ایک مدت کے بعد سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کی یاد آئی۔ یاد بلا وجہ نہیں آتی، کسی بات میں کوئی یکسانیت نظر آئے تو اس بات سے جڑی ہوئی دوسری بات پر آتی ہے۔ سو سردار بلدیو سنگھ کی یاد آ گئی۔ سردار بلدیو سنگھ تلونڈی سابو کا رہنے والا ہے۔ تلونڈی سابو مشرقی پنجاب کے ضلع بٹھنڈہ کا ایک بڑا قصبہ ہے اور اس کی بنیادی وجۂ شہرت سکھوں کے پانچ مقدس تختوں میں سے ایک تخت ہے۔ سری دمدمہ صاحب تلونڈی سابو میں ہے۔
سکھوں کے پانچ مقدس تخت ہیں اور ان میں بھی سب سے زیادہ مقدس اور محترم اکال تخت ہے‘ جو (گولڈن ٹیمپل) دربار صاحب امرتسر میں ہے۔ یہ ایک بڑا کمپلیکس ہے اور اس میں ایک وسیع و عریض تالاب ہے۔ رہائشی کمروں کا ایک سلسلہ ہے اور بہت بڑا گوردوارہ ہے جس کا نام ہرمندر صاحب ہے۔ دوسرا تخت سری کیش گڑھ صاحب ہے۔ یہ بھی مشرقی پنجاب کے ضلع روپڑ (روپ نگر) کے شہر آنند پور صاحب میں واقع ہے۔ آنند پور صاحب 1699ء میں منعقد ہونے والے ”خالصہ پنتھ‘‘ کے حوالے سے بڑا مشہور ہے۔ یہاں سکھوں کے دسویں اور آخری گورو گوبند سنگھ نے سکھ مت کے قواعد طے کیے تھے۔ تیسرا تخت سری دمدمہ صاحب تلونڈی سابو ہے جہاں سردار بلدیو سنگھ رہتا ہے۔ چوتھا تخت سری حضور صاحب ہے جو پنجاب (مشرقی) سے باہر بھارتی صوبہ مہاراشٹر میں ہے اور پانچواں تخت سری پٹنہ صاحب ہے‘ جو بھارتی صوبہ بہار میں ہے۔ ان کی مختلف وجوہات ہیں لیکن فی الوقت تو سردار بلدیو سنگھ کا معاملہ ہے جو مجھے یاد آ گیا ہے۔
قارئین! اس تفصیل کے لیے معذرت جو سردار بلدیو سنگھ کے ذکر کے ساتھ ہی یاد آ گئی ہے۔ سردار بلدیو سنگھ کو تلونڈی سابو کے کسی نواحی شہر میں اعزازی ٹریفک مجسٹریٹ لگا دیا گیا۔ سردار صاحب نے ایک بات طے کر لی کہ وہ اس علاقے میں ٹریفک کا نظام مکمل طور پر ٹھیک کرکے دم لے گا۔ سو بلدیو سنگھ نے ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانے کے لیے ٹریفک پولیس کو نہایت سخت احکامات جاری کر دیئے اور کسی قسم کی رعایت کا تصور ہی ختم کر دیا۔ بلدیو سنگھ نے پہلا حکم جاری کیا کہ سب کے ڈرائیونگ لائسنس چیک کیے جائیں۔ سو ڈرائیونگ لائسنسوں کی چیکنگ شروع ہو گئی۔ چالانوں کی بھرمار ہو گئی۔ بھاری جرمانے عائد کرنے شروع کر دیئے۔ علاقے کے لوگوں نے دھڑا دھڑ ڈرائیونگ لائسنس بنوانے شروع کر دیئے اور ایک آدھ مہینے میں یا تو ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیے یا بلا ڈرائیونگ لائسنس ڈرائیونگ کرنا بند کر دی۔ اب بلدیو سنگھ کی عدالت میں ویرانی چھا گئی۔ بلدیو سنگھ نے نیا حکم نامہ جاری کیا کہ گاڑیوں کے کاغذات کی چیکنگ شروع کر دی جائے۔ اب ایک نئی مصیبت آ گئی۔ بہرحال لوگوں نے جائے امان نہ پائی تو کاغذات مکمل کروا لیے۔ اب پھر عدالت میں الو بولنے لگے۔ اب حکم دیا کہ گاڑیوں کی لائٹیں، بریکیں، دھواں اور اشارے وغیرہ چیک کئے جائیں۔ ایک بار پھر پکڑ دھکڑ اور چالانوں کی بہار آ گئی۔ عدالت میں خوب رونق لگ گئی۔ بلدیو سنگھ نے بھاری جرمانے لگانے شروع کر دیئے۔ یہ سارا موج میلا بھی ایک آدھ مہینہ چلا‘ پھر لوگوں نے مجبور ہو کر گاڑیاں پوری طرح فٹ کر لیں‘ اور بلدیو سنگھ کی عدالت ایک بار پھر ویران ہو گئی۔
اب بلدیو سنگھ نے بڑا سوچا کہ آخر کس بنیاد پر عدالت کی رونق بحال کی جائے، مگر بدقسمتی سے اسے اب اور کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی۔ اس نے سب تھانوں کو ہدایت کی کہ ہر روز صبح ہر تھانہ پانچ موٹرسائیکلوں، پانچ کاروں، پانچ ویگنوں، پانچ بسوں اور پانچ ٹرکوں کا چالان کرکے عدالت میں پیش کرے۔ قصبے میں دو تھانے تھے۔ پہلے ہی روز پچاس چالان آئے تو عدالت میں میلے کا سا سماں پیدا ہو گیا۔ اعزازی مجسٹریٹ سردار بلدیو سنگھ نے پہلے موٹرسائیکل والے کو مبلغ سو روپے جرمانہ کر دیا۔ موٹرسائیکل والے نے تقریباً روتے ہوئے بلدیو سنگھ سے پوچھا: حضور! آپ نے چالان کروا دیا اور اب سو روپے جرمانہ بھی کر دیا ہے لیکن مجھے میرا قصور تو بتایا جائے۔ سردار بلدیو سنگھ مسکرایا اور کہنے لگا: اوئے گونگلو! اگر تم قصور کرنا بند کر دو تو کیا میں انصاف کرنا بھی بند کر دوں؟ عدالت میں کھڑے باقی لوگوں کو اس جواب نے سوال کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔ سو سب بے قصوروں کو عدالت نے جرمانہ کر دیا۔ بلدیو سنگھ کی عدالت میں مسئلہ قصور نہیں‘ بلکہ انصاف کی فراہمی تھا۔
قارئین! ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے بالکل نہیں پتا کہ آخر مجھے سردار بلدیو سنگھ اتنے عرصے کے بعد کیوں یاد آیا ہے اور اگر یاد آنا ہی تھا تو اس کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جو مجھے یاد نہیں آخر یہ عدالتی واقعہ ہی کیوں یاد آیا؟ تو اس کی واحد وجہ جو مجھے سمجھ آئی ہے‘ یہ ہے کہ ملتان سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کی عدالتی حدود سے کہیں باہر ہے اور اس کے انصاف کی حدود کہیں بہت دور بارڈر پر ختم ہو جاتی ہے‘ لہٰذا اس کی جانب سے توہینِ عدالت وغیرہ کا کوئی ڈر نہیں‘ اس لیے اس کے مجسٹریٹی احکامات اور عدل و انصاف بارے جو چاہوں لکھ سکتا ہوں۔ سو اس آزادی اور سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے یہ واقعہ لکھ دیا ہے۔ یادداشتیں ڈائری میں لکھ رہا ہوں۔
اس واقعے سے سردار بلدیو سنگھ کی مجسٹریٹی کا ایک بڑا مشہور واقعہ یاد آ گیا۔ یہ واقعہ آج بھی منسا شہر کے باسیوں کو یاد ہے اور وہ سردار بلدیو سنگھ کی عالمی شہرت یافتہ زعما کے بارے میں معلومات پر رشک کرتے ہیں۔ سردار بلدیو سنگھ تب تلونڈی سابو سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع شہر منسا کے میونسپلٹی مجسٹریٹ تھے اور دفعہ 30 کے اختیارات کے حامل تھے۔ اس کے علاوہ ان کو مصالحتی عدالت کے جج کا چارج بھی ملا ہوا تھا اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان کو ایک خاص نوٹیفکیشن کے ذریعے دفعہ 144 کے نفاذ کا خصوصی اختیار بھی تفویض کر دیا گیا تھا۔ بلدیو سنگھ کی طاقت اس حکمنامے کے باعث کئی گنا بڑھ گئی تھی اور وہ اپنے ان خیالات کے استعمال کے ذریعے علاقے کے لوگوں کی حالت بدلنے کے لیے بہت بے چین تھا۔ لوگوں کی غربت اور خاص طور پر کسانوں کی حالت زار پر دکھی اور ملول بلدیو سنگھ چاہتا تھا کہ وہ اور کچھ نہیں تو کم از کم منسا شہر اور اس کی میونسپلٹی حدود میں لوگوں کی فلاح و بہبود اور خاص طور کسانوں کی مالی حالت سدھارنے کے لیے کچھ نہ کچھ کر جائے۔ اس نے پتا کیا تو کسانوں نے اسے بتایا کہ انہیں کاشت کے لیے پورا پانی نہیں مل رہا۔ نہروں میں پانی کی کمی ہے‘ خاص طور پر ٹیل پر واقع زمینوں کے لیے تو پانی بالکل ہی میسر نہیں۔
ادھر اُدھر کی معلومات اور خاص طور دوسرے ملکوں کے تجربات سے آگاہ سردار بلدیو سنگھ کو یاد آیا کہ ایک بار اس کے ہمسایہ ملک پاکستان میں اِدھر کے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں نے اپنی نہروں میں پانی کی کمی اور ٹیل والے کسانوں کو خاص طور پر پانی کم ملنے کا حل نکالتے ہوئے نہروں کی بھل صفائی کا حکم دیا تھا۔ سو بلدیو سنگھ نے منسا اور ارد گرد کے علاقوں کی نہروں میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے دفعہ 144 کے تحت بھل صفائی کا حکم جاری کر دیا۔ اس بھل صفائی کے لیے اس نے میونسپلٹی کے سارے خاکروبوں، سینٹری ورکروں، سکولوں کے سارے استادوں، طلبہ، سرکاری دفتروں کے کلرکوں اور چپڑاسیوں کی ڈیوٹی لگا کر وہ نہروں کی بھل صفائی کریں۔ اب ہوا یہ کہ سکول بند ہو گئے، میونسپلٹی کا کام ٹھپ ہو گیا۔ دفتروں میں کام رک گیا۔ شہر میں صفائی کی حالت ناگفتہ بہ ہو گئی۔ لوگ اکٹھے ہو کر بلدیو سنگھ کے پاس آ گئے اور عرض کیا کہ سارے شہر کی حالت خراب و خستہ ہے۔
بلدیو سنگھ نے سب سے پوچھا کہ انہوں نے کبھی سر ونسٹن چرچل کا نام سنا ہے۔ دو چار نے سر ہلا دیا۔ بلدیو سنگھ کہنے لگے: جب لندن پر جرمن طیاروں کی بمباری نے ہر طرف تباہی مچا دی تب لوگ اسی طرح برطانوی وزیر اعظم چرچل کے پاس آئے اور رو رو کر فریاد کی کہ شہر جنگ کے باعث برباد ہو گیا ہے۔ چرچل نے پوچھا کہ کیا عدالتی کام کر رہی ہیں؟ جواب ملا: جی کر رہی ہیں۔ چرچل نے کہا: پھر فکر کی کوئی بات نہیں‘ سب کچھ دوبارہ تعمیر ہو جائے گا۔ پھر بلدیو سنگھ نے لوگوں سے پوچھا کہ میری عدالت بھل صفائی کروا رہی ہے؟ سب نے کہا: جی کروا رہی ہے۔ بلدیو سنگھ نے کہا: پھر فکر کی کوئی بات نہیں۔ اگر عدالت بھل صفائی کروا رہی ہے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
قارئین آج اتنا ہی۔ سردار بلدیو سنگھ کی ڈائری سے اگر دو چار مزید واقعات پڑھنے کو مل گئے تو آپ تک پہنچا دوں گا۔ اجازت دیجئے۔ اللہ حافظ۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ