انسانی تاریخ کا دروازہ کھٹکٹانے اور آجکل کے اس دورِ جدید میں روٹی کے پیچھے بھٹکنے والے انسانوں کی اندازِ زندگی کو دیکھ کر دیگر کئی لوگوں کی طرح مجھے بھی اس عجیب و غریب رنگارنگی اور طرزِ دنیاوی ہلچل کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ ساری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔
میرے محدود مطالعے کے مطابق اور جو بھی میں نے کچھ کتابوں میں پڑھا ہے،وہ یہ کہ اس دنیا میں زیادہ جنگیں، مذہب کے نام پر ہوئی ہیں اور اب جو ایک جنگ اپنے بقا کے لیے ہر انسان لڑ رہا ہے،وہ معیشت کی ہے۔حالانکہ دیکھا جائے کہ جو جنگیں مذاہب کے نام پر ہوئیں ، اس کے پیچھے بھی کسی نہ کسی طرح معیشت کا ہاتھ ہوگا،اگر نہیں تو طاقت کا تو ہاتھ ہے ہی ۔کیوں کہ معیشت اور طاقت ایک دوسرے پر دارومدار رکھتی ہیں۔
مذہب پہ لڑی گئی جنگیں بھی معاشی طاقت کو حاصل کرنے کی وجہ سے لڑی گئیں۔
خوف مذہب کی پیداوار ہے۔ پھر وہ خوف ملکیت کے کھو جانے کا ہو سکتا ہے اور حاصل کرنے کا بھی ہو سکتا ہے۔
سماجی قدر اور اصول ویسے تو تہذیب کی اخلاقیات کے تابع ہوتے ہیں، لیکن معیشت کی وجہ سے وہ سماجی اصول اور قدر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
انسان کا ضمیر تو بہت ہی اعلیٰ اور بڑی سرکار ہے، لیکن آج کے اس نفسانفسی والے دورِ جدید میں پتا نہیں کیوں طاقت اور شہرت کا بھوت انسانی ضمیر پہ قابض ہے۔
ہر انسان بھوک مٹانے کی الجھن میں پھنسا ہوا ہے۔ غریب انسان دو پہر کی روٹی کے پیچھے ہے اور امیر لوگ تو زیادہ بھوکے ہیں، کیوں کہ انہیں نہ صرف اپنے پیٹ کی بھوک ہے، بلکہ انہیں تو شہرت کی بھی شدید بھوک ہے اور انہیں اپنے سماج میں معتبرہونے کے نشے کی بھی بھوک ہے۔
دھندے بھی بھوک کے مارے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر سیاست جو سماج کا ایک مثبت علاج کرنے کا ذریعہ ہے اور بڑا گورکھ دھندہ کہلاتا ہے وہ بھی شہرت،فارملٹی اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیئے استعمال کی جا رہی ہے۔دوسرے کچھ ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ کر باقی کئی دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک پاکستان کو بھی اس دلدل اور سیاسی انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہاں پہ دھندوں کی تقسیم بھی بہت ہی عجیب و غریب ہے۔ جن لوگوں کو اسپیشل چوری اور غنڈہ گردی کی مہارت ہے وہ سیاست کے بڑے مقام پر ہیں اور وہاں اپنی کارروائی کر رہے ہیں اور جن کو سیاست کی دنیا میں آ کر عوام کی خدمت کرنا چاہیئے وہ مارے جا رہے ہیں یا پھر خاموش ہیں۔یہ سب سرمائے کی وجہ سے ہوتا جا رہا ہے۔
چنانچہ ان پڑھ لوگ اور پڑھے لکھے لوگ بھی سرمائے کو غلط استعمال کرتے ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ سماج کی تباہی کرپشن میں ہے، سفارشی کلچر میں ہے ، رشوت میں ہوتی ہے۔ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے ،لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو بھی ذہنی طور پر بیمار سماج ہے ،اس میں استحصال کی بڑی وجہ فقط اور فقط چیزوں کے منفی اور فضول استعمال کرنے میں ہے۔
اس دنیا میں سرمایے کو غلط استعمال کرنے کی وجہ سے ہی بہت بڑا ہنگامہ برپا ہے۔
یہاں روپے کے لیئے سب کھیل بے رحمی سے کھیلے جاتے ہیں اور سیاست میں روپے کے لیے لوگ، روپے کی طرح تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر سیاستدانوں کی خاموش احتجاج زیادہ روپےکی حصول کے لیے ہے۔ اور ہر بندہ زیادہ روپیہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس لیئے انسانی قدر اور اصول بکنے کی لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا انسانیت فقط روپے کی محتاج ہے؟ ہاں کل اور آج پیسہ ہی انسان کی ساری معاشی و مالی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن پیسے کی بھاگ دوڑ میں قانون،اخلاقیات ،عظیم انسانی رشتوں اور انسانیت کے اعلی و عظیم اصولوں کو توڑ کر ہی پیسہ حاصل کرنا انسانیت سے انتھائی گرا ہوا عمل ہے اس لیئے کل بھی اور آج بھی انسانیت ہی اعلی و عظیم مذہب ہے۔
ان سارے امراض سے نجات حاصل کرنے کے لیے اور سماج میں ترقی پسند سوچ تعمیر کرنے کے لیے خاص طور پر سیاستدانوں اور مختلف مکتبہ فکر سے وابستہ انسانوں کو اپنے مقصد سے غیرضروری معاشی طاقت کا ہر حال میں حصول کرنے والے مرض کو الگ کرنا پڑے گا ورنہ غریب،غریب اور امیر اور زیادہ امیر بنتے جائیں گے۔
فیس بک کمینٹ