سات سال میں آہستہ آہستہ اب یہ بات بھولتی جا رہی ہے کہ گھرسدا سے ہی ایسے تھا یا ویسا تھا جواَب خواب لگتا ہے؟ سوائے سفر کے ہر چیز کی اب طے شدہ روٹین ہے۔ صبح اٹھ کر کچن میں جانا ہے۔ بلکہ اس سے پہلے باہر سے اخبار اٹھانے ہیں۔ پھر کچن میں جا کر ناشتہ بنانا ہے۔ پھر کمرے میں آ کر اخبار پڑھنے ہیں۔ نہا کر کپڑے بدلنے ہیں اور گھر سے نکل پڑنا ہے۔ اس روٹین میں وقت کی کوئی قید نہیں۔ یہ کام صبح نو بجے تک بھی ہو سکتا ہے اور گیارہ بجے تک بھی۔ بلکہ سفر پر جانا ہو تو صبح پانچ چھ بجے بھی یہی کچھ کرنا ہے۔ ناشتہ کیا ہے؟ یہ اس سے بڑی روٹین کی چیز ہے جس کا اب ٹائم ٹیبل تک طے ہے۔ سولہ مارچ سے لے کر پندرہ دسمبر تک لسی بناتا ہوں اور پی لیتا ہوں۔ ساری گرمیاں یہی ناشتہ ہے۔ سولہ نومبر سے کشمیری چائے کے ساتھ لاہورسے آغا نثار کی ہر پندرہ روز بعد گوالمنڈی سے بھجوائی گئی باقر خانی کا ناشتہ ہوتا ہے جو پندرہ مارچ تک جاری رہتا ہے۔ کبھی کبھی بچے پوچھتے ہیں کہ میں اس قدر طے شدہ روٹین سے تنگ نہیں آ جاتا؟ اول تو میں نے اس بارے کبھی سوچا ہی نہیں اور دوسری بات یہ کہ مجھے اس کے علاوہ اور بنانا بھی تو کچھ نہیں آتا۔ ان سات سالوں میں اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ میں اپنے گھر والی آلو کی روٹی کا ذائقہ تک بھولنے لگا ہوں۔
میری شادی کو ابھی شاید ایک دو ماہ ہی گزرے تھے کہ میں نے ایک روز باورچی خانے میں اتوار کے روز ماں جی کے ہاتھ کا آلو کا پراٹھا کھاتے ہوئے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اگر اس نے خوش رہنا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ماں جی سے آلو والا پراٹھا بنانا سیکھ لے۔ وہ ہنس پڑی۔ اس نے سمجھا شاید میں مذاق کر رہا ہوں۔ ماں جی نے اسے ہنستا دیکھ کر کہا: تمہارا خیال ہے یہ مذاق کر رہا ہے؟ میری اہلیہ نے کہا :اور کیا؟ ماں جی اس کے جواب پر مسکرائیں اور کہنے لگیں: آلو کا پراٹھا اس کی کمزوری ہے۔ بچپن سے یہ جس اہتمام سے آلو والا پراٹھا کھاتا ہے تمہیں شاید ابھی اس کا اندازہ نہیں ہوا۔ وہ لکڑی کی چوکی سے اٹھی اور ماں جی کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی: پھر آج سے ہی سکھائیں کہ آپ یہ روٹی کی دو پرتیں بنائے بغیر ایک ہی پیڑے کے درمیان اتنا زیادہ آلو بھر کر پراٹھا کیسے بنا لیتی ہیں؟ اگلے اتوار اس نے ماں جی سے پراٹھے کے اندر بھرنے والے آلو کے مصالحہ جات کی تفصیل اور بنانے کا طریقہ سیکھنا شروع کیا۔ کہنے لگی : میرا خیال تھا کہ آلو، نمک، مرچ اور ایک آدھ اور چیز ڈالنی ہوگی مگر یہاں تو درجن بھر چیزیں ڈالنی پڑتی ہیں۔ ماں جی نے کہا: تھوڑی محنت تو کرنی پڑے گی۔ ایک ڈیڑھ مہینے میں اس نے بالکل ماں جی جیسا آلو والا پراٹھا بنانا سیکھ لیا۔ لیکن ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ جو ذائقہ ماں جی کے ہاتھ میں ہے وہ اس کے ہاتھ میں نہیں‘ لہٰذا وہ اپنا پراٹھا ماں جی کے ہاتھ کا بنا ہوا ہی کھائے گی۔ اپنی ماں کے ہاتھ کی روٹی اور ہنڈیا سب کو ہی پسند ہوتی ہے، لیکن ماں جی کے ہاتھ کا آلووالا پراٹھا تو پورے خاندان میں مشہور تھا۔ میرے کئی دوست باقاعدہ یہ کھانے کیلئے فرمائش کرتے تھے اور ایک دو ماہ کے بعد کسی نہ کسی اتوار کو گھر آ دھمکتے تھے۔ پھر ماں جی چلی گئیں اور یہ ذمہ داری میری اہلیہ نے سنبھال لی۔ ہمارے گھر میں اتوار کی صبح آخری بار آلو کا پراٹھا شاید چودہ اکتوبر 2012ء کو پکا تھا۔ اس کے بعد یہ باب ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا۔
شاید بارہ یا تیرہ اکتوبر کا دن تھا۔ میں صبح کچن میں آ کر ڈبل روٹی کا سلائس گرم کرکے سینڈوچ سپریڈ لگا کر کھانے کی تیاری کر رہا تھا کہ وہ اچانک باورچی خانے میں آ گئی۔ اسے علم تھا کہ میں سلائس نہایت ہی مجبوری کے عالم میں کھاتا ہوں۔ مجھے سلائس گرم کرتے دیکھ کر پریشان ہو گئی اور کہنے لگی: مجھے پتا ہے آپ میری وجہ سے یہ ناشتہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایسی نوبت نہیں آئی کہ میں آپ کو ناشتہ بنا کر نہ دے سکوں۔ اس نے سلائس میرے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھا اور مجھے کہا ‘میں کمرے میں جائوں۔ تھوڑی دیر بعد دہی اور پراٹھا میرے سامنے لا کر رکھا اور کہنے لگی: پرسوں اتوار ہے، آلو والے پراٹھے بنائیں گے۔ تیرہ اکتوبر کو اس نے رات ہی سارا سامان تیار کر لیا اور چودہ اکتوبر کو صبح آلو والے پراٹھے بنائے۔ میں نے یہ پراٹھا میٹھے دہی کے ساتھ کھایا۔ بلکہ سب گھر والوں نے آلو کا پراٹھا میٹھے دہی کے ساتھ کھایا۔ یہ اتوار کی صبح ناشتے میں تیار ہونے والے آلو کے آخری پراٹھے تھے۔ سترہ اکتوبر کو وہ ہسپتال گئی اور اس کے چار روز بعد آج ہی کے دن، اکیس اکتوبر کو اپنے مالک کے پاس چلی گئی۔
خانیوال میں جب میں نے پہلے پہل آلو والا پراٹھا کھانے کیلئے دہی میں چینی کے دو بڑے چمچ بھر کر ڈالے تو میرے برادر نسبتی احسان الرحمان نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور اس ”بد ذوقی‘‘ پر باقاعدہ پینڈو ہونے کا اعلان کر دیا۔ چار چھ ماہ بعد ایک اتوار کو ہمارے گھر صبح ناشتے میں آلو کا پراٹھا کھاتے ہوئے میں نے احسان کی توجہ اپنی اہلیہ کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا: احسان! ادھر دیکھو ایک اور پینڈو میٹھے دہی سے آلو والا پراٹھا کھا رہی ہے۔ احسان ہنسا اور کہنے لگا: تمہارا کیا ہے؟ تم کسی کو بھی خراب کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ کھانا پکانے والی اب کبھی دوپہر کو آلو والا پراٹھا بناتی لیکن صرف خانہ پری ہوتی ہے اور عادت پوری کی جاتی ہے۔ پہلے ماں جی اور پھر اس کے جانے کے بعد وہ والا پراٹھا عنقا ہو گیا ہے۔ صرف پراٹھا ہی کیا؟ بہت سی چیزیں زندگی سے نکل گئی ہیں۔ گرمیوں کی دوپہر کو بیسن والی چپڑی روٹی اور نمکین لسی۔ بھرے ہوئے کریلے، حلیم اور کڑاہی اور ان سب چیزوں کے ساتھ وہ خود۔
زندگی جب ایک ڈھب پر چل پڑے تو بندہ آہستہ آہستہ پرانی چیزیں بھولنے لگ جاتا ہے۔ آسانیاں بھی اور مشکلات بھی۔ وقت بڑی ظالم چیز ہے اور انسان بڑا سخت جان قسم کا جاندار ہے۔ کافی عرصہ یہ لگتا رہا کہ گھر پہنچوں گا تو آگے سے وہ ہنستے ہوئے ملے گی۔ اب یہ عالم ہے کہ لگتا ہے کہ وہ شاید اس گھر میں کبھی تھی ہی نہیں۔ ان سات سالوں نے بہت کچھ سکھا دیا ہے اور بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ اب غصہ کم آتا ہے۔ بلکہ کم سے زیادہ کم۔ کسی سے بھی ناراض نہ ہونے کی کوشش کسی حد تک اس مالک کے ہاں قبول ہو رہی ہے۔ معاف کرنا اور معافی طلب کرنا اب اتنا آسان ہو گیا ہے کہ کبھی کبھار خود پر حیرت ہوتی ہے کہ کبھی ایسا سوچنا بھی محال تھا اور اب لگتا ہے کہ ا تنی زندگی اسی کام کو مشکل جان کر کیونکر خراب کی؟ یہ میرے رب کا کرم اور اس کی دین ہے لیکن سارا جھٹکا تو وہ جاتے ہوئے لگا کر گئی تھی وگرنہ میں ایسا کب تھا؟
گھر میں بے چین پھرتے ہوئے اب یاد نہیں رہتا کہ بے چینی کس بات کی ہے۔ کبھی کبھی تویہ بھی یاد نہیں رہتا کہ گھر میں کمی کس چیز کی ہے لیکن اتنا ضرور یاد رہتا ہے کہ اب ویسا نہیں۔ ہر سال کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم اس گھر کو ویسا بنا دوں جیسا وہ چاہتی تھی اور اس کیلئے بہت سی تبدیلیاں درکار نہیں‘ ایک برآمدہ ہی تو بنانا ہے۔ جب بھی برآمدے کا نام لوں منجھلی بیٹی‘ جو آرکیٹکچر انجینئر ہے‘ اس آئیڈیا کو رد کر دیتی ہے اور چھوٹی بھی خرابیاں بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: آپ نے کونسا گھر رہنا ہوتا ہے؟ انہیں کیا بتائوں کہ برآمدہ کیوں بنانا چاہتا ہوں؟ اور صرف برآمدے پر ہی کیا موقوف؟ ہم نے ان سات سالوں میں شاید سات بار بھی اس کا ذکر ایک دوسرے کے سامنے نہیں کیا۔ ممکن ہے یہ اسے بھلانے کی اضطراری کوشش ہو مگر ہم سب کو پتا ہے کہ اسے بھولنے کا خیال دراصل خیالِ خام ہے۔
یہ برآمدے والا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اسے بارش دیکھنے کا شوق تھا‘ بارش میں بھیگنے اور نہانے کا بھی۔ مجھے گیلے کپڑوں سے، پسینے سے اور مرطوب ہوا سے باقاعدہ الجھن ہوتی ہے۔ وہ کہتی تھی: آپ بارش کو صحن میں انجوائے کرتے نہیں کم از کم برآمدے میں تو میرے ساتھ بیٹھیں گے۔ ویسے بھی سردیوں میں بارش میں بھیگا نہیں جا سکتا۔ گھر میں برآمدہ ضرور ہونا چاہئے۔ پھر اس نے ایک دن اشارہ کرکے کہا: برآمدہ یہاں بنانا ہے۔ جب بھی بارش ہو مجھے برآمدہ بنانے کا خیال آتا ہے۔ میں بچوں کو کہتا ہوں کہ جب بھی وقت ملا برآمدہ بنائوں گا۔ پہلے دوسری ضرورتوں نے یہ کام وقت پر نہ کرنے دیا اور اب کبھی وقت کی مجبوری آن پڑتی ہے اور کبھی… پھر سوچتا ہوں‘ اس برآمدے میں اسکے بغیر بارش دیکھ کر کیا کروں گا؟ بارش میں رکھا ہی کیا ہے؟ لیکن پھر میں سب خیال جھٹک کر ارادہ کرتا ہوں کہ گھر میں برآمدہ تو ہونا چاہئے۔ اس کا اتنا حق تو ہے کہ گھر میں اس کی مرضی کی کم از کم ایک چیز تو ہو۔ خواہ اس میں بیٹھ کر ایک بار بھی بارش کا نظارہ نہ کیا جائے۔
اللہ جانے اس کا خیال آتے ہی معین نظامی کی نظم کیوں یاد آ جاتی ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)