سہانوک ویل کمبوڈیا کا ساحلی شہر ہے اور دارالحکومت نام پنہہ سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ سوچا ایک دن ادھر بھی گزار لیں۔ یہ ایک دن کا پروگرام تھا لہٰذا نام پنہہ سے علی الصبح سہانوک ویل کے لیے روانہ ہو گئے۔ ناشتہ کر کے ہم سات بجے جب روانہ ہوئے تو راستے میں بازاروں میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ اس چہل پہل سے مراد پاکستان والی چہل پہل نہیں کہ صرف بیکریاں‘ جنرل سٹور‘ تنور اور چنے بیچنے والوں کے طفیل بازاروں میں رونق دکھائی دے رہی ہو۔ ہر قسم کی دکانیں کھل چکی تھیں۔ فرنیچر والے‘ کپڑے والے‘ موبائل فون والے‘ جوتوں کی دکانیں‘ مشینری سٹور‘ ہارڈویئر کی دکانیں‘ رنگ روغن والے غرض ہر قسم کی دکانیں ناصرف کھل چکی تھیں ‘بلکہ ان پر خریداری بھی شروع تھی۔
میں ایک دن غلطی سے ساڑھے گیارہ بجے ملتان کے الرحمن پلازہ میں اپنے موبائل فون کا چارجر خریدنے چلا گیا۔ وہاں میں ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں ایک ہی د±کان سے خریدتا ہوں۔ دکاندار شریف آدمی ہے اور نا صرف یہ کہ قیمت مناسب لگاتا ہے‘ بلکہ ایک نمبر اور دو نمبر چیز کا بھی بتا دیتا ہے۔ عموماً میں یہ خریداری دفتر سے گھر جاتے ہوئے کرتا ہوں۔ اس روز میں پہلے ادھر چلا گیا۔ میرا خیال تھا کہ ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں۔ سورج کو نصف النہار پر پہنچنے میں آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ پلازہ میں پہنچا تو سارا پلازہ بند تھا۔ گمان گزرا شاید پلازے کی یونین کا کوئی عہدیدار خود یا اس کا کوئی قریبی عزیز وفات پا گیا ہے اور اس کے سوگ میں پلازہ بند ہے‘ ممکن ہے سب لوگ نماز جنازہ میں شرکت کے بعد آ کر دکانیں کھولیں گے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دکان کھلی ہوئی ہے۔ میں نے اندر جا کر دکاندار سے پوچھا بھائی! خیریت ہے؟ سارا پلازہ بند پڑا ہے۔ وہ کہنے لگا خیریت ہے اور بالکل خیریت ہے۔ پلازہ بس ابھی کھلنا شروع ہو رہا ہے۔ بارہ ساڑھے بارہ بجے تک سارا کھل جائے گا۔ میں نے واپسی پر اپنی مخصوص دکان سے چارجر خریدتے ہوئے دکاندار سے پوچھا۔ حافظ جی! میں دوپہر ساڑھے گیارہ بجے آیا تھا دکان بند تھی۔ آپ دکان جلد کیوں نہیں کھولتے؟ کہنے لگا۔ سر جی! میں تو جلدی کھولتا ہوں۔ پورے پونے بارہ بجے میری دکان کھل جاتی ہے۔ باقی لوگ تو بارہ بجے کے بعد کھولتے ہیں۔ میں نے کہا آپ لوگ صبح دکانیں کیوں نہیں کھولتے؟ کہنے لگا۔ گاہک ہی بارہ بجے کے بعدآنا شروع کرتے ہیں۔ میں نے کہا اگر آپ دکانیں جلد کھولیں تو گاہک بھی جلد آ جائے گا۔ کہنے لگا۔ نہیں سر جی! گاہک دیر سے ہی آئے گا۔ میں نے کہا دنیا بھر میں گاہک جلدی کیسے آ جاتا ہے؟ کہنے لگا: سر جی! مجھے کیا پتا؟ میں نے کونسی دنیا دیکھی ہے؟ یہ کہہ کر چارجر اس نے میرے ہاتھ پکڑایا اور بات ختم کر دی۔
میرے ایک دوست کی مانچسٹر میں دکان ہے۔ موبائل فونز کی یہ دکان انہوں نے کونسل سے کرائے پر لے رکھی ہے۔ ایک بار دوست کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی اور دکان صبح کھولنے کی ذمہ داری اس نے اپنے بھانجے کے سپرد کر دی۔ یہ بھانجا اس کی دکان پر اس کے ساتھ کام کرتا تھا اور دکان کھلنے کے پندرہ بیس منٹ یا آدھ گھنٹہ بعد آتا تھا۔ دکان کھولنے کی یہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے بھی اس نے بیس منٹ آدھا گھنٹہ لیٹ آنے کی اپنی روایت برقرار رکھی۔ تین دن بعد کونسل کا اہلکار دکان پر آیا اور اس نے ایک عدد نوٹس انہیں تھما دیا کہ آپ گزشتہ تین دن سے دکان روزانہ آدھا گھنٹہ تاخیر سے کھول رہے ہیں۔ اس سے آپ کی دکان پر صبح وقت پر آنے والے گاہکوں کو بڑی پریشانی ہو رہی ہے۔ آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ کل سے دکان بروقت کھولیں بصورت دیگر کونسل آپ کی دکان کی الاٹمنٹ کینسل کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ آپ کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ آپ کی تاخیر کے با عث گاہکوں کو تکلیف ہو۔
ایک زمانے میں ملتان میں کینٹ بازار دس بجے کھلتا تھا اور باقی بازار نو بجے کھلنا شروع ہو جاتے تھے آہستہ آہستہ دکانیں کھلنے کا وقت آگے کھسکتا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سارا شہر ہی گیارہ بجے کے بعد کھلنا شروع ہوتا ہے اور رات گئے تک کھلا رہتا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ میں لوگ علی الصبح کام پر چلے جاتے ہیں۔ خواہ وہ دفتر ہو یا دکان۔ کاروبار ہو یا ملازمت۔ سب لوگ صبح جلد کام شروع کر دیتے ہیں اور دن ڈھلنے سے قبل گھر روانہ ہو جاتے ہیں۔ چند بازار ایسے ہوتے ہیں جو رات کو رونق کا سبب بنتے ہیں وگرنہ عام مارکیٹیں‘ سٹی سنٹر اور عمومی دکانیں شام پانچ بجے بند ہو جاتی ہیں۔ دکانوں کے سامنے گرے ہوئے چپس وغیرہ کو کھانے کے لیے کبوتر اور پرندے مزے سے مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہمارے دکاندار کا خیال ہے کہ شاید گاہک اس کی مالی امداد کی خاطر آتا ہے‘ اس لیے اسے اس کی آسانی والے اوقات میں دکان کھولنی چاہئے۔ اسے یہ اندازہ نہیں کہ گاہک نے اپنی مجبوری کے تحت آنا ہے اگر وہ دکان جلد بند کرے گا تو گاہک اپنی ضرورت کی شے لینے کے لیے اس کی دکان کے طے شدہ اوقات کار کے مطابق بھاگم بھاگ آئے گا۔ خریداری کے اوقات کا تعین گاہک نہیں‘ دکاندار کرتا ہے لیکن ہمیں یہ بات بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ اوقات کار کی اس خرابی نے ہمارے سارے معاشرتی تعلقات اور سوشل فیبرک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ دکاندار‘ کاروباری طبقہ رات گئے گھر جاتا ہے جب سب گھر والے سو چکے ہوتے ہیں۔ بچے علی الصبح سکول چلے جاتے ہیں والد گرامی ابھی سو رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کے سکول کالج سے آمد سے تھوڑی دیر قبل والد صاحب کام کو روانہ ہو جاتے ہیں‘ بچے اتوار کو چھٹی کرتے ہیں تو ابا جی جمعہ کو۔ لہٰذا ہفتوں والد اور بچوں کی نہ ملاقات ہوتی ہے اور نہ ایک دوسرے کی شکل دیکھتے ہیں۔
سہانوک ویل کے راستے میں ڈرائیور کہنے لگا کہ سہانوک ویل میں چینیوں نے ہر چیز پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس شہر میں اسی ہزار چینی آ چکے ہیں۔ سارے بڑے ہوٹل یا تو ان کے ہیں یا انہوں نے خرید لیے ہیں۔ سارے پلازے ان کے ہیں۔ نام پنہہ میں بھی اب ساری بڑی بلڈنگیں اور رہائشی پلازے چینی بنا رہے ہیں اور سارا بزنس‘ رئیل اسٹیٹ اور سپر سٹور انہی کے قبضے میں جا رہا ہے۔ عنقریب کمبوڈیا میں کھمیر لوگ چینی سرمایہ داروں کی ملازمت اور چاکری کرتے نظر آئیں گے۔ برما میں بھی وہ یہی کر رہے ہیں اور تھائی لینڈ میں بھی۔ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگا پاکستان میں کیا حال ہے؟ کیا وہاں چینی جائیدادیں اور کاروبار خرید رہے ہیں۔ میں نے کہا نہیں ابھی ایسی نوبت نہیں آئی۔ پھر وہ پوچھنے لگا کیا چینی بینک ا?پ لوگوں کو بھی قرضے دے رہے ہیں؟ میں نے کہاں ہاں دے رہے ہیں۔ لیکن لوگوں کو براہ راست نہیں۔ گورنمنٹ کو دے رہے ہیں اور گورنمنٹ کے پراجیکٹس کو قرضے دے رہے ہیں۔ ڈرائیور کہنے لگا۔ آپ دیکھ لینا وہ آپ کو ان قرضوں میں پھنسا کر آپ کی ساری چیزیں ہتھیا لیں گے۔ یہ چینی بڑے ظالم اور چالاک ہیں۔ یہ صرف اپنے مطلب کے دوست اور غرض کے بندے ہیں۔ پہلے کمبوڈیا پر فرانس کا قبضہ تھا۔ وہ قبضہ فوجی قبضہ تھا۔ ہم نے چھڑوا لیا۔ پھر ہم پر ویت نام والوں نے قبضہ کر لیا۔ ہم نے کئی سال کی جنگ کے بعد وہ قبضہ بھی چھڑوا لیا لیکن یہ جو اب چینی یہاں قبضہ کر رہے ہیں۔ ہم کھمیر اس ملک کے حاکم ہیں لیکن یہ چینی ہمارے بھی حاکم ہو جائیں گے۔ ہم اپنی زمینیں انہیں دے رہے ہیں۔ گھر بیچ رہے ہیں۔ وہ یہاں فیکٹریاں لگا رہے ہیں۔ ہوٹل اور پلازے بنا رہے ہیں۔ ہمارے لوگ پاگل ہیں۔ زیادہ قیمت کی لالچ میں اپنا ملک چینیوں کے سپرد کرتے جا رہے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے حکمرانوں سے زیادہ تو یہ ڈرائیور زیرک ہے کہ اسے ان نئے استعماری حربوں کا احساس ہے۔ ہمارے جلد باز اور عاقبت نااندیش حکمران‘ بیورو کریٹ اور معاشی ماہر سارے کے سارے غیر ملکی سرمایہ کاری‘ قرضوں کے حصول‘ بڑے منصوبوں کی تکمیل اور سی پیک کے چکر میں معاہدوں کو پڑھے بغیر اور اپنے مفادات کے تحفظ سے لاپرواہ ہو کر دستخط کیے جا رہے ہیں۔ چین اپنے قرض کی نادہندگی کے عوض افریقی ملک زمبیا کے دارالحکومت لوساکا کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا کنٹرول سنبھال چکا ہے‘ سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹوٹا (Hambantota) بھی قرض کی ادائیگی کی مد میں چین کے حوالے کی جا چکی ہے۔ ہم بھی انتہائی مہنگے سودی قرضوں کے خوش رنگ چینی جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ اللہ جانے ہمارا کیا بنتا ہے؟
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ