الیکشن ہوچکے۔۔نتائج آچکے۔۔سیاسی جماعتوں کی عددی پوزیشن واضح ہوچکی۔۔۔اب جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہےاپوزیشن انتخابات پر تحفظات کا رونا بھی روتی نظر آتی ہے اور پارلیمنٹ کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایوان میں جانے کو بھی بیتاب ہے خیر یہ حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں اس کا فیصلہ اگلے چند روز میں ہوجائےگا۔۔ میرا رونا تو عمران خان کے مینڈیٹ سے متعلق ہے۔۔ میں پچھلے کئی برسوں سے یہ لکھ رہا ہوں کہ پاکستانی ووٹ بینک عمران ،نواز، بھٹوخاندان جیسے سیاسی خانوادوں کا ہے۔۔ ہر حال میں انتخابی معرکہ مارنے والے شاطر لوگ عوام کا موڈ دیکھ کرپارٹی کا پلیٹ فارم چُنتے ہیں اور یہ روایت پرانی ہے۔۔ ان شاطرسیاسی مداریوں نے پی پی اور ن لیگ میں مزے لینے کے بعد تحریک انصاف کا جھنڈا اُٹھا لیا۔۔وجہ کرپشن کے خلاف جہاد،انصاف کا بول بالاکرنا نہیں تھا صرف اورصرف اسمبلیوں میں اگلے پانچ سال گزارنے تھے۔۔ ان شاطر مداریوں کے کچھ ہمراہی پہلے ہی خان کا قُرب حاصل کرچکے تھےبس اُن کے ذریعےعمران کو الیکٹیبلز کا پکا راگ سنایا گیاجس میں عمران خان مدہوش ہوگئے،بس پھر تو یہ الیکٹیبلز خشک پتوں کی مانند بنی گالہ کے آنگن میں گرنے لگے ۔۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے موقعے پر یہی شاطر سیاستدان آستینیں چڑھا چڑھا کرببانگ دہل جیتنے کے نعرے لگانے لگے۔۔ان نعروں کی گونج میں عمران خان زمینی حقائق سے دور ہوتے چلے گئے!کپتان نے زمینی حقائق کوجاننے کےلیےسروے کی ٹرم کاسہارا لیا مگران شاطر کہانی بازوں نے وہاں پربھی سیٹینگ کرلی !آخری تُرب کا پتہ کھیلتےہوئےیہ فیصلہ کرایا گیا کہ ایم این اے کی مرضی سے ایم پی ایز کو ٹکٹ ملیں گے ۔دوسرے لفظوں میں عمران کی 22 سالہ جدوجہد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا گیا۔۔ ان حقائق کو مدنظر رکھ کر ٹکٹیں دیدی گئیں لیکن ہر حلقے میں جنگ وجدل شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں لاہور،10گوجرانولہ،6سیالکوٹ،5سرگودھا،5 اور منڈی میں 1 نشست ہارنی پڑی،ساہیوال ڈویژن 8 اور قصور سے 3 نشستوں پر شکست ہوئی۔۔۔اب ان تمام نشستوں کو جمع کرلیں تو تعداد37 بنتی ہے۔۔ پی ٹی آئی کے پاس 116 نشستیں موجود ہیں 37 میں سے آدھی ہی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں تحریک انصاف جیت لیتی تو عمران خان سادہ اکثریت لیکر وزیراعظم بن سکتے تھے مگر الیکٹیبلز کا راگ الاپنے والے اور انہیں ٹکٹ دلوانے والے شاید عمران کی مضبوط حکومت نہیں چاہتے تھےیاد رہے یہی وہ اضلاع ہیں جہاں الیکٹیبلز کی بھرمار تھی!!
فیس بک کمینٹ