کسی بھی اہم اور ہر دلعزیز شخصیت کے وصال پر ان کی خدمات کے پیش نظر خبر یا کالم میں ایک جملہ ”اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا”لکھا جاتا ہے مگر جون کا مہینہ اہلیان ملتان اور سرائیکی وسیب پر اس لئے بھاری رہا کہ اسی دوران بہت سے جدوجہد کے ساتھی ہم سے جدا ہوگئے تو اب یہی کہا جائے گا کہ ”بہت سے اشخاص سب کچھ ویران کر گئے” جدائی کے لمحات کا اندازہ تو صرف انہی کوہوتا ہے کہ جوبراہ راست صدمات سے دوچار ہوتے ہیں۔ مگر کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہے کہ جن کے وصال کا دکھ بھلایا نہیں جاسکتا۔
ویسے تو صرف ملتان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے لوگوں کی جدائی کا ان کی خدمات کے حوالے سے ذکر کیا جاسکتا ہے مگر صرف شعبہ صحافت میں جناب خواجہ عبدالکریم قاصف ، جناب حاجی محمد کھوکھر ، جناب ڈاکٹر فاروق اویسی، جناب ولی محمد واجد، جناب شیخ ریاض پرویز، جناب گلزار اظہر، جناب خان رضوانی، جناب سعید کوثر مرزا، جناب ایثارراعی ، جناب ایم اے شمشاد ، جناب سید فخر الدین بلے ، جناب شبیر حسن اختر، جناب اقبال ساغر صدیقی ، جناب شیخ مظفر الدین، جناب شمس ملک، جناب باسم میواتی، جناب اے کے درانی، جناب شمشیر حیدر ہاشمی، جناب ابن حنیف،جناب ایم آ ر روحانی، جناب شیخ معصوم اختر، جناب ظہور انصاری، جناب قمر الحق قمر ، جناب نذر بلوچ، جناب سید قاسم جعفری، جناب ممتاز العیشی ، جناب شیخ سمیع اللہ ، جناب معین قریشی، جناب کیف انصاری ، جناب رؤ ف چوہدری ، جناب مظہر کلیم ایم اے، جناب جلال ربانی، جناب عاشق علی فرخ، جناب سعید صدیقی ،جناب مقبول عباس کاشر، جناب سلیمان غنی ، جناب جاوید درانی ، جناب مرزا گلزار بیگ ، جناب شیخ رشید اختر، جناب سیف الرحمن، جناب اسلم گوہر، جناب ڈاکٹر احسن فار قلیط، جناب اطہر ناسک ، جناب علیم چوہدری، جناب افضل خان، جناب چوہدری عبدالطیف اختر، جناب پرکاش جمیز، جناب ریحان اقبال برنی، جناب خالد ٹائیگر، جناب سجاد خان ، جناب حامد خاکوانی، جناب شیخ انعام الحق، جناب عارف اسلام صدیقی، جناب انوار احمد انو بھائی، جناب شاہد سلیم ،جناب مرزا خاقان، جناب سلیم شاہد، جناب رانا محمود الحسن، جناب اقبال مفکر، ، جناب راؤ عقیل احمد، جناب اقبال مفکر ، محترمہ مسرت پراچہ، جناب ایم سلیم چشتی، جناب فاروق عدیل، جناب سید الطاف شاہ،جناب حاجی فاروق قریشی، جناب ملک غلام صفدر، جناب اقبال مبارک ، جناب طارق جاوید، جناب پروفیسر منیر ظفر، جناب عباس قریشی ،جناب اعجاز رسول بھٹہ سمیت بہت سے مرحوم صحافی ایسے ہیں جنہوں نے قلم کے ذریعے اس وسیب کی جو خدمت کی اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
یقیناً اس فہرست میں بہت سے ایسے نام بھی شامل ہیں جن کو آج کے صحافی نہیں جانتے مگر کسی وقت ان صحافیوں کا تعارف بھی پیش کروں گا۔ان ناموں کو تحریر کرنے کا مقصد مرحومین کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے مگر اس وقت میں صرف جون 2020کے موجودہ شدید گرمی اور کورونا کے عروج کے مہینے میں جدا ہونے والی چند اہم شخصیات کا ذکر کرنا ضرورسمجھتا ہوں جن کا تعلق ملتان اور سرائیکی وسیب سے ہے ۔ ویسے تو اللہ بھلا کرے رضی الدین رضی ، شاکر حسین شاکر اور ظہور دھریجہ کا جو کسی نہ کسی حوالے سے بہت سے جانے والوں کو یادرکھتے ہیں اور ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اس طرح کئی اہم شخصیات کی یاد میں تعریفی ریفرنس بھی جھوک سرائیکی اور ادبی بیٹھک ملتان آرٹس کونسل میں ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ظہور دھریجہ نے پروفیسر شوکت مغل ، سلیم شہزاد اور عاطف مزاری کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا جس میں سرائیکی جماعتوں نے اتحاد کی شکل نظر آئی ۔ اسی طرح سینئر صحافی رانا عرفان السلام نے قائم خاں کرمانی کی یاد میں JDHR کے پلیٹ فارم سے تعزیتی ریفرنس منعقد کیا۔
میری آج کی تحریر کا اصل مقصد حالیہ دنوں میں وصال پانے والی چند شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ ان میں سب سے پہلے جناب شوکت مغل شہید کا ذکر کروں گا ۔ جن کا شمار ہم سب کے اساتذہ میں ہوتا ہے ۔مرحوم سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین ، سرائیکی ادبی بورڈ کے صدر اور معروف ماہر لسانیات تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 60کتابیں تحریر کیں ۔ سرائیکی قائدہ متعارف کرایا اور اب سرائیکی لغت پر کام کر رہے تھے کہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کے علاقے پیپلز کالونی کے لوگ انہیں کسی در و یش سے کم درجہ نہیں دیتے تھے ۔ گرمی ہو یا سردی وہ زکریا یونیورسٹی اور جھوک کے دفتر تک موٹرسائیکل پر جاتے تھے۔ ملتان میں ہونے والے بڑے بڑے مشاعرے ان کی صدارت میں ہوتے تھے۔
جناب پروفیسر شوکت مغل کا تعلق کیونکہ پاک گیٹ کے علاقے سے تھا ایک دن مرحوم نے مجھے بتایا کہ آپ کے دادا حاجی محمدابراہیم کے بھائی کپتان حسن بخش زرگر مرحوم نے ملتان میں انجمن فدایان اسلام فورس کا تلواروں کا دستہ بنایا جب تنظیمی ڈھانچہ مخدوم صدر الدین گیلانی کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے کپتان حسن بخش مرحوم کی قیادت میں یہ قافلہ غازی علم دین شہید کی تحریک میں شرکت کیلئے لاہور بھیجا یہ خبر میرے لئے اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اس سے قبل سینئر صحافی سید افتخار گیلانی کے والد بزرگوار مخدوم سید ذوالفقار شاہ گیلانی مرحوم بھی ذکرکر چکے تھے مگر اس وقت تو بات سمجھ نہ آئی لیکن پروفیسر شوکت مغل کی تصدیق کے بعد پہلی بار اسے تحریر میں لارہا ہوں ۔
میں ذاتی طور پر جناب پروفیسر شوکت مغل کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ میری ٹوٹی ہوئی تحریروں کو نہ صرف سراہا بلکہ کئی بار اصلاح کے حوالے سے تجاویز بھی دیں ۔ دعا ہے کہ جناب ظہوراحمد دھریجہ سمیت سرائیکی دانشوراور ادیب ان کے ادھوے کام کو مکمل کریں۔ ان کی زندگی کے حوالے سے جناب ظہوراحمد دھریجہ نے جھوک سرائیکی میں 2تعزیتی ریفرنس بھی کئے ہیں ان کی وفات پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سوگوار خاندان سے اظہار تعزیت بھی کیا۔
جس روز جناب پروفیسر شوکت مغل کا وصال ہوا اس دن معروف سیاسی گھرانے کے چشم چراغ ، سابق ایم این اے شیخ طاہر رشید کا بھی وصال ہوا۔ مرحوم کے والد الحاج شیخ محمد رشید مرحوم تاجر رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ رکن مجلس شوریٰ اور ایم این اے رہے ہیں ان کے بھائی شیخ طارق رشید میئر ملتان اور ایم این رہے ۔ یوں ملتان کی سیاست میں اس خاندان کا بڑا نام ہے اور کرونا وائرس کی موجودگی میں شیخ طاہر رشیدکے بڑے جنازے کے شرکاء نے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔
قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ پروفیسر شوکت مغل اور شیخ طاہر رشید کے درمیان تحریک صوبہ ملتان کے صدر راؤ عبدالقیوم کی جانب سے منعقدہ اے پی سی میں سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر بحث ہوئی کیونکہ پروفیسر شوکت مغل سرائیکستان کے حامی تھے جب کہ طاہر رشید کہتے تھے کہ نام کا فیصلہ بعد میں کریں گے پہلے صوبے بن جائے ۔ اس بحث کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور دونوں کی آپس کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب پروفیسر شوکت مغل اور جناب شیخ طاہر رشید کے وصال ، نمازجنازہ تدفین اور قل خوانی کا وقت ایک ہی تھا۔ شیخ طاہر رشید سے میرا ذاتی تعلق تھا۔ ایک طویل عرصہ تک ہر صبح ان کا ایس ایم ایس ملنا معمول تھا وہ سچے عاشق رسول تھے
فیس بک کمینٹ