ہر طرف خراب ہوتے ہوئے معاملات میں فی الحال کسی کو یاد نہیں آ رہا کہ ملکی زراعت کس بری صورتحال کا شکار ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں بدترین سطح پر آئی ہوئی روپے کی قدر اور ہمہ روز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے دیگر معاملات کی جانب توجہ دینے اور سوچنے‘ سمجھنے کی ساری صلاحیتیں مفقود کر کے رکھ دی ہیں۔ ملک کی معیشت عملی طور پر ”درآمدی معیشت‘‘ بن چکی ہے اور بیلنس آف ٹریڈ بدترین صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے۔ درآمد اور برآمد کا باہمی فرق اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب اس خسارے کو پورا کرنا قرضوں سے بھی ممکن نظر نہیں آ رہا کہ اس فرق کو پورا کرنے کے لیے سالانہ جتنی رقم چاہئے اتنی رقم ہمیں دنیا میں کوئی دینے کو تیار ہی نہیں اور بھلا کوئی تیار ہو بھی تو کیوں؟ واپسی کی گارنٹی کے لیے ہمارے پاس باقی کیا بچا ہے؟ سب کچھ تو عزیزی اسحاق ڈار پہلے ہی رہن رکھوا چکے ہیں۔ لے دے کے صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم ہیں اور باقی رقم برآمدی مد میں وصول ہوتی ہے۔ برآمدات میں ہمارا سب سے بڑا سیکٹر کپاس سے متعلقہ مصنوعات ہیں۔ لیکن آنے والے سال اس سلسلے میں کسی بہتری کے بجائے بالکل ہی دوسری صورتحال پیش کرنے جا رہے ہیں۔ ہماری زراعت روز بروز ترقیٔ معکوس پر گامزن ہے۔
ملک میں چار بڑی فصلات ہیں۔ گندم‘ کپاس‘ چاول اور گنا۔ اب پانچویں فصل مکئی کی صورت میں آگے آ رہی ہے۔ اور اس فصل میں کاشتکار کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے ملک کی دیگر فصلات کے زیر کاشت رقبے میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر کپاس کی فصل پر پڑ رہا ہے‘ اور کسان آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ پاکستان میں کپاس کی کاشت کے حوالے سے سب سے زیادہ پیداوار والی تحصیل میلسی ہوتی تھی اور پاکستان کا سب سے زیادہ پیداوار والا ضلع وہاڑی تھا۔ صرف تحصیل میلسی میں دو لاکھ پچھتر ایکڑ رقبہ پر کپاس کاشت ہوتی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ تحصیل میلسی میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ اڑھائی یا پونے تین لاکھ ایکڑ سے کم ہو کر صرف اسی ہزار ایکڑ رہ گیا ہے۔ اب تو خیر سندھ میں کپاس کی پیداوار بڑھ گئی ہے‘ ایک زمانے میں حال یہ تھا کہ صرف ضلع وہاڑی کی کپاس کی پیداوار پورے صوبہ سندھ کی پیداوار کے برابر ہوتی تھی۔ لیکن اب سارا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ میرے بہت ہی عزیز دوست اور کپاس کے نہایت ہی مثالی کاشتکار محمد اطہر خان خاکوانی کپاس کی کاشت سے مکمل طور پر دستبردار ہو چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا وہ اپنی بیشتر زمین پر کپاس کاشت کرتے تھے۔ یہ میں کوئی طوفانِ نوح کے زمانے کا ذکر نہیں کر رہا۔ محض پندرہ سال پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ پھر آہستہ آہستہ وہ کپاس کی کاشت کم کرتے گئے اور اس کی جگہ دیگر فصلات نے لے لی۔ ان کا کپاس کا کل زیرِ کاشت رقبہ نو سو سے ایک ہزار ایکڑ تھا اور محض بارہ پندرہ سال میں گھٹتے گھٹتے 150 ایکڑ رہ گیا ہے۔ ضلع وہاڑی اور خاص طور پر تحصیل میلسی کے کپاس کے تمام کاشتکاروں کی صورتحال تقریباً ایک جیسی ہے۔ کپاس کی کاشت اطہر خان خاکوانی کی صرف معاشی ضرورت نہیں تھی ان کا شوق تھا۔ بلکہ سچ پوچھیں تو کپاس کی فصل اور کاشت ان کا عشق تھا لیکن اب وہ اس عشق سے مکمل تائب ہو چکے ہیں۔ اور یہ صرف اطہر خان خاکوانی کا حال نہیں‘ ہر طرف ایک سی صورتحال ہے۔ میلسی میں کپاس کے دیگر بڑے کاشتکاروں میں جھنڈیر فیملی جس میں میاں غلام جھنڈیر اور مسعود جھنڈیر ہیں اس کے علاوہ کھچی صاحبان اور آرائیں فیملی بالخصوص عاصم آرائیں وغیرہ ‘ان سب کی صورتحال یہی ہے۔ کچھ لوگ تو کپاس کو بالکل ہی ترک کر گئے ہیں۔
کیا کپاس کی گھٹتی ہوئی پیداوار اور سکڑتا ہوا رقبہ صرف کاشتکار کا مسئلہ ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔ یہ قومی معیشت سے براہ راست جڑا ہوا معاملہ ہے اور فی الحال کسی کو آنے والے دنوں کا صحیح سے اندازہ نہیں۔ اس سال حکومت کی جانب سے کپاس کا پیداواری ہدف ڈیڑھ کروڑ گانٹھ ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس سال کپاس کی پیداوار ایک کروڑ گانٹھ کے لگ بھگ ہوگی۔ خدا نہ کرے کہ ایک کروڑ گانٹھ کا ہندسہ بھی پورا نہ ہو۔ مگر صورتحال خاصی نہیں‘ بہت خراب ہے۔ پچاس لاکھ گانٹھ کا کم پیدا ہونا کوئی معمولی مسئلہ نہیں۔ کپاس کی برآمد تو اب ایک طرف رہی ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چلانے کے لیے کپاس درآمد کرنی پڑے گی۔ یعنی پہلے اس فصل کے طفیل ڈالر باہر سے آنے تھے اب کپاس کی خرید کے لیے ڈالر باہر بھجوانے پڑیں گے۔ ملکی کارخانوں میں ایک سو باون روپے (خدا کرے کہ یہ معاملہ یہیں ٹھہر جائے‘ وگرنہ معیشت سے متعلق ماہرین روپے کی قدر کے مزید بے قدر ہونے کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں اور ان کے حساب سے اگلے چند ماہ میں ڈالر کی روپے کے مقابلے میں شرح تبادلہ ایک سو پینسٹھ روپے پر جانے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں) فی ڈالر کے حساب سے خریدی گئی روئی سے آئی ایم ایف کی جانب سے مہنگی کی گئی بجلی کے خرچے پر بننے والا دھاگہ اور نتیجتاً اس سے مزید مہنگا بننے والا کپڑا غریب کی پہنچ سے دور تو ہوگا ہی‘ لیکن عالمی منڈی میں ہمارا دھاگہ اس بری طرح پٹے گا کہ اس کا خریدار ملنا مشکل ہو جائے گا۔
کپاس سے متعلقہ صنعتی سیکٹر اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شعبہ ہے۔ کپاس کی کاشت سے لے کر ریڈی میڈ کپڑے کی تیاری تک کروڑوں لوگ اس فصل اور اس کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ لاکھوں کاشتکار اور کھیت مزدور۔ بیج‘ کھاد اور زرعی ادویات سے متعلق لاکھوں افراد۔ جننگ کی صنعت سے جڑے ہوئے بے شمار لوگ اور دھاگے سے لے کر کپڑا بننے اور پھر اس کی فنشنگ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانی۔ ریڈی میڈ انڈسٹری اور برآمد کنندگان۔ یہ سب مل کر بلا شبہ کروڑوں لوگوں کی روزی کابندوبست کرنے والا شعبہ بن جاتا ہے اور ملک کے لیے اربوں ڈالر کے زر مبادلہ کے حصول کا ذریعہ بھی۔ ٹیکسٹائل کی برآمد سے ملک کو کسی ایک شعبہ میں سب سے زیادہ زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے جو بلا مبالغہ پاکستان کی کل برآمدی آمدنی کے نصف سے زائد ہے۔ یعنی صرف یہی ایک شعبہ باقی تمام برآمدی آمدنی کے برابر ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ 2014-15ء میں صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات سے 11.625 ارب ڈالرز کا زر مبادلہ کمایا گیا تھا۔
محکمہ زراعت اور کاشتکار کے مابین عدم اعتماد کے طفیل کوئی شخص گورنمنٹ اور اس کے وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں مگر اب تو صورتحال اور بھی خراب ہے اور وہ یہ کہ گورنمنٹ کی طرف سے اس سب سے بڑی نقد آور فصل کے حوالے سے کوئی پالیسی ہے اور نہ ترجیحات۔ نہ کوئی سہولت اور نہ کوئی مدد۔ ایک طرف یہ حال کہ شوگر ملوں نے سرکار سے سبسڈی بھی وصول کر لی اور چینی کی قیمت بھی بڑھا لی۔ صرف اس سیزن میں چینی پچاس روپے سے پینسٹھ روپے فی کلو گرام ہو گئی ہے یعنی چینی کی قیمت میں ایک سال کے اندر تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسے کہتے ہیں چپڑیاں اور دو دو۔ سبسڈی بھی لے لی اور اپنے مال کی قیمت بھی بڑھا لی۔
یہ صرف کپاس کی فصل کا معاملہ تھا۔ گندم کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں۔ گندم کی فصل کو تو کئی اطراف سے چیلنجز نے گھیر رکھا ہے۔ بے وقت بارشیں‘ ژالہ باری‘ مکئی کی فصل کا بڑھتا ہوا رجحان‘ پولٹری انڈسٹری میں پھیلائو اور گندم کا بے تحاشا استعمال اور سب سے بڑھ کر کئی سال سے ایک ہی جگہ پر رکی ہوئی امدادی قیمت۔ لیکن اس پر اگلے کالم میں۔ فی الوقت تو معاملہ کپاس کا آن پڑا ہے۔
مہنگی دوائیوں اور کھاد کے طفیل بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت‘ کپاس سے متعلق کھیت مزدور کی گھٹتی ہوئی تعداد اور بیج کی نئی ٹیکنالوجی کا عدم استعمال۔ اور ان سب وجوہات کے ساتھ ساتھ روئی کی نہایت ہی غیر یقینی مارکیٹ جس میں کاشتکار کو کبھی اندازہ نہیں ہو سکا کہ اسے پیداواری لاگت بھی وصول ہو گی یا نہیں۔ لیکن یہ تو صرف ایک فصل کی بات تھی۔ ہر روز مزید خراب ہوتی ہوئی ملکی زمین کی صورتحال جس خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ ظاہر ہے جب کسی کو صورتحال کا ادراک ہی نہیں تو اس خرابی کو روکا کیسے جا سکتا ہے؟ زراعت کے حوالے سے آنے والے دن نہایت ہی بری صورتحال کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ