گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک دوست سے کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ میرا یہ دوست سیاستدان ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے موجودہ اسمبلی میں ایم این اے ہے۔ حلقہ اور نام رہنے دیں۔ پس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگا :کوئی نئی تازی سناؤ؟ یہ ہم چھوٹے شہروں والوں کا پسندیدہ جملہ ہے کہ ”کوئی نئی تازی سناؤ‘‘۔ ممکن ہے بڑے شہروں والے بھی یہی کہتے ہوں‘ مگر کیونکہ میں نے یہ جملہ ہمیشہ اپنے پسماندہ علاقہ والوں کے منہ سے ہی سنا ہے‘ اس لئے میں اسے اپنے اور اپنے جیسے علاقے والوں کا جملہ سمجھتا ہوں۔ ہماری ہر بات کی بات اسی جملے سے شروع ہوتی ہے ‘ تھوڑا وقفہ آ جائے تو گفتگو کا دوبارہ آغاز بھی اسی جملے سے کرتے ہیں۔
ویسے تو پوری قوم کو نئی تازی سننے کا شوق ہے‘ لیکن ادھر جنوبی پنجاب میں ہم لوگوں کو نئی تازی سننے کا شوق بدرجہ اتم ہے۔ وہ ایم این اے بہرحال سیاستدان تھا‘ الٹا مجھ سے کہنے لگا کہ تم کوئی نئی تازی سناؤ؟ میں نے کہا: میں نے نئی تازی کیا سنانا ہے؟ ایک سوال ہے ‘جو میں کافی عرصے سے اٹھائے اٹھائے ‘پھر رہا ہوں اور موقع ملنے پر تم جیسے واقف ِحال سے پوچھنے کی کوشش کرتا ہوں‘ لیکن تاحال اس سوال کا کوئی مسکت جواب نہیں مل سکا۔ سو ‘میرا سوال ابھی تک تشنہ ہے اور تب تک تشنہ ہی رہے گا‘ جب تک اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں مل جاتا۔ وہ دوست کہنے لگا: سوال کیا ہے؟ میں نے کہا: سوال بڑا سادہ ہے اور بڑا گھسا پٹا ہوا بھی ہے مگر کیونکہ اس کا ابھی تک کوئی ایسا جواب نہیں مل سکا جس سے تسلی ہو‘ لہٰذا یہ سوال بوسیدہ‘ گھسا پٹا اور پرانا ہونے کے باوجود اصل میں ابھی تک بالکل نیا نکور ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان نے عثمان بزدار کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ کیوں بنایا؟ اس کی کوئی خاص وجہ؟ اور کیا پورے صوبے کی اسمبلی میں کوئی اور اس قابل نہیں تھا کہ وزارت علیہ کا بھاری پتھر اس جان ناتواں کے کندھوں پر لاد دیا؟۔
وہ دوست مسکرایا اور کہنے لگا: میں اس سوال کا جواب بعد میں دوں گا‘ پہلے آپ یہ بتائیں کہ آخرگزشتہ نو ماہ سے آپ یہ سوال کئی لوگوں سے‘ بلکہ شاید بے شمار لوگوں سے ضرور کر چکے ہوں گے‘ تاہم اس سوال اور اس کے جواب سے قطع نظر آپ نے بھی تو کوئی اندازہ لگایا ہوگا۔ آپ کا بھی کوئی تھیسس ہوگا۔ آپ نے بھی اس انتخاب کا جائزہ لیا ہوگا‘ کوئی تجزیہ کیا ہوگا اور کوئی نتیجہ اخذ کیا ہوگا۔ آپ نے اب تک کیا اندازہ لگایا ہے اور کیا نتیجہ نکالا ہے؟ میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے کہا: آپ آخر کار سیاستدان ہیں اور سنگل سوال کا جواب دینے کی بجائے اسے گھما پھرا کر پھر میرے ہی گلے ڈال رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا: میں صرف آپ کا تجزیہ سننا چاہتا ہوں۔ آپ کے تجزیے کے بعد میں اپنا اندازہ جو کسی حد تک دیکھنے اور سننے کے بعد قائم کیا گیا ہے‘ آپ کے گوش گزار کر دوں گا۔
میں نے کہا: میں نے اس سوال کے درجنوں جوابات سنے ہیں‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ کوئی ایک جواب بھی دل کو نہیں لگا۔ خود عمران خان صاحب کی اس سلسلے میں دی گئی دلیلیں نہایت ہی بودی اور کمزور ہیں۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ پسماندہ علاقے سے ہے‘ کوئی ایسی خوبی نہیں‘ جو صرف اور صرف عثمان بزدار میں ہو۔ پورا جنوبی پنجاب پسماندہ علاقہ ہے‘ لیکن اس پسماندہ علاقے میں بھی کافی گوہر قابل موجود ہے۔ اب ضروری نہیں کہ پسماندہ علاقے سے کسی فارغ قسم کے شخص کا انتخاب کر لیا جائے۔ جنوبی پنجاب سے کافی پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ نکھری ہوئی شخصیت والے ایسے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد درجن بھر کے لگ بھگ ہے ‘جو اس عہدے کے لئے بزدار صاحب سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ مناسب تھے۔ سو‘ صرف پسماندہ علاقے سے تعلق کی بنا پر ایسا انتخاب سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔ دوسری بات یہ کہی کہ بزدار صاحب کے گھر بجلی نہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ چیز کوئی خوبی نہیں ‘باقاعدہ خرابی ہے‘نقص ہے‘ نااہلی ہے اور نالائقی ہے کہ ایک ایسا شخص‘ جس کا والد دو بار علاقے سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوا ہو۔ وہ خود دو بار اس تحصیل کے ٹرائبل علاقے کا تحصیل ناظم رہا ہو اور اپنے گھر بجلی نہ لگوا سکے‘ بھلا اس نے مخلوق ِخدا کے کام کیسے کروانے ہیں؟
میرا ذاتی اندازہ ہے کہ عمران خان نے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ منتخب کرتے ہوئے صرف ایک چیز دیکھی کہ پنجاب کا حکمران‘ یعنی وزیراعلیٰ عملی طور پر پاکستان کے حکمران ‘یعنی وزیراعظم سے زیادہ تگڑا ہوتا ہے۔ یہ بات میاں نواز شریف اپنی وزارتِ عالیہ کے دوران ثابت کر چکے ہیں ‘جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور صوبے میں ان کی حکومت تھی اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کو عملی طور پر بالکل بے بس کر کے رکھ دیا ہوا تھا کہ مرکز کی حکمرانی بے شمار معاملات میں فیض آباد سے آگے ختم ہو جاتی اور عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کا پاکستان میں سیاسی بیس پنجاب ہے ۔میاں نواز شریف اسی بیس سے اٹھ کر اسلام آباد پہنچے اور اپنی طاقت کے اصل محور پنجاب کو اپنے برادرِ خورد کے حوالے کر کے اسے گھر میں ہی رکھا۔ عمران خان پنجاب کسی ایسے ”پوٹینشل‘‘ سیاسی لیڈر کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے‘ جو کل کلاں ایک متبادل قیادت کے طور پر سامنے آ سکے اور عوامی پذیرائی کے حوالے سے عمران خان کی شخصیت کے علاوہ تحریک انصاف میں کوئی دوسرا شخص ابھر کر سامنے آ سکے۔ سو‘ انہوں نے پنجاب کے لئے ایک ایسے ہومیو پیتھک قسم کے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا کہ جو نہ ذاتی طور پر کچھ ڈلیور کر سکے اور نہ ہی کوئی اپنی ذاتی شخصیت کا تاثر قائم کر سکے۔ متبادل قیادت کو ایک طرف‘ اس شخص میں ریموٹ کنٹرول ڈیوائس جیسی ساری خصوصیات ہوں اور وہ اسے اسلام آباد سے بذریعہ بٹن کنٹرول کر سکیں۔ یہ خصوصیات دو چار اور لوگوں میں بھی ہوں گی‘ مگر بہرحال ان کے سامنے فوری طور پر عثمان بزدار کو پیش کیا گیا اور انہوں نے اس کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھا دیا۔
وہ دوست مسکرایا اور کہنے لگا: آپ کا تجزیہ کسی حد تک درست ہے ‘لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ خان صاحب‘ شاہ محمود قریشی کو کسی صورت میں بھی پنجاب کی وزارت عظمیٰ نہیں دینا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں پارٹی کو گروپنگ وغیرہ سے بچانے کے لئے کسی ایسی شخصیت کی ضرورت تھی ‘جس کا اپنا کوئی ذاتی گروپ نہ ہو اور نہ ہی وہ گروپ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو‘ نہ اس کی کوئی ذات حیثیت ہو اور نہ ہی شخصیت کہ وہ اپنا ذاتی گروپ تشکیل دے سکے اور پارٹی میں پنجاب کے حکمران کے حوالے سے کوئی گروپنگ ہو ‘جیسی کہ پارٹی میں نمبر ٹو بننے کے لئے جہانگیر ترین اور شاہ محمود میں موجود ہے اور یہ کشمکش اب اندر سے نکل کر باقاعدہ باہر آ گئی ہے اور پارٹی اس رسہ کشی سے متاثر ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں اب ایک کمیٹی بنائی گئی ہے‘ جو اس معاملے کو ختم کروائے گی۔
میں نے کہا: لیکن شاہ محمود قریشی کی وزارت ِعظمیٰ کو تو سلمان نعیم نے چلتا کر دیا تھا اور قریشی صاحب تو صوبائی اسمبلی کے رکن ہی نہ بن پائے۔ وہ مسکرا کر کہنے لگا: اس بندوبست میں بھی کہیں سے اشارہ شامل تھا ‘لیکن بعد ا زاں بھی ریموٹ کنٹرولڈ وزیراعلیٰ بنا کر خان صاحب نے شاہ محمود قریشی کو یہ پیغام پہنچایا کہ پنجاب میں اس قسم کا وزیراعلیٰ درکار ہے‘ نہ کہ کوئی اقتدار اور اختیار کا شوقین شخص۔
سو‘ اس سلسلے میں خان صاحب نے سب کی تسلی کروا دی ہے۔ میں نے کہا: اس تھیسس میں درجن بھر نقصائص ہیں ‘مگرفی الحال اس پر بحث کی بجائے ایک سوال اور… اور وہ یہ کہ فردوس عاشق اعوان کی بطورِ معاون خصوصی وزیراعظم برائے اطلاعات و نشریات تعیناتی کے پیچھے کیا راز ہے؟۔
وہ مسکرا کر کہنے لگا: وہ پتلی گلی میں سے آئی ہیں اور انہیں چوڑی سڑک والوں نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا :آخر کس خصوصیت کی بنا پر یہ انتخاب ہوا ہے؟ وہ کہنے لگا اسے چھوڑیں۔ میں بتا نہیں سکتا اور آپ لکھ نہیں سکتے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اب اور کوئی نئی تازی سنائیں!
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ