گذشتہ کالم کے حوالے سے دو باتیں ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ میں نے الماری سے مقبول اکیڈمی کی چھپی ہوئی کتاب ”محبت کے چار ناول‘‘ دوبارہ نکالی ہے اور پڑھنی شروع کر دی ہے۔ اس کتاب میں مختلف ملکوں کے مصنفوں کے مختلف ادوار میں لکھے جانے والے ناول ہیں۔ ان چاروں کتابوں کا انتخاب اور ترجمہ مرحوم ستار طاہر نے کیا تھا۔ اس میں محبت کے لاتعداد پہلوؤں اور رنگوں میں سے محض چار رنگ آپ کے سامنے آتے ہیں۔ بقیہ رنگ ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں اور مصنفین اور شعراء اس کو اپنے اپنے انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوشش ازل سے جاری ہے اور ناجانے کب تک چلتی رہے گی۔
یہ چار ناول ہیں: قربان سید کا ”علی اور نینو‘‘ جو جرمنی میں 1937ء میں طبع ہوا۔ قربان سید کے نام کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ یہ مصنف کا قلمی نام تھا۔ مصنف کا اصل نام ”یوسف وزیر چمن صامنلی‘‘ تھا‘ جو بالشویک انقلاب ‘یعنی لینن والے روسی سوشلسٹ انقلاب کے بعد جرمنی چلا گیا اور فوری طور پر انقلاب دشمن قرار دے کر قتل کر دینے سے محفوظ رہا‘ مگر قدرت سے کون لڑ سکتا ہے؟ بعدازاں یوسف وزیر کو اپنے وطن آذربائیجان کی یادستانے لگی ‘تو اس نے واپس آنے کی درخواست کی ‘جو قبول کر لی گئی۔ واپسی پر اسے کچھ ہی عرصے کے بعد اس کی انقلاب دشمن تحریروں کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔ سزائے موت کی بنیادی وجہ شاید یہی کتاب ”علی اور نینو‘‘ تھی۔ اس کتاب کا جرمن زبان سے دیگر تیس زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ آذربائیجان کے مسلمان علی اور جارجیا کی عیسائی لڑکی نینو کی یہ محبت بھری داستان 1918-20ء کے درمیان کی بیان کی جاتی ہے۔ کتاب پہلے پہل ویانا میں چھپی‘ تاہم اس کتاب کی ساری آمدنی ”لیلا اہرن فیلز‘‘ وصول کرتی رہی‘ جس کا دعویٰ تھا کہ یہ کتاب اس کی چچی خالہ ”بیرنس ایلفریڈی اہرن فیلز‘‘ نے لکھی تھی۔
دوسرا ناول وکٹرہیوگو کا شہرہ آفاق ناول ”نوٹرے ڈیم کا کبڑا‘‘ ہے۔ یہ ناول 1831ء میں لکھا گیا۔ وکٹرہیوگو فرانسیسی شاعر اور ناول نگار تھا۔ تیسرا ناول” ایرچ سیگل‘ جو امریکی مصنف تھا‘نے 1970 میں لکھا۔ ”لوسٹوری‘‘ نے اشاعت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اکتالیس ہفتوں تک یہ ناول دنیا کا بیسٹ سیلر ناول رہا۔ چوتھا ناول فرانسیسی مصنف فرانکوئس ساگان کا تحریر کردہ ہے۔ اس کا فرانسیسی نام Les Merveilleus Nuages یعنی ”ونڈر فل کلاؤڈز‘‘ ہے ۔اس کا ترجمہ بھی ستار طاہر نے کیا ہے ‘جو ”رنگ بھرے بادل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ تینوں ناول شاندار کہے جاسکتے ہیں ‘مگر علی اور نینو کی بات ہی اور ہے۔ شاید یہ اوائل عمری میں پڑھ لینے کا اثر ہے ‘جو ابھی تک دل کو جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے یہ کتاب غالباً 1978ء یا اس سے ایک آدھ سال آگے پیچھے پڑھی تھی۔ تب میری عمر اٹھارہ انیس سال ہوگی۔ لگ بھگ چالیس سال بعد یہ کتاب ایک بار پھر پڑھنی شروع کر دی ہے۔
دوسری بات یہ ہوئی کہ میرے ایک پرانے کلاس فیلو کا مسیج آگیا کہ اس کالم میں تم نے اپنے ہم جماعتوں کے جو نام لکھے ہیں‘ وہ ان میں سے کسی کو نہیں جانتا‘ پھر اس نے انہی کلاس کے چار چھ لڑکوں کے نام لکھے۔ مسیج بھیجنے والا میرا یہ دوست میرا ”زیادہ پرانا‘‘ کلاس فیلو تھا۔ اس زیادہ پرانے کا قصہ بھی سن لیں۔ میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے ایم بی اے کے دوسرے سیشن میں داخل ہوا۔ اس کلاس میں میرے ساتھ نعیم اختر‘ شریف‘ آصف نیازی‘ طارق لودھی‘ ندیم الحق مرزا‘ جاوید احمد‘ ظفر نذیر ہمدانی‘ سید احمد ندیم‘ عزیز احمد‘ اعجاز حیدر‘ منور جاوید‘ اشرف نیاز‘ طلحہ‘ فرخ نسیم انصاری‘ مرزا وحید‘ حسن‘ محمد علی ولانہ‘ رخسانہ‘ شگفتہ بتول اور محمد ارشد پڑھتے تھے۔ ممکن ہے‘ دو چار نام رہ گئے ہوں ‘مگر 37 سال بعد اتنے نام یاد رہ جانا بھی بڑی بات ہے۔ یہ میری پہلے والی کلاس تھی۔ دوسرے سمسٹر میں مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ وجہ لڑائی جھگڑا تھا‘ جو طلبہ کے درمیان ہوا۔ تب میں لڑائی مول لیا کرتا تھا۔ پروفیسر محمود بودلہ صاحب ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے۔ تب زیادہ تر کلاسیں وزیٹنگ اساتذہ لیا کرتے تھے یا دوسرے شعبہ جات کے پروفیسر۔ میتھ اور شماریات کے مضامین ان شعبہ جات کے اساتذہ پڑھایا کرتے تھے۔ اکاؤنٹنگ شیخ تنویر احمد‘ کاسٹ اکاؤنٹنگ ان کے کزن توقیر احمد شیخ پڑھاتے تھے۔ دونوں بڑے صنعتکار تھے‘ بلکہ اب بھی ہیں۔ اکنامکس مرحوم افتخار احمد شیخ پڑھاتے تھے۔ کیا شاندار استاد تھے۔ نہایت ہی غیر روایتی انداز میں پڑھاتے تھے۔ کہتے تھے‘ میں جو پڑھا رہا ہوں‘ آپ اسے پڑھیں اور بھول جائیں کہ میں نے کس طرح پڑھایا تھا۔ سوال کا جواب جس طریقے سے مرضی دیں ‘جواب مضمون کی صورت میں لکھ دیں۔ گراف بنا دیں۔ ٹیبل بنا کر سمجھا دیں یا کوئی اور طریقہ ایجاد کر لیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ آپ ثابت کر دیں کہ آپ کو بات سمجھ آچکی ہے۔ ایک طالب علم کا پرچہ دوسرے سے نہیں ملتا تھا‘ مگر نمبر سب کو مل جاتے تھے ۔بس افتخار صاحب کو یہ سمجھانا تھا کہ ہمیں جواب آتا ہے۔ دوسرے سمسٹر کے اختتام پر طلبہ میں جھگڑا ہوا۔ حسب عادت میں اس جھگڑے میں سب سے آگے تھا‘ لہٰذا دو سال کے لئے نکال دیا گیا۔
اس دوران وی سی نے کہا کہ معافی نامہ لکھ دیں ‘میں داخل کرلوں گا ۔میں نے انکار کر دیا۔ میں کہیں ملتان سے باہر تھا۔ میرا معافی نامہ جمع کروا دیا گیا۔ دوستوں نے خود ہی سے سارا اہتمام کیا۔ ایک دوست نے میرے جعلی دستخط کئے اور درخواست جمع کروا دی گئی۔ واپسی پر دستخط کرنے والے نے بڑے فخر سے مجھے بتایا کہ اس نے میرے دستخط بڑی مہارت سے کئے ہیں۔ میں اگلی بس پر بیٹھ کر یونیورسٹی گیا اور رجسٹرار عرش صدیقی صاحب کو کہا کہ میرے دستخط جعلی ہیں‘ اگر اس معافی نامے کو قبول کیا گیا ‘تو میں عدالت چلا جاؤں گا۔ میرا اور دیگر سب اخراج شدہ طلبہ کے معافی نامے پھاڑ کر پھینک دیئے گئے۔ باقی سب لوگوں نے مجھے بڑی گالیاں نکالیں‘ مگر میں اپنی عادت سے مجبور تھا ‘کیا کرتا؟دو سال بعد دوبارہ داخل ہوا۔ اس دوران کئی یونیورسٹیوں میں داخل ہوا‘ مگر کہیں دل نہ لگا اور کہیں سے اس بنا پر نکال دیا گیا کہ ان دو سال کے دوران میں کسی بھی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ خیر سے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے اور دوبارہ جامعہ زکریا میں داخلہ لے لیا۔ جب داخل ہوئے تھے ‘تب اس کا نام ملتان یونیورسٹی تھا‘ مگر جب پاس ہو کر نکلے‘ تب اس کا نام بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ہو چکا تھا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اب تک یونیورسٹی کے نام کے تبدیل ہونے کا ملال ہے۔ آج بھی باہر لوگوں کو بتانا پڑتا ہے کہ یہ یونیورسٹی ہے اور ملتان میں ہے۔
ایک دوست نے کہا کہ کبھی کبھار اپنے زمانہ طالب علمی بارے بھی کچھ لکھ دیا کرو‘ جو خاصاً دلچسپ ہوگا ‘مگر میں نے اسے کہا کہ جسے تم دلچسپ کہتے ہو‘ اس سے بچوں کے خراب ہونے کا خاصا روشن امکان ہے‘ لیکن اس دوست نے کہا کہ سچ لکھتے ہوئے ڈرنا کیسا؟ سو قارئین! سچ لکھ دیا ہے اور جن کو نہیں پتا تھا‘ ان کو بھی بتا دیا ہے کہ مجھے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے لڑائی جھگڑے کے جرم میں دو سال کیلئے نکال دیا گیا تھا۔ مزید سچ یہ ہے کہ مجھے کسی غلط فہمی میں نہیں‘ بلکہ باقاعدہ اس جرم میں نکالا گیا تھا‘ جو میں نے کیا تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے تب کسی سے ایک بار بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ”مجھے کیوں نکالا‘‘ اللہ رب العزت نے تب بھی اخلاقی حوصلہ عطا کیا ہوا تھا۔صبح جس دوست کا پیغام آیا‘ اسے بتایا کہ برادرِ عزیز! اس کالم میں جو نام لکھے ہیں ‘وہ اس کلاس کے ہم جماعت طالب علموں کے نام ہیں‘ جن کے ساتھ میں نے ”پاس آؤٹ‘‘ کیا تھا‘ یعنی سیشن1982-84ء بندے کو اس امت میں ہونا چاہئے‘ جس کے ساتھ اٹھایا جانا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ ڈگری مکمل کی تھی‘ لہٰذا اب میری کلاس یہی ہے نہ کہ آپ والی۔
اس دوران ہائی کورٹ میں بحالی کے لئے اپیل کر دی۔ کیس لاہور ہائی کورٹ میں لگا۔ تب ملتان بینچ نہیں ہوتا تھا۔ تاریخ بھگتنے لاہور جانا پڑتا تھا۔ وکیل ارشاد قریشی تھے۔ کیس سنگل بنچ سے خارج ہوگیا اور ڈبل بنچ میں لگ گیا۔ یہ کیس جسٹس غلام مجدد مرزا اور جسٹس شکور الاسلام کی عدالت میں تھا۔ جج نے پوچھا لڑائی کی تھی؟ جواب دیا: جی کی تھی۔ پوچھا کیوں؟ جواب دیا: اس عمر میں بھی یہ کام نہ کیا تو کب کریں گے۔ جج صاحب نے کیس ایڈمٹ کر لیا۔ تین سال بعد یونیورسٹی سے ڈگری لے کر فارغ ہوا تو ساتھ ”بیسٹ گریجوایٹ‘‘ کا گولڈ میڈل بھی حاصل کیا‘ اگر تب سابقہ وائس چانسلر ہوتے تو انہیں اس کا بڑا صدمہ ہوتا۔ یہ یادیں ہیں جو انسان کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتیں‘ لیکن؛ اگر یہ نہ ہوتیں تو یاد کرنے کو باقی کیا رہ جاتا؟۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ