وہ آپ نے سُنا تو ہوگا کہ والد اپنے بیٹے کا رشتہ طے کرنے گئے مگر اپنا رشتہ طے کرکے گھر واپس آگئے۔۔ایسا ہی کچھ آجکل اپوزیشن کی سیاست میں درپیش ہے یقین نہ آئے تو اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر اور صدارتی انتخابات کا بغور جائزہ لے لیں۔۔۔۔ انتخابی نتائج کے بعد تمام اپوزیشن نے بیک زبان ہوکر احتجاج کی صدا بلند کی۔۔پہلی اے پی سی میں حلف نہ اُٹھانے کی تجویز نے تو سیاست کے سوکھے گھاس میں آگ لگا دی۔۔۔اس اعلان کے بعد جمہوریت کے لیے لاشوں کا واویلا کرنے والی پیپلزپارٹی نے قدم آگے بڑھایا اور تمام جماعتوں کو اسمبلیوں میں لانے کی ٹھان لی تاکہ عمران خان کے رفقاء کے سامنے تابعدار بچوں کا تاثر اُبھار سکیں۔۔۔اسمبلیوں میں جانے سے قبل اپوزیشن نے اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کا انتخاب مشترکہ طور پر لڑنے کا اعلان کرڈالا۔۔۔اسپیکر پیپلزپارٹی کے حصے میں آیا جبکہ مولانا نےفورا ڈپٹی اسپیکر پر حامی بھر لی ۔۔۔۔اورنومولود ممبر قومی اسمبلی میں پوتا ِمولانا مفتی محمود کا یعنی صاحبزادہِ مولانا فضل الرحمن ،مولانا اسعد محمود کو اپوزیشن کی جانب سے نامزد کروا دیا اور موصوف کو 144 ووٹ بھی مل گئے۔۔۔۔۔یوں صاحبزادہِ مولانا کا پارلیمانی تاریخ میں پروفائل بن گیا اورسیاست میں دھاسو انٹری بھی مل گئی۔۔ جبکہ پیپلزپارٹی نے شہباز شریف کو ووٹ نہ دیکر اچھے بچوں کا عہدخوب نبھایا۔۔۔۔۔۔ اب آئیے صدراتی انتخابات پر۔۔۔ پیپلزپارٹی نے اپنا امیدوار میدان میں اُتارا تو ن لیگ نے اعتزاز احسن پر تحفظات کا اظہار کردیا،،با لکل ویسے ہی جیسے زرداری کے دھڑے نے شہباز شریف کو ووٹ دینے کی مخالفت فرمائی۔۔۔اُس وقت مقصد عمران خان کو باآسانی وزیراعظم بنانا تھا اور اب تحریک انصاف کا صدر بنواکر ریلیف لینا ہے جوکہ ملنا نہیں۔۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سیاسی عداوت کا بھرپور فائدہ مولانا فضل الرحمن نے اُٹھایا۔۔۔ پی پی نے مولانا سے ن لیگ کو راضی کرنے کی مدد مانگی اور مولانا نے کمال ہنرمندی سےن لیگ سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو خود پر راضی کر لیا،،اب زرداری نےمولانا کو حمایت نہ دے کر ایک طرف تحریک انصاف کا راستہ آسان کردیا اور مولانا پارلیمانی سیاست میں صدراتی امیدوار بن کرپروفائل بناگئے،اس کو کہتے ہیں باریک سیاسی کاروائی!
فیس بک کمینٹ