یہ چوبیس دسمبر 2017ء کا ذکر ہے۔ لاہور میں ایک دوست کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ فائیو سٹار ہوٹل میں تقریب تھی اور بے شمار لوگ آئے ہوئے تھے۔ میں آخری کونے میں ایک میز پر پرانے دوستوں کے ساتھ منڈلی جمائے بیٹھا تھا۔ بشیر خان، فاروق تسنیم اور کئی ایسے دوست جو ملتان چھوڑ کر اب لاہور کے رہائشی بن چکے ہیں اس میز پر تھے اور باقی دوست اس میز پر آ جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا سٹیج کے قریب میرا کالج فیلو اور مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم پی اے مظہر عباس راں موجود تھا۔ میں نے اسے دیکھا تو ایک بات یاد آ گئی۔ میری اطلاعات تھیں کہ مظہر راں مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جا رہا ہے۔ یہ آج سے قریب ساڑھے چار ماہ پرانی بات ہے۔ تب صوبہ جنوبی پنجاب کا شوشہ بھی نہیں اٹھا تھا اور میاں صاحب نے سرل المیڈا کو انٹرویو بھی نہیں دیا۔ اور ان بہانوں سے مسلم لیگ ن چھوڑنے کا سیاسی موسم بھی نہیں آیا تھا۔
کبھی کبھار میں خواہ مخواہ کے پنگوں میں پڑ جاتا ہوں۔ اس روز بھی بس ایسے ہی طبیعت مچل گئی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور مظہر راں کے پاس چلا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ آخر ہم پرانے کالج فیلو تھے‘ گو کہ کالج میں ہم سیاسی طور پر بالکل مختلف تنظیموں میں تھے اور ایک دوسرے کے شدید مخالف بھی‘ لیکن پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔ اب ہم جب بھی ملتے ہیں پرانے قصے یاد کرتے ہیں اور مزہ لیتے ہیں۔ میں نے مظہر راں سے پوچھا کہ کیا وہ پی ٹی آئی میں جا رہا ہے؟ مظہر راں نے صاف انکار کر دیا۔ میں نے کہا: مظہر! میں دوسری دفعہ پوچھ رہا ہوں کیا تم مسلم لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جا رہے ہو؟ اس نے پھر انکار کر دیا۔ میں نے کہا: اب میں تیسری اور آخری بار پوچھ رہا ہوں۔ کیا تم مسلم لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جا رہے ہو؟ اس نے تیسری بار اسی پُر اعتماد انداز میں انکار کر دیا۔ میں نے کہا: مظہر راں گو کہ تم تین بار میری بات کی نفی کر چکے ہو لیکن میری بات سن لو‘ تم عنقریب پی ٹی آئی میں جا رہے ہو۔ چند روز پہلے مظہر راں نے پی ٹی آئی جوائن کر لی ہے۔
مظہر راں نے پہلے بھی ایک بار مسلم لیگ ن چھوڑی تھی۔ تب اس کا جھگڑا جاوید ہاشمی سے ہوا تھا۔ جھگڑے کی وجوہات مختلف بیان کی جاتی ہیں مگر حقیقی وجہ شہر میں ایک پرانے سینما کی پراپرٹی کی حصہ داری تھی۔ بہرحال یہ الگ الگ موضوع ہے۔ بات پارٹیاں چھوڑنے کی ہو رہی ہے۔ مظہر راں پیپلز پارٹی کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوا تاہم پیپلز پارٹی چھوڑ کر میاں منظور وٹو کے ساتھ شامل ہو گیا تھا اور غالباً چیف منسٹر کا سپیشل اسسٹنٹ بھی بن گیا تھا۔ پھر پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں آ گیا۔ پھر جاوید ہاشمی سے جھگڑے کے بعد مسلم لیگ ق میں چلا گیا۔ بعد ازاں دیگر ان گنت لوگوں کی طرح سجدہ سہو کر کے مسلم لیگ ن میں دوبارہ آ گیا اور اب پی ٹی آئی۔
مسلم لیگ ن سے لیہ کی صوبائی نشست پر ممبر منتخب ہونے والے قیصر مگسی اپنی مسلم لیگ ن چھوڑنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میاں صاحبان ہم جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی کو ”شودر‘‘ سمجھتے ہیں۔ میں نے پوچھا: انہوں نے یہ سمجھنا کب سے شروع کیا ہے؟ کیا واقعہ اب پیش آیا ہے؟ اور اگر یہ واقعہ ابھی کا نہیں ہے تو آپ کو پونے پانچ سال بعد کیسے یاد آیا کہ آپ لوگوں کو شودر سمجھا جاتا ہے؟ اتنے عرصے بعد تو آپ کو اس سلوک کا عادی ہو جانا چاہئے تھا۔
تقریباً جھنگ سارا صاف ہو گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ہر روز ڈیڑھ دو ارکان اسمبلی مسلم لیگ ن چھوڑ پی ٹی آئی میں جا رہے ہیں۔ سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ پی ٹی آئی کے وہاں سے پرانے امیدواران کہاں جائیں گے؟ ان کے ساتھ الیکشن 2018ء میں کیا سلوک ہو گا؟ مجھے یہ تو پتا ہے کہ خانیوال سے تحریک انصاف کے پرانے اور مخلص امیدوار عابد کھگہ کی جگہ اب پی ٹی آئی سے احمد یار ہراج الیکشن لڑے گا۔ عابد محمود کھگہ تو مخلص اور وضعدار آدمی ہے اور ہر حال میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا رہے گا لیکن ایسے کتنے لوگ ہیں؟ ٹکٹوں کی تقسیم مرحلہ آنے دیں۔ ایک عجیب ”گھڑمس‘‘ مچے گا۔ گو کہ پی ٹی آئی نے اپنے ہر ممکنہ امیدوار سے مخالف الیکشن نہ لڑنے کا حلف نامہ دستخط کروا لیا ہے‘ مگر یہ حلف نامہ صرف اسے امیدوار بننے سے روک سکتا ہے کسی دوسرے کی مدد کرنے سے ہرگز نہیں روک سکتا۔
خانیوال سے یاد آیا۔ وہاں سے بھی دو مسلم لیگی ارکان قومی اسمبلی بھاگنے کی تیاری میں ہیں۔ لیکن فی الحال وہ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ایک طرف سے وہ دباؤکی بات بھی کر رہے ہیں اور دباؤبرداشت کرنے کی بھی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اگر ان پر صحیح دباؤپڑتا تو وہ کب کے مسلم لیگ ن چھوڑ چکے ہوتے۔ فی الحال ان پر دباؤہی ذرا سا ہے۔
ملتان کے تمام حلقوں کی نئی جغرافیائی حلقہ بندیاں ایسی ہیں کہ اس کا سارا فائدہ شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی کو ہوا ہے۔ مخدوم رشید اور ملحقہ علاقے اب این اے 157 سے نکل کر این اے 158 میں چلے گئے ہیں۔ یعنی شاہ محمود مخالف ووٹ اس کے حلقہ سے نکل گئے ہیں۔ ظاہر ہے باقی حلقہ میں بھی شاہ محمود قریشی کے مخالف ووٹ ہوں گے مگر اجتماعی حوالے سے اس کے مخالف علاقے اب اس کے حلقہ سے خارج ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال غفار ڈوگر کے لئے تھوڑی پریشان کن ہے جس نے وہاں سے گزشتہ الیکشن میں شاہ محمود قریشی اور علی موسیٰ گیلانی کو شکست دی تھی۔ رہ گیا اس حلقے میں جاوید ہاشمی، تو اب جاوید ہاشمی کا آبائی علاقہ شاہ محمود کے حلقہ سے نکل کر شجاع آباد والے حلقے میں چلا گیا ہے اور ایک عرصے بعد جاوید ہاشمی صاحب اور شاہ محمود قریشی ایک دوسرے کے براہ راست مخالف امیدوار نہیں رہے۔ یہ ساری حلقہ بندیاں محض اتفاق نہیں لیکن یہ کوئی بہت اوپر والے کا کمال نہیں اور نہ ہی اس معاملے میں خلائی مخلوق کا کوئی کردار ہے۔
صورتحال آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی سے میاں نواز شریف کے خلاف بدلتی نظر آ رہی ہے لیکن تمام تر مشورہ جات اور تحفظات کے باوجود میاں نواز شریف کسی کی بات ماننے پر رضا مند نہیں ہو رہے اور اس میں ان کی کسی طبعی بہادری کا کوئی دخل نہیں کہ میاں صاحب جینیاتی طور پر بہادر نہیں بلکہ بزدل واقع ہوئے ہیں؛ تاہم اب معاملہ کیونکہ ساری برطانوی پراپرٹی کا آن پڑا ہے اس لئے وہ اسی میمن کی طرح بہادر بنے ہوئے ہیں جس کے گھر ڈاکو آ گئے اور کہا کہ اپنی تمام دولت نکالو ورنہ ہم تم کو گولی مار دیں گے۔ کانپتے ہوئے میمن نے کہا: بھلے آپ مجھے گولی مار دیں‘ میں دولت آپ کو نہیں دینے کا۔ اس دولت کے بغیر والی جندگی کا پھائدہ بھی کیا ہے۔ اس سے اچھا ہے کہ بندہ مر ہی جائے۔
میاں صاحب کی ”بے مثال‘‘ بہادری کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے مگر فی الحال میمن پر ہی گزارا کریں۔ واقعہ کبھی پھر سہی۔
صورتحال آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی سے میاں نواز شریف کے خلاف بدلتی نظر آ رہی ہے لیکن تمام تر مشورہ جات اور تحفظات کے باوجود میاں نواز شریف کسی کی بات ماننے پر رضا مند نہیں ہو رہے اور اس میں ان کی کسی طبعی بہادری کا کوئی دخل نہیں کہ میاں صاحب جینیاتی طور پر بہادر نہیں بلکہ بزدل واقع ہوئے ہیں
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ