ایک جاپانی نے رمضان المبارک کے حوالے سے کسی پاکستانی دوست سے پوچھا کہ یہ رمضان کا مہینہ کیا ہوتا ہے اور آپ لوگوں کے لیے کیسا ہوتا ہے؟ پاکستانی نے کہا: یہ مہینہ ہمارے لیے بڑا مبارک اور متبرک ہے‘ اس ماہ میں ہم صبح سورج نکلنے سے قبل کھانا کھاتے ہیں‘ جسے سحری کہا جاتا ہے اور غروبِ آفتاب پر روزہ کھولتے ہیں۔ روزہ کھولنے پر کھانے کو افطاری کہتے ہیں۔ اس دوران سارا دن کوئی چیز نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں۔ جاپانی نے پوچھا: آپ صرف کھانے کا ”فاقہ‘‘ کرتے ہیں؟ پاکستانی نے جواب دیا: نہیں! اس دوران ہم پورا ماہ جھوٹ نہیں بولتے‘ دھوکہ نہیں دیتے‘ بے ایمانی نہیں کرتے‘ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور غریب رشتہ داروں‘ عزیزوں اور یتیموں کی مدد کرتے ہیں۔ جاپانی نے تعریفی انداز میں سر ہلایا اور کہنے لگا: آپ کتنے خوش قسمت ہیں کہ آپ یہ سارے کام سال میں ایک ماہ کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سب کچھ سارا سال کرنا پڑتا ہے۔
جاپانی کا رد عمل اپنی جگہ‘ مگر مجھے اس ماہِ مقدس کے بارے میں پاکستانی کے جھوٹ پر حیرت ہے۔ ہم اس ماہ میں شاید (انفرادی معاملات کو چھوڑ کر) سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ سب سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ منافع خوری کرتے ہیں‘ سب سے زیادہ دھوکہ دہی کرتے ہیں اور حد سے زیادہ بے ایمانی کرتے ہیں۔ شیطان کو رمضان میں بند کر دینے کا معاملہ یہ ہے کہ اس برکتوں اور رحمتوں والے مہینے میں اللہ رحمان و رحیم ہم پر اتنی برکتوں اور رحمتوں کی نوید دیتا ہے کہ ان کے حصول کی خاطر کوئی مسلمان گناہ کا سوچ ہی نہیں سکتا اور اللہ کی ان خاص رعایتوں سے بھرپور استفادہ کرے گا۔ ایسے میں شیطان مردود عملی طور پر بیکار ہو جائے گا۔ شیطان کا قید ہونا دراصل ہماری نیتوں اور اعمال سے براہ راست جڑا ہوا ہے‘ جو اس ماہِ مبارک میں ہمارے لیے اتنی آسان اور سادہ بنا دی گئی ہیں کہ ہر کوئی ان سے مستفید ہو سکتا ہے؛ بشرطیکہ وہ ایسا کرنا چاہے۔ کیا ہم ایسا کرنا چاہ رہے ہیں؟
گزشتہ روز ضلعی حکومت کی جانب سے سبزیوں اور پھلوں کا نرخنامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ نرخ نامے کی ایک عدد تصویر لی اور اس کا موازنہ کرنے کی غرض سے بازار کا رخ کیا۔ کسی چیز کی قیمت وہ نہیں تھی جو سرکاری نرخنامے میں درج تھی۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘ ایک چیز بھی ایسی نہیں تھی‘ جو سرکاری ریٹ کے مطابق فروخت ہو رہی ہو۔ نہ پھل اور نہ سبزی۔ میں اس سروے‘ جمع خریداری کے لیے فاروق پورہ بازار میں گیا تھا‘ جو عام حالات میں شاید شہر کا سب سے مناسب نرخوں پر پھل اور سبزی فروخت کرنے والا بازار ہے۔ سبزی اور پھل عموماً سب سے مناسب نرخ پر اور معیار کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر۔ اب ایک ایک سبزی اور پھل کا کیا لکھوں؟ جو چیز رمضان سے صرف دو تین دن پہلے سو روپے کلو میں دستیاب تھی‘ کل ایک سو اسی روپے میں مل رہی تھی اور کوالٹی پہلے سے کمتر۔ لیموں درمیانے درجے سے بھی کمتر معیار کے تھے اور چار سو روپے کلو میں دستیاب تھے۔ میں نے ریڑھی سے چھوٹے بڑے‘ لیکن صرف پیلے رنگ کے لیموں‘ چن کر شاپر میں ڈالنے چاہے تو ریڑھی والے نے کہا: ”باؤجی! ساوے نمبو‘ میں سر وِچ نہیں مارنے‘‘ (باؤجی! سبز لیموں میں نے سر میں نہیں مارنے) میں نے کہا: ان سبز لیموؤں میں رس نہیں ہے۔ وہ کہنے لگا ”باؤجی! میں کیہڑے آپ بنائے نیں؟ جیویں دے منڈی توں ملے نیں‘ لے آیا واں تے ایویں ای ویچنے نیں‘ ملے جلے‘‘ (باؤجی! میں نے کون سا خود آپ بنائے ہیں؟ جیسے منڈی سے ملے ہیں‘ لے آیا ہوں اور اسی طرح فروخت کرنے ہیں‘ ملے جلے) سرکاری نرخنامے میں ایک اور چیز جو میرے لیے بڑے دلچسپی کے ساتھ ساتھ شرمندگی کا باعث تھی وہ درآمد شدہ پھل اور سبزیاں تھیں۔ ایسی ایسی چیزیں‘ جو ہمارے ہاں نہایت عمدہ اور شاندار پیدا ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں‘ ان پر ملک کا وہ قیمتی زرِ مبادلہ خرچ ہو رہا ہے‘ جس کے لیے ہماری سرکار غیروں کے ترلے لے رہی ہے اور آئی ایم ایف کے پاؤں پڑ رہی ہے اور وزیر مشیر خواہ مانیں یا نہ مانیں؛ آئی ایم ایف کے قرض کے ساتھ پیکیج کے طور پر گورنر سٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر ہمیں اسی طرح زبردستی میں قبول کرنے پڑے ہیں ‘جیسے اونٹ کے گلے میں بلی والا محاورہ ہے۔
برسوں گزرے ملتان سے کوئٹہ براستہ لورالائی‘ خانوزئی اور کچلاک اپنی گاڑی پر جانا ہوا۔ لورالائی سے آگے سیبوں کے باغات تھے۔ میری اہلیہ نے سیبوں کے درخت اس طرح پہلی بار دیکھے تھے۔ اشتیاق سے کہنے لگی کہ گاڑی روکیں‘ میں نے درخت سے اترتے ہوئے تازہ سیب کھانے ہیں۔ میں نے گاڑی روک لی۔ باغ کے درمیان سیب اکٹھے کیے جا رہے تھے اور ایک طرف چند لوگ بیٹھے‘ ان سیبوں کو علیحدہ علیحدہ کوالٹی (سائز کے اعتبار سے) کے حساب سے پیٹیوں میں پیک کر رہے تھے۔ باغ کا مالک ہمیں رکتے دیکھ کر پاس آ گیا۔ میری اہلیہ نے کہا کہ ہمیں تازہ سیب چاہئیں۔ مالک ہنستے ہوئے کہنے لگا: بہن جی! وہ سامنے سارے سیب تازہ ہیں۔پانچ سات کلو کی ٹوکری تھی‘ وہ ہم نے لے لی۔ یہ روئی جیسا نرم سیب تھا‘ نہایت ہی اعلیٰ کوالٹی کا‘ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میری اہلیہ کو سخت والے سیب پسند تھے۔ اس نے پوچھا: آپ کے پاس سخت والے سیب ہیں؟ اس نے ایک ٹوکری وہ والے سیب بھی گاڑی کی ڈکی میں ڈلوا دیئے۔ میں نے پوچھا: کتنے کے ہیں؟ وہ کہنے لگا: آپ مہمان ہیں‘ یہ میری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہے! پھر پوچھنے لگا: آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے کہا: ملتان سے آ رہے ہیں اور کوئٹہ جا رہے ہیں۔ اس نے لڑکے سے پشتو میں کچھ کہا اور اس نے اعلیٰ اور عمدہ والے سیبوں کی دو پیٹیاں گاڑی کی ڈکی میں رکھوا دیں‘ پھرکہنے لگا: اگر واپسی ادھر سے ہو تو ضرور رکیے گا۔ اور میری اہلیہ کو کہنے لگا: یہ آپ کے بھائی کا باغ ہے‘ ایسا باغ ادھر اور کوئی نہیں۔ کوئٹہ جا کر نا صرف وہ سیب کھائے‘ بلکہ کرنل تنویر (تب وہ میجر تھا) نے اپنے ساتھ والے فلیٹس میں بھی بھجوائے۔ ایسا عمدہ اور لذیز سیب کہ بیان سے باہر۔ اب عالم یہ ہے کہ صرف سیبوں کے خانے میں سرکاری نرخنامے میں امپورٹڈ سیبوں کی ایک علیحدہ فہرست تھی۔ سیب چائنہ قیمت فروخت پرچون 430 روپے۔ سیب نیوزی لینڈ 430 روپے فی کلو۔ سیب ایرانی 190 روپے۔ سیب ترکی 320 روپے۔ سیب امریکہ 420 روپے۔ سیب ساؤتھ افریقہ 430 روپے۔ یہ صرف سیب کا حال تھا۔ ایک ایسا غریب ملک‘ جہاں کی نصف سے زیادہ آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ چھ ممالک سے تو صرف سیب امپورٹ کر رہا ہے اور ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔
بازار میں لیموں چار سو روپے کلو فروخت ہو رہے تھے۔ سوچا سرکار کے لگائے ہوئے رمضان بازار چلتے ہیں۔ شمس آباد میں لگنے والے رمضان بازار چلے گئے۔ وہاں لیموں کا پتا کیا تو ایک دکاندار نے بتایا کہ رمضان بازار میں لیموں ہیں ہی نہیں۔ سرکار نے لیموں کا ریٹ اول درجہ 320 روپے اور درجہ دوم کا 300 روپے فی کلو طے کیا ہے۔ اس ریٹ پر تو لیموں منڈی میں تھوک میں نہیں مل رہا۔ بھلا کون فی کلو پچاس ساٹھ روپے کا نقصان کرے؟ یہی حال دیگر کئی سبزیوں اور پھلوں کا تھا‘ جو سرکاری بازار میں میسر ہی نہیں تھے کہ سرکاری ریٹ پر ان کی فروخت ممکن ہی نہیں تھی۔ کوالٹی بھی محض گزارے لائق‘ بلکہ کئی چیزوں کی خاصی ناقص‘ لیکن ہوشربا مہنگائی سے تنگ محدود آمدنی والے لوگ ادھر بھی جوق در جوق آ رہے تھے کہ مجبوری میں اور کیا کریں؟
رمضان بازاروں سے ایک بات تو طے ہو گئی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں‘ چھاپہ مار ٹیمیں اور ضلعی انتظامیہ نے باقی بازاروں کے بارے میں تو اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں کہ ان کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار اب صرف رمضان بازار تک محدود ہے اور صرف وہیں چلتا ہے۔ باقی بازار ان کی ذمہ داری نہیں ہیں۔ گزشتہ چند سال سے حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی پرائس کنٹرول کے سلسلے میں ذمہ داری سکڑتے سکڑتے اب محض سرکاری خرچے پر لگائے ٹینٹوں اور تمبوؤں کے سائے تلے فروخت ہونے والی چیزوں تک محدود ہو چکی ہے۔ باقی ہر جگہ دکانداروں اور ذخیرہ اندوزوں کی رٹ قائم ہو چکی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ