ملتان :پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق کو20 سال پرانے کراچی ٹیسٹ کی شکست کا غم آج بھی کھائے جارہا ہے کیونکہ اس میچ میں امپائرز نے پیشہ ورانہ دیانت داری نہیں دکھائی ،دوسرا دکھ یہ تھا کہ امپائرز نے اپنا حق ادا نہیں کیا۔انضمام الحق نے اپنے یو ٹیوب چینل پر تازہ ترین پروگرام میں پاکستان کے لئے نہایت تکلیف دہ ٹیسٹ کی یادیں تازہ کیں اور ایسی باتیں بتائیں کہ جو واقعی حیران کن اور افسوسناک ہیں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان
کراچی میں 6 دسمبر 2000سے ٹیسٹ میچ شروع ہوا،پاکستان نے پہلی اننگ میں 405رنزبنائے،انضمام اور محمد یوسف نے سنچریز کیں،جواب میں انگلش ٹیم 388رنزبناکر آئوٹ ہوئی،ایتھرٹن نے سنچری کی ،پاکستان دوسری اننگ میں 158اسکور پر آئوٹ ہوگیا۔اس طرح انگلینڈ کو 176کا ہدف ملا جو اس نے 4وکٹ پر حاصل کرلیا۔
میچ کی یہ کہانی اور اسکور کارڈ نہایت سادہ سی ہیں کہ پاکستان تاریخ میں پہلی بار کراچی میں ٹیسٹ میچ ہارگیا لیکن اسی میچ کی اصل کہانی کچھ اور ہے اور وہ انضمام کچھ یوں سنارہے ہیں۔
انضمام الحق کہتے ہیں کہ کراچی ٹیسٹ پاکستان کے لئے اچھا نہیں تھا اور ہمارے لئے بھی اچھا نہیں تھا،یہ ٹیسٹ دلچسپ اس لئے تھا کہ مکمل اندھیرا ہو،فیلڈرز کو بال نظر نہ آ رہی ہو اور میچ مکمل کیا جارہا ہو،ایسا کرکٹ ہسٹری میں کبھی نہیں ہوا لیکن اس روز ایسا ہوا کہ رمضان المبارک کے دن تھے،سورج غروب ہوچکا تھا،روزہ کھل گیا تھا،اذانیں ہوچکی تھیں،اس وقت یہ میچ ختم ہوا۔ہم نے بڑا احتجاج کیا،امپائر سٹیو بکنر نے نہیں سنی کیونکہ وہ بیٹسمینوں سے پوچھتے تھے کہ کھیلنا ہے،ایسے میں کہ جب بیٹسمینوں کے پاس وکٹیں موجود ہوں اور جیت قریب ہو وہ تو کہیں گے کہ جی کھیلنا ہے،یہ امپائرز کا کام ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں،بال دکھائی نہیں دے رہا تھا،بیٹنگ ٹیم نے فیور لی،امپائر نے دے دی،اتنا اسکور کرکے کوئی ٹیم نہیں ہارتی،ہم نے 405کئے،388پر انہیں آئوٹ کر کے لیڈ بھی لی،ہم نے140 اوورز کھیلے،انگلینڈ نے 180اوورز کھیلے،انگلینڈ مشکل میں تھا،ہمارے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ ایسا نتیجہ ہوگا،جب ہماری دوسری باری آئی تو ہم یہ سوچ رہے تھے کہ میچ ڈرا ہے،جو بھی کھیلے گا لمبی اننگ کھیلے گا مگر 158 پر آئوٹ ہوگئے،اب 176 کا ہدف تھا،ہمارا اب بھی یہی خیال تھا کہ ہم ان کو پکڑ لیں گے اور ہم نے پکڑ بھی لیا مگر یہ ہم نے نہیں سوچا تھا کہ سورج غروب ہونے کے بعد بھی میچ جائے گا،ہمیں بال نہیں دکھائی دے رہی تھے،معین خان کپتان تھے،ہم نے4 یا 5 بار احتجاج بھی کیا لیکن بکنر نے بیٹسمینوں کی سنی اور ان کو فیور دی،امپائر حتیٰ کہ ریفری تک میچ ختم کرسکتے تھے،سورج غروب ہونے کے بعد کبھی ٹیسٹ میچ نہیں ہوا،یہ کوئی نائٹ ٹیسٹ نہیں تھا اور نہ اس وقت اس کا تصور بھی تھا۔حقیقت یہ ہے کہ آخری شاٹ میری طر ف کھیلی گئی،مجھے فیلڈنگ کرتے ہوئے گیند دکھائی نہیں دی۔ہسٹری میں ایسا نہیں ہوا کہ غروب آفتاب کے بعد میچ کھیلا جارہا ہو،یہ اتنے سال پرانی بات ہوگئی لیکن مجھے اس کا آج بھی غم ہے۔
( بشکریہ : کرک سین ڈاٹ کام )