ایئر پورٹ سے کلتے ہی دل خوش ہو گیا۔ ٹریفک پاکستا کی طرح چل رہی تھی۔ گو کہ ٹریفک کا رخ الٹا تھا یع ی ڈرائیور دائیں ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ بیٹھتا تھا اور ٹریفک کا بہاﺅ بائیں کے بجائے دائیں ہاتھ تھا۔ جو ممالک تاج برطا یہ کے تحت محکوم رہے ہیں وہاں ٹریفک کا ظام پاکستا جیسا ہے اور جہاں یورپ یا امریکہ کا ظام چلتا رہا ہے وہاں یہ ظام بالکل الٹ ہے۔ کمبوڈیا کسی زما ے میں فرا س کے زیرتسلط رہا ہے اس لیے وہاں ٹریفک کا ظام ہم سے الٹ ہے۔ البتہ اس فرق کے علاوہ باقی سب کچھ تقریباً ایک جیسا تھا۔ ٹریفک بری طرح پھ سی ہوئی تھی اور اس کی ب یادی وجہ افراتفری‘ جلد بازی اور قواعد کی ایسی تیسی تھی۔ سکوٹیوں والے اور والیاں دائیں بائیں کا دھیا کیے بغیر رواں دواں تھے حتیٰ کہ کئی ایک تو فٹ پاتھ پر اپ ی اپ ی سکوٹی چلا رہے تھے۔
یہ سکوٹی موٹر سائیکل اور مرحوم سکوٹر کی درمیا ی چیز ہے۔ ایک زما ہ تھا کہ ہماری سڑکوں پر سکوٹر چلا کرتے تھے۔ پچا وے فیصد ”ویسپا“ کمپ ی کے سکوٹر تھے‘پا چ فیصد سکوٹر ”لمبریٹا“ کے ہوتے تھے۔ فرق یہ تھا کہ ویسپا کے سکوٹر کی ”سٹپ ی“ یع ی فالتو ٹائر مسافر سیٹ کے پیچھے کھڑے رخ لگا ہوتا تھا اور لمبریٹا کا لیٹے رخ لگا ہوتا تھا۔ ابا جی مرحوم ے 1963ءمیں جب ویسپا سکوٹر خریدا تو غالباً یہ ستائیس سو روپے کا تھا۔ تب یہ بھی بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ سکوٹر حسی آگاہی کی کسی دوکا پر بلکہ سکوٹر کی ایج سی پر بک کروایا تھا۔ ابا جی کے ساتھ ا کے دوست ڈاکٹر عزیز الرحما ے بھی سکوٹر وہیں بک کروایا تھا۔ عزیز الرحما ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے اور ا کی رہائش ا کے کلی ک کے اوپر ہی تھی جو چوک شہیداں کے عی چوک کے کار ر پر تھا۔ سکوٹر ڈرائیور کے آگے خالی جگہ ہوتی تھی جہاں چھوٹے بچے کھڑے ہو جاتے تھے۔ میں تب ساڑھے تی سال کا تھا اور بڑے مزے سے آگے کھڑا ہو جاتا تھا۔ پہلے لمبریٹا سکوٹر سڑکوں سے غائب ہوا پھر ویسپا بھی تقریباً ع قا ہو گیا۔ اب کبھی کبھار کسی بزرگ قسم کے ویسپا سے ملاقات ہو جائے تو عجیب خوشی سی ہوتی ہے۔ کیا کیا چیزیں تھیں جو وقت کے ساتھ اڑ چھو ہو گئیں۔
کمبوڈیا میں موٹر سائیکل اور سکوٹر کی یہی درمیا ی شے ''سکوٹی“ سب سے پاپولر سواری ہے۔ کیا مردکیا عورتیں۔ کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں۔ سب کے پاس سکوٹیاں ہیں۔ جاپا کی ب ی ہوئی۔ لوکل صرف ''ٹک ٹک“ کی پچھلی باڈی ہے۔ کسی چھوٹی بگھی جیسی آم ے سام ے لگی ہوئی دو سیٹوں والی۔ اس بگھی ما سواری کے آگے بھی جاپا ی ساختہ سکوٹی لگی ہوئی ہے۔ ٹک ٹک یہاں کی قومی سواری ہے۔ کسی کو ہماری طرح سٹیٹس کی فکر ہیں۔ ایئر پورٹ پر بی الاقوامی پرواز سے اتریں اور ٹک ٹک پر چڑھ جائیں۔ کوئی حیرت یا استعجاب سے ہیں دیکھتا۔ سڑکوں پر سکوٹیاں ہیں‘ ٹک ٹک ہیں اور بے تحاشا گاڑیاں۔ گاڑیاں بھی ایسی ایسی کہ پاکستا میں کم از کم اس طرح ہرگز دکھائی ہیں دیتیں جیسے یہاں ام پ ہہ میں ظر آتی ہیں۔ دو تی فراری دیکھیں۔ اللہ جھوٹ ہ بلوائے تو کئی بار رولز رائس‘ ب ٹلے اور بوگاٹی جیسی گاڑیاں رواں دواں ظر آئیں۔ امیر اور غریب میں باہمی فرق پاکستا سے زیادہ ظر آیا۔پولیس کا حال بھی ہم سے بہتر تھا۔ یع ی وہ تھوڑے پیسوں پر بھی راضی ہو جاتی ہے اور رقم پکڑتے وقت ٹریفک کا اہلکار ہ تو شرماتا ہے اور ہ ہی جھجکتا ہے۔
ویت ام ے پول پاٹ سے جات دلا ے کے بہا ے کمبوڈیا پر حملہ کر دیا اور سات ج وری 1979ءکو ام پ ہہ پر قبضہ کر کے پول پاٹ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اگلے دس سال تک ویت ام ے کمبوڈیا پر قبضہ کیے رکھا۔ ویت ام سے آزادی کے لیے بھی دو سال ج گ ہوئی۔ پھر اقوام متحدہ ے ایک سال ا تظامی معاملات س بھالے۔ پہلا الیکش 1993ءمیں ہوا۔ اسی سال جلا وط شاہ سہا وک چی سے واپس آ گیا۔ ملک کا ام ''پیپلز ریپبلک آف کمپوچیا“ سے بدل کر ''ک گڈم آف کمبوڈیا“ رکھ دیا گیا۔ سوشلزم اور کمیو زم کا کمبوڈیا میں محض پو ے چار سال ہی میں مکمل ج ازہ کل گیا۔ 1993ءکا الیکش ''کمبوڈی پیپلز پارٹی“ ے جیتا اور اس کے سربراہ ہ± سی ے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ تب سے اب تک یہی صاحب وزیراعظم ہیں اور گزشتہ پچیس سالوں میں اپ ے سارے سیاسوں مخالفی کا تختہ کر کے رکھ دیا ہے۔
ہم سی اَم رِپ میں بورائی ا گکور ریزورٹ میں ٹھہرے تھے۔ یہ فائیو سٹار ہوٹل تھا لیک مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر رہائش پذیر لوگ ٹک ٹک پر آتے اور جاتے تھے۔ ہمارے ہاں کسی فائیو سٹار ہوٹل میں رکشہ شاید داخل بھی ہ ہو ے دیں مگر ا±دھر یہ عالم تھا کہ پارک گ لاٹ میں ٹک ٹک والے سواری کے م تظر کھڑے ہوتے تھے اور داخلی دروازے پر کھڑے گارڈ ہ صرف ہوٹل سے روا گی کے لیے ٹک ٹک والے کو اشارے سے بلا کر دیتے تھے بلکہ واپس آ ے والے مہما کو بڑی عزت سے ٹک ٹک سے اتارتے بھی تھے۔ سی اَم رِپ میں ٹک ٹک کارپٹ تقریباً طے تھا۔ شہر کے ا در کہیں بھی جائیں دو ڈالر فکس تھے۔ کوئی تی یا چار ڈالر ما گتا تو ہم آگے چل پڑتے وہ فوراً کہتا اچھا دو ڈالر دے دیں۔ ہر جگہ بھاﺅ تاﺅ ہوتا تھا۔ پ درہ ڈالر کی چیز آٹھ و ڈالر میں آسا ی سے مل جاتی تھی۔ اوپر سے یہ ملال بھی رہتا تھا کہ شا ید اب بھی لوٹ لیا گیا ہوں۔
ایما داری کی بات ہے کہ میرے پاس کمبوڈیا جاتے ہی کروڑ پتی ب ے کا بڑا س ہری موقعہ تھا۔ میں اگر چاہتا تو پہلے ہی روز کروڑ پتی ب جاتا لیک صرف اور صرف اس لیے دل اس آمادہ ہ ہوا کہ ممک ہے اس امارت کے بعد دل میں تکبر ہ پیدا ہو جائے۔ صرف اس تکبر سے بچ ے کی غرض سے ز دگی میں پہلی بار کروڑ پتی ب ے کا موقع ہاتھ سے گ وا دیا۔ میں صرف اپ ے اڑھائی ہزار ڈالروں کو کمبوڈیا کی کر سی ''رئیل“ میں تبدیل کروا لیتا تو مبلغ ایک کروڑ رئیل جیب میں آ جاتے اور یہ مسافر کروڑ پتی ب جاتا مگر پھر یہ ارادہ ترک کر دیا۔ ویسے بھی ات ے پیسوں کو س بھال ے سے زیادہ خرچ کر ے اور ا کا حساب رکھ ے کے لئے حساب کتاب میں جو مہارت چاہیے تھی وہ صرف اور صرف مفرور اسحاق ڈار میں ہی پائی جاتی تھی۔ یہ عاجز تو اس معاملے میں بالکل چوپٹ شخص ہے۔
کمبوڈیا کی کر سی کا برا حال ہے‘ ایک ڈالر کے چار ہزار رئیل مل جاتے ہیں۔ وہاں جا کر روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری کا احساس ختم تو ہ ہوا مگر قدرے کم ضرور ہوا۔ چھوٹے سے چھوٹا وٹ ایک سو رئیل کا ہے۔ سکے دارد ہیں۔ سو رئیل کے وٹ سے کیا چیز خریدی جا سکتی ہے اس کا کم از کم اس دس روزہ دورے میں تو معلوم ہیں ہو سکا البتہ اس وٹ کو لی دی کے بقایا میں اپ ی جیب میں آتے اور واپس جاتے ضرور دیکھا تھا۔ پیزا کمپ ی سے ویجیٹیبل پیزا لیا بل بائیس ڈالر اور پ درہ سی ٹ ب ا۔ پچیس ڈالر دیے ا ہوں ے دو ڈالر اور چو تیس سو رئیل واپس کر دیے۔ تی ہزار ہزار روپے والے اور چار سو سو والے وٹ واپس مل گئے۔ اس کے علاوہ فدوی سو رئیل کا وٹ از خود کہیں استعمال کر ے میں مکمل اکام رہا۔
بڑے سے بڑا وٹ ایک لاکھ رئیل کا ہے۔ اس کے بعد پچاس ہزار رئیل‘ پھر دس ہزار‘ پا چ ہزار‘ دو ہزار‘ ایک ہزار‘ پا چ سو اور آخر کار سو رئیل کے وٹ کی باری آتی ہے۔ اسد سکے اور وٹ جمع کرتا ہے۔ اسے وہاں سے سکے تو ہ مل سکے البتہ وٹ ضرور مل گئے۔ اس ے اپ ے جیب خرچ میں سے وہاں سے دس ہزار رئیل تک کے ئے وٹ جیب میں رکھ لئے۔ سیاحت زوروں پر ہے اور سال میں پچاس لاکھ سے زائد سیاح کمبوڈیا آتے ہیں۔ ا کے طفیل ڈالر دوسری ہیں بلکہ پہلی کر سی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ فو وغیرہ ہاتھ سے چھی کر بھاگ جا ے اور جیب کاٹ ے سے بڑا جرم شاذو ادر ہی ہوتا ہے۔ ام و اما کی صورتحال بہت ہی اچھی ہے‘ خاص طور پر جبکہ وہاں محض پچیس سال پہلے پرائیویٹ ا?رمی اور ذاتی اسلحہ بردار فورس معمول کی بات تھی۔ لیک اب صورتحال بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ گورے ٹورسٹ مہی وں یہاں پڑے رہتے ہیں۔
کبھی پاکستا میں بھی یہی حال تھا۔ ملتا کے عزیز ہوٹل میں گورے سائیکلوں پر‘ موٹر سائیکلوں پر چڑھ کر آتے تھے اور ہفتہ ہفتہ شہر میں گھومتے تھے۔ پھر خدا جا ے کس کی ظر لگی؟ بلکہ سچ تو یہ ہے ادارے ہی برباد ہو گئے۔ اور فی الوقت ا کی بحالی کی کوئی صورت ظر ہیں آ رہی۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔
(بشکریہ:روز امہ د یا)
فیس بک کمینٹ