کل ایک دوست نے سوال کیا۔ سوال کیا تھا؟ یہ بعد میں سہی۔ اس سوال سے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ یہ واقعہ برادر عزیز امجد اسلام امجد نے سنایا۔ مقبول و معروف شاعر مشاعرے میں مشاعرہ لوٹتا ہے اور دوستوں کی محفل میں پوری محفل۔ امجد اسلام امجد کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ان دونوں کاموں میں سے زیادہ بہتر کام کون سا کرتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی انہوں نے ہی سنایا تھا۔ ممکن ہے‘ لکھتے ہوئے کوئی تفصیل ویسے بیان نہ کر سکوں‘ جیسی امجد صاحب نے سنائی تھی کہ بات کرنا اور قصہ بیان کرنا اپنی جگہ پر ایک علیحدہ فن ہے اور یہ عاجز اس میں کچھ خاص علاقہ نہیں رکھتا ۔اس لیے ساری کمی بیشی کا ذمہ دار یہ عاجز ہوگا۔
ایک گلوکار تھا۔ اب اس کا نام کیا لکھنا‘ مرحوم ہو چکے ہیں‘ اس لیے جانے ہی دیں تو بہتر ہے؛ اگر زندہ ہوتا تو نام لکھنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا‘ مگر اب کچھ مناسب نہیں لگتا‘ لیکن نام نہ لکھنے سے بھی‘ چونکہ اصل بات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ اس لیے نام نہیں لکھ رہا۔ خیر گلوکار صاحب خود بھی درمیانے درجے کے گلوکار تھے‘ لیکن تمکنت کا یہ عالم کہ اپنے سامنے کسی کو کچھ جانتے ہی نہیں تھے۔ جس گلوکار کا ان کے سامنے نام لیں ‘چار فنی نقص تو ایک جملے میں نکال دیتے تھے۔ کسی نے بڑے غلام علی خان صاحب کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا :استاد جی! بڑے غلام علی خان صاحب کیسے گلوکار تھے؟ آگے سے استاد جی نے اپنی انگلیاں چومیں‘ پھر بڑے غلام علی خان صاحب کی شان میں دو چار قصیدے پڑھے کہ استاد جی کیا گلوکار تھے؟ تان سین کے بعد برصغیر پاک و ہند میں ان جیسا اور ان سے بڑا گلوکار پیدا ہی نہیں ہوا۔ گلے میں کیا سُر اور سوز تھا۔ کلاسیکی موسیقی میں ان جیسا کوئی دوسرا شخص اب پیدا ہونا نا ممکن ہے۔ پھر دو چار فنی اصطلاحات کا ذکر کیا (یہ میری موسیقی بارے کم علمی ہے کہ میں ان فنی اصطلاحات کو یاد نہیں رکھ سکا‘ تاہم امجد صاحب نے بیان کی تھیں) پھر ایک بار پھر احتراماً اپنے ہاتھوں کو چوما اور بڑے غلام علی خان صاحب کے درجات کی بلندی اور آخرت کی بہتری کے لیے دعا کرنے کے بعد کہنے لگے:باقی سب باتیں ٹھیک ہیں۔ کوئی انسان بھی سو فیصد مکمل نہیں ہوتا ‘سوائے اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کے۔ بڑے غلام علی خان صاحب کا ”انترا‘‘ تھوڑا کمزور تھا (قارئین ! معاف کیجئے گا۔ یہ انترا میں نے خالی جگہ پُر کرنے کی غرض سے لکھ دیا ہے‘ ورنہ مجھے اب یاد نہیں کہ یہاں اصل کیا تھا‘ تاہم یہ موسیقی کا ہی کوئی فنی سقم تھا ‘جو استاد نے بیان کیا)
کسی نے استاد جی سے پوچھا کہ روشن آرا بیگم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ایک بار تو واہ‘ واہ کی گردان کی‘ پھر کہنے لگے :کلاسیکی موسیقی صرف مردوں کی جاگیر سمجھی جاتی تھی‘ لیکن ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم نے صدیوں سے قائم یہ تصور غلط ثابت کر دیا۔ اور دیکھیں نہ کسی معروف موسیقی کے گھرانے سے تعلق اور نہ موسیقی کے کسی مرکز میں پیدائش۔ کلکتے کے ایک نیم معروف موسیقی والے گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ لاہور اور بمبئی (تب ممبئی کا نام بمبئی تھا) رہیں اور آخر کار لالہ موسیٰ میں جا آباد ہوئیں۔ کیا بات تھی ‘روشن آرا جی کی۔ ویسے تو وہ کلاسیکی موسیقی کے ہر پہلو پر دسترس رکھتی تھیں‘ لیکن ٹھمری‘ خیال اور غزل تو ان کے آگے پانی بھرتی تھیں‘ لیکن اللہ مجھے معاف کرے‘ ان کا چوتھا سُر تھوڑا دب جاتا تھا۔ اب بھلا ہم کون سے صاحب کمال گلوکار ہیں؟ کامل ذات بس اللہ کی ہے اور اس نے اپنے پیغمبروں کو بے عیب پیدا کیا۔ ہم گناہ گار کس شمار و قطار میں ہیں؟
کسی نے ملکہ ترنم کا ذکر کیا‘ تو کہنے لگے: ملکہ ترنم جیسی گلوکارہ پھر دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ کیا گاتی تھیں؟ نیم کلاسیکی‘ کلاسیکی‘ گیت‘ غزل‘ کافی‘ فلمی گانے خواہ پنجابی ہوں یا اردو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغربی موسیقی میں جو گانے ملکہ ترنم نے گائے ہیں‘ ان کا نہ کوئی جواب ہے اور نہ کوئی مثال۔ ہماری دنیائے موسیقی میں اور کوئی گلوکار یا گلوکارہ ایسی نہیں گزری‘ جس نے اس قدر ورائٹی میں گایا جتنا کہ ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا ہے۔ ویسی گلوکارہ نہ اب کوئی ہے اور نہ ہماری زندگی میں کوئی دوسری گلوکارہ ان کی مثل ہوگی۔ ایسے فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں‘ لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود بات کروں گا‘ خدا لگتی! اور وہ یہ کہ ملکہ ترنم کی آواز میں بعد ازاں وہ گداز ختم ہو گیا تھا ‘جو ابتدائی دنوں میں ان میں پایا جاتا تھا اور ہر طرح کے گانے گانے کی طفیل ان کا نچلا سر (یہ بھی میں اندازے سے لکھ رہا ہوں‘ ممکن ہے کوئی اور تکنیکی نقص بیان کیا ہو) بالکل ہی ”رہ گیا‘‘ تھا۔ یہ مرحوم گلوکار خود دمے کے مریض تھے۔ ایک بار کسی نے اس مرحوم گلوکار کا ذکر برصغیر کے نابغہ کلارنٹ نواز استاد صادق خان مانڈو صاحب سے کرتے ہوئے پوچھا: استاد جی! آپ نے تو فلاں صاحب کو خود گاتے ہوئے سنا تھا‘ وہ کیسا گاتے تھے؟ مانڈو خان نے ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر کہا کہ ”وہ دمّے والے گلوکاروں میں سب سے بہتر گاتے تھے‘‘۔
کلارنٹ پتلا اور لمبا سا باجہ نما ساز ہے ‘جو اوپر لگے ہوئے بے شمار بٹنوں‘ پتریوں اور نالیوں کے باعث بہت ہی پیچیدہ ہے اور اسے مہارت اور فنکاری سے بجانا بجائے خود ایک بہت مشکل اور ریاضت والا کام ہے۔ استاد صادق خان مانڈو صاحب اس ساز کے بے مثل فنکار تھے اور موسیقی کا بہت بڑا نام تھے۔ استاد مانڈو خان اپنی بذلہ سنجی ‘ جملے بازی اور حاضر جوابی کے لیے بہت ہی مشہور تھے۔ ان کے کئی قصے اور واقعات ایسے ہیں کہ بار بار سننے سے بھی جی نہیں بھرتا اور لطف ایسا دیتے ہیں کہ تا دیر چہرہ مسکرانے کے عمل سے دو چار رہتا ہے۔ کبھی موقعہ ملا تو مانڈو خان صاحب پر ایک پورا کالم لکھوں گا‘ مگر فی الحال ان کا یہ جملہ یاد آ گیا کہ ”وہ دمّے والے گلوکاروں میں سب سے بہتر گاتے تھے‘‘۔ اس ایک جملے میں سب کچھ آ گیا تھا۔
اللہ کرے‘ لوگوں کا اندازہ غلط ثابت ہو اور ہمہ وقت تنقید کرنے والوں کی بات اوپر والے کے ہاں نامقبول ہو۔ یار لوگوں نے موجودہ حکومت کے بارے میں اندازوں اور تبصروں سے بڑھ کر اسے باقاعدہ بددعاؤں کی باڑ پر رکھ لیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس میں کافی سارا ہاتھ تو اس حکومت کے ہر کام بارے ایسی مدت کا اعلان کرنا ہے‘ جو کسی صورت ممکن نہیں۔گزشتہ تیس پینتیس سال کا گند صاف کرنے کے بارے میں سو دن کی مدت کا اعلان کرنا بھلا کہاں کی عقلمندی تھی؟ کیا ایسا کسی صورت ممکن تھا؟ لیکن خان صاحب نے ہوا میں تیر چھوڑ دیا۔ گیارہ اپریل کو عزیزم فیصل واوڈا نے دو ہفتے میں ایک ملین نوکریوں کی بارش کی پھلجھڑی چھوڑ دی۔ ابھی کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا اور عظیم الشان تیل کے ذخیرے کی دریافت کی خوش خبری پھیلا دی اور اب فردوش عاشق اعوان نے بیان جاری کیا ہے کہ عمران خان چند دنوں میں بڑی خوش خبری دیں گے۔
قارئین ! معاف کیجئے بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ ایک دوست نے سوال کیا اور بات جواب کے بجائے مانڈو خان صاحب کے ایک جملے پر چلی گئی اور اس جملے سے پہلے مرحوم گلوکار تک چلی گئی‘ جو بقول مانڈو خان صاحب دمّے والے گلوکاروں میں سب سے بہتر گاتے تھے۔
دوست کا سوال تھا کہ یہ حکومت کیسی جا رہی ہے؟ قبل اس کے کہ میں کوئی جواب دیتا۔ شاہ جی کہنے لگے ” نو ماہ میں خوار و خستہ ہونے میں موجودہ حکومت سب سے بہتر رہی ہے‘‘ اب آپ بتائیں اس جملے پرمانڈو خان کے جملے کا یاد آنا بنتا ہے کہ نہیں؟
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ