمی اور ملزمان کے بنیادی حقوق نظر انداز کرنے کی سنگین غلطی کی گئی ہے۔ اول تو کسی سربراہ حکومت کو دوسرے ممالک کے ہم منصب عہدیداروں سے ملنے والے تحائف کے بارے میں کوئی باقاعدہ قانون سازی موجود نہیں ہے۔ مختلف اوقات میں حکمران اپنی ضرورت و خواہش کے مطابق قواعد وضوابط میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان نے بطور وزیر اعظم اگر توشہ خانہ سے تحائف لے کر فروخت کردیے تو اس حرکت کو ملکی قانون کی خلاف ورزی نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ حکومت نے کبھی کوئی ایسا قانون ہی نہیں بنایا کہ عوام کے نمائیندے کی حیثیت سے جو تحائف کسی وزیر اعظم یا دیگر منتخب عہدیدار وں کو ملتے ہیں، وہ کسی فرد کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ ان پر عوام کا استحقاق ہے اور انہیں بہر صورت قومی مال خانے میں جمع ہونا چاہئے۔ اگر قانون میں اس کمی سے کسی وزیر اعظم نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے تو متعلقہ شخص کو سزا دینے کی بجائے قانونی سقم دور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عمران خان اور بشریٰ بی بی کو یک طرفہ مقدمہ میں طویل سزائیں دینے کا اہتمام کیا گیا۔ اسے ایک سیاسی لیڈر کے خلاف انتقامی کارروائی کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا محال ہوگا۔
ان دونوں مقدمات میں ریاست اگر ‘جج محمد بشیر‘ کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے قانون کا سہارا لیتی، مناسب طریقے سے مقدمہ کی کارروائی چلائی جاتی اور مسلمہ قواعد و ضوابط کا احترام کیا جاتا تو ریاست بھی سرخرو ہوتی اور قانون شکنی کرنے والے بھی کیفر کردار تک پہنچتے۔ موجودہ حالات میں استدعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اس نظام کو قابل اعتبار بنانے کے لئے ’جج محمد بشیر‘ رخصت پر جانا چاہے تو اس پر اعتراض نہ کیا جائے۔ نظام کو قانون کے میرٹ پر کام کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ لوگ بھی مطمئن ہوں، ملزم بھی ظلم و زیادتی کی شکایت نہ کرے اور ملک کے خلاف جرائم میں مرتکب لوگ غیر ضروری ریاستی چابکدستی کے سبب ’مظلوم‘ کا روپ دھار کر عوام کا ہیرو بننے کے قابل نہ رہیں۔ لیکن اس کے لیے ’جج محمد بشیر‘ سے جان چھڑانا ہوگی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ