چند دن پہلے دنیا بھر کی اقوام کی خوش باشی‘ یعنی Happiness کی درجہ بندی نظر سے گزری۔ اس درجہ بندی میں پہلے تین ممالک سیکنڈے نیویا کے تھے۔ پہلے نمبر پر فن لینڈ‘ دوسرے پر ناروے اور تیسرے پر ڈنمارک تھا۔ سیکنڈے نیویا کا چوتھا ملک سویڈن نویں نمبر پر تھا۔پہلے دس ممالک کی فہرست میں دیگر چھ ممالک آئس لینڈ‘ سوئٹزرلینڈ‘ نیدر لینڈ‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا تھے۔ مسلم ممالک میں پہلا خوش باش ترین ملک متحدہ عرب امارات تھا۔ اس کا اس فہرست میں بیسواں نمبر تھا۔ قطر 32ویں اور سعودی عرب 33ویں نمبر پر تھا۔ ہمارا مقام اس فہرست میں 75ویں نمبر پر تھا۔
پاکستان 75ویں نمبر پر ہونے کے باوجود اس خطے کے سب سے خوش باش لوگوں پر مشتمل ملک تھا۔ ہمارے بعد بھوٹان کا نمبر تھا۔ اس فہرست میں اس کا نمبر ستانوے تھا‘ پھر درجہ بندی کے حساب سے نیپال کا نمبر ایک سو ایک‘ ایران کا ایک سو چھ‘ بنگلہ دیش کا ایک سو پندرہ‘ سری لنکا کا ایک سو سولہ اور بھارت کا نمبر ایک سو تینتیس تھا۔ نیپال‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور بھارت وغیرہ کو اس درجہ بندی میں اپنے سے نیچے دیکھنے کی اتنی خوشی ہوئی کہ اپنے 75 نمبر پر ہونے کا سارا ملال اڑن چھو ہو گیا۔ تب اندازہ ہوا کہ دراصل ہماری اسی قسم کی خوشیوں نے ہمیں اس خطے میں پہلا نمبر اور مجموعی طور پر 75واں نمبر عطا کروایا ہے ‘وگرنہ تو ہم کہیں اور بھی نیچے چلے جاتے۔
خوش رہنے کا کیا معیار ہے؟ خوشی دراصل کس پرندے کا نام ہے؟ کیا خوشی کا معیار دستیاب پیسہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو فن لینڈ پہلے کی بجائے چوبیسویں نمبر پر ہوتا اور قطر بیسویں کی بجائے پہلے نمبر پر ہوتا۔ ایران اور بھارت ہم سے زیادہ خوش باش لوگوں پر مشتمل ممالک ہوتے اور ہم 75 کی بجائے ایک 134 ویں نمبر پر ہوتے کہ دنیا میں فی کس آمدنی کے حساب سے بننے والی فہرست تو یہی کہتی ہے۔
میرے چند قارئین ‘اس بات پر بسا اوقات اعتراض کرتے ہیں کہ میں سفر کے دوران کالم کم اور سفرنامہ زیادہ لکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میرے ان قارئین نے شاید کبھی سفرنامے نہیں پڑھے ‘وگرنہ وہ ایسی بات نہ کہتے‘ بلکہ میرے ایک قاری نے تو گزشتہ سے پیوستہ والے کالم ”ریل کی سیٹی اور دل لہو سے بھر گیا‘‘ کو بھی سفرنامہ قرار دے دیا؛ حالانکہ میں اس پورے کالم میں ملتان سے باہر نہیں نکلا‘ بلکہ ملتان بھی کیا؟ اپنے چوک شہیداں والے محلے اور ملتان کے سٹی ریلوے سٹیشن کی حدود سے پار نہیں گیا۔ صرف آخری پیرے میں ایک سطر تھی کہ یہ سب کچھ مجھے ٹولیڈو میں ریل کی سٹی سن کر یاد آیا۔ صرف ایک سطر کی بنیاد پر سفرنامے کا الزام اور قاری کا غصہ دیکھ کر بالکل یقین نہیں آتا کہ ہم خطے کی سب سے خوش باش قوم ہیں ‘لیکن صرف ایک قاری کے غصے کی بنیاد پر اس فہرست کو چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اب ‘اگر میں عوامی سطح پر خوش رہنے کے معیار کو اپنی نظروں سے دیکھوں اور اس کا موازنہ دوسری اقوام سے کروں ‘تو بھلا اس موازنے کو سفر نامہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ موازنہ ظاہر ہے انہی اقوام سے‘ ممالک سے اور لوگوں سے ہو سکتا ہے‘ جن کو آپ نے دیکھا ہوتا ہے۔ جو آپ کا تجربہ ہوتا ہے اور ایمانداری کی بات ہے کہ میرا تجربہ اور مشاہدہ کچھ اور ہی کہتا ہے۔ ممکن ہے ‘میں غلط ہوں۔ اپنے تجزیے اور اس سے حاصل ہونے والے نتیجے میں مجھ سے کہیں غلطی ہوئی ہو۔ میرا خوشی ماپنے کا پیمانہ ہی سرے سے غلط ہو‘ لیکن میرے خیال میں خوش باش ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کی یہ خوشی دوسروں کے لئے راحت کا باعث بنے۔ آپ کی خوش باشی کا اثر دوسرے لوگوں پر پڑے۔ آپ کی خوشی سے آپ کے اردگرد والے لوگ بھی استفادہ کریں۔ آپ کی خوشی روشنی کی مانند ہو‘ جو اپنے قرب و جوار کو بھی منور کرے اور دوسرے لوگ بھی آپ کی خوشی سے مستفید ہوں۔ بصورت ِدیگر یہ خوشی نہیں‘ خودغرضی ہے۔
لوگ ایک دوسرے کو دعا دیتے ہوئے آج کل ایک جملہ بڑے دعائیہ انداز میں کہتے ہیں ”اپنا خیال رکھیے گا‘‘۔ اللہ کے بندو! اپنا خیال تو ہر کوئی رکھتا ہے۔ بھلا اسے مزید تاکید کی کیا ضرورت ہے؟ اسے اس یاددہانی کا کیا تک بنتا ہے؟ اسے کہا یہ جائے کہ بھائی! دوسروں کا خیال رکھئے گا۔ نیکی بھی یہی ہے اور بھلائی بھی یہی ہے۔ بھلا کون ہے‘ جو اپنا خیال نہیں رکھتا؟ معاشرے صرف اپنا خیال رکھنے سے انسانیت کی منزلیں طے نہیں کرتے‘ بلکہ دوسروں کا خیال رکھنے سے پروان چڑھتے ہیں۔یہی حال خوشی کا ہے۔
میں پاکستان میں عمومی عوامی رویے کا موازنہ جب ان ممالک کے عمومی عوامی رویے سے کرتا ہوں ‘جنہیں ہم عرف عام میں ”عالم کفر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اخلاقیات سے عاری معاشرہ قرار دیتے ہیں تو مجھے اپنے خواہ مخواہ کے تفاخر پر حیرت ہوتی ہے۔ دوستوں کے ہمراہ امریکہ کے طول و عرض میں بہت زیادہ سفر کیا ہے۔ ان گنت جگہوں پر ٹال ٹیکس ادا کیا ہے۔ بذریعہ مشین ادائیگی کی تو بات علیحدہ ہے‘ جہاں جہاں ٹال وصول کیلئے کوئی مرد یا خاتون موجود تھی‘ ٹال وصول کرتے ہوئے ہمیشہ مسکرا کر بات کرتے دیکھا۔ بقایا وصول کرتے ہوئے یا ویسے ہی رخصت ہوتے وقت کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ اس نے الوداعی جملہ Have a nice day نہ کہا ہو۔ یہی حال دکانوں پر ڈیپارٹمینٹل سٹورز کے کائونٹرز پر کھڑی سیلز گرلز کو‘ رقم وصولی کے پوائنٹس پر کھڑے مردوخواتین کو ہمیشہ مسکرا کر گاہکوں سے بات کرتے دیکھا۔ کبھی کسی کو بیزار شکل‘ اوازار رویے یا ناخوشگوار صورت کے ساتھ پبلک کے ساتھ پیش آتے نہیں دیکھا۔ جوابی طور پر میں نے بارہا ملتان تا لاہور پانچ عدد ٹال ٹیکس مقامات‘ خانیوال‘ میاں چنوں‘ ہڑپہ‘ اوکاڑہ اور پتوکی ٹال ٹیکس کی ادائیگی کرتے وقت وہاں وصولی پر بیٹھے ہوئے شخص کو کبھی مسکراتے ہوئے ٹال ٹیکس دینے والے سے بات کرتے یا دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مسکرانا تو ایک طرف رہا‘ سدا بیزار اور ناراض دیکھا۔ یہی حال سٹورز پر کام کرنے والوں کا دیکھا۔ یہی صورتحال سرکاری دفتروں میں دیکھی۔ یہی رویہ پرائیویٹ اداروں میں نظر آیا۔ پٹرول پمپ پر کام کرنے والے سے لے کر بینک کے کیشئر تک۔ سرکاری دفتر کے کلرک سے لے کر اکیس بائیس گریڈ کے افسر تک۔ کبھی کسی کو باقاعدہ مسکرا کر بات کرتے نہیں دیکھا ‘علاوہ اس کے وہ آپ کا کوئی ذاتی دوست ہو یا اسے آپ سے کوئی کام ہو۔ انشورنس ایجنٹ اور پراپرٹی ڈیلر کی بات؛ البتہ دوسری ہے۔
خوشی کیا ہے؟ خوشی وہ کیفیت ہے ‘جو نا صرف آپ کو ‘بلکہ آپ کے اردگرد والوں کو اس کا احساس دلائے اور اس میں شریک کرے۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہے؟ دراصل ہمارے ہاں کی بے حسی کو بھائی لوگوں نے خوشی سمجھ لیا ہے۔ ہم سانحہ ساہیوال کو بھول جاتے ہیں۔ ماڈل ٹائون کا واقعہ لگتا ہے‘ صرف طاہر القادری کا مسئلہ تھا۔ سانحہ بلدیہ ٹائون کسی کو یاد نہیں اور حکمرانوں کو اب اس کے ذمہ داران نفیس آدمی لگنے لگ گئے ہیں۔ کسی کو بارہ مئی کا حساب لینا یاد نہیں۔ اسی قسم کے بے شمار واقعات ہیں ‘جس پر ہمارا رویہ ہے کہ ”سانوں کیہہ؟‘‘ (ہمیں کیا؟) اگر یہی رویہ ‘‘سانوں کیہہ؟‘‘ خوشی کا پیمانہ ہے تو پھر ہمیں خوش باش اقوام کی فہرست میں پہلا نمبر ملنا چاہئے تھا‘75واں نہیں۔
گزارش ہے کہ فہرست درست کی جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ