معاشروں میں سیاسی تنوع معمول کی بات ہے بلکہ معمول کی بھی کیا، بڑی مثبت بات ہے کہ یہ تنوع جمہوریت کا حسن ہے۔ تاہم ہمارے ہاں کچھ عرصے سے یہ سیاسی اختلاف باہمی تقسیم کی حد تک پہنچ چکا ہے اور لوگوں کے درمیان سیاسی خلیج اس قدر وسیع ہو گئی ہے کہ برداشت، تحمل، اعتدال وغیرہ جیسے الفاظ بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہم نے اس ملک میں اپنی آنکھوں سے سرخ اور سبز یعنی لیفٹ اور رائٹ کی تقسیم دیکھی ہے بلکہ صرف دیکھی ہی نہیں اس کا حصہ بھی رہے ہیں۔ لیکن تب بھی تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود یہ تقسیم اور اختلاف ہماری روزمرہ کی زندگی کا لازمہ نہیں بنا تھا۔ باہمی بحثوں، مناظروں اور مکالموں کے باوجود ذاتی تعلقات اور معمول کی زندگی اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ ساری تقسیم کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کی تقلید سے زیادہ خالص نظریاتی بنیادوں پر تھی اور لوگ ذہنی طور پر اپنے اپنے نظریات سے وابستگی کی بنیاد پر سیاسی طور پر بٹے ہوئے تھے۔میرے خیال میں نظریاتی بنیادوں پر کیا جانے والا اختلاف کسی خاص سیاسی جماعت سے وابستگی یا کسی خاص لیڈر کی تقلید میں مبتلا ہو کر کیے جانے والے اختلاف سے کہیں زیادہ خالص اور مضبوط ہوتا تھا ۔مگر ہماری سیاست نے ایسا دور بھی دیکھا جب نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود ذاتی تعلقات کے حوالے سے دوست، رشتہ دار، ملنے جلنے والے اور ایک گھر میں رہنے والے تحمل، برداشت، بردباری، احترام اور اخلاقیات سے عاری نہیں ہوئے تھے۔
مقبول سیاسی لیڈر کا تصور ہماری سیاست میں اب کوئی نئی چیز نہیں۔ اس کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی تھی جنہیں تب اس ملک کا (مغربی پاکستان پر مشتمل ملک) پہلا عوامی سطح پر مقبول لیڈر کہا جا سکتا ہے۔ اس ملک میں باہمی سیاسی کشمکش کا آغاز بھی تبھی ہوا جب بھٹو صاحب نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر اس ملک کی سیاست میں ایک نیا تصور پیش کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ ٹانگ کر اس ملک کے غریب، مجبور اور مقہور طبقے کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ تب سوشلزم کے تصور کے ساتھ جڑے ہوئے سارے افراد بھٹو صاحب کے دست و بازو بن گئے۔ اس صف بندی نے ایک نظریاتی کھنچاؤ کا دروازہ کھول دیا۔ سیاست میں دو گروپ ظہور پذیر ہوئے۔ آپ انہیں مذہبی اور لبرل کہہ لیں، دائیں بازو اور بائیں بازو کہہ لیں یا پھر آپ انہیں قدامت پسند اور ترقی پسند کہہ لیں۔ یہ سیاست میں نظریاتی حوالے سے ایک واضح تقسیم تھی۔
اس بات سے فی الوقت کچھ لینا دینا نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ذاتی طور پر کتنے سوشلسٹ اور کتنے جمہوریت پسند تھے مگر انہوں نے کمال ہوشیاری سے ایک پورے طبقے کو سوشلزم کا سبز باغ دکھا کر اپنا دیوانہ بنا لیا۔ یہ کسی مقبول لیڈر کی طرف سے اس ملک کے عوام کو عقیدت کی حد تک اپنے لیڈر کا اندھا مقلد بنانے کی ابتدا تھی۔ ایسا مقلد جو دلیل، منطق، حقائق یا صداقت کے بجائے اپنے لیڈر کی باتوں پر ایمان کی حد تک یقین کرتا تھا۔
میں نے وہ دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ چپقلش، کشمکش اور سیاسی اختلاف زوروں پر تھا۔ نظریاتی حوالوں سے خلیج بڑی واضح تھی۔ یہ سب کچھ طبقاتی طور پر تو تھا لیکن معاشرہ باہمی طور پر ایک دوسرے سے جڑا ہوا تھا۔ ایک گھر کے اندر پیپلز پارٹی کا جیالا بھی تھا اور اس کا قدامت پرست باپ بھی تھا۔ دوستوں کی محفل میں پیپلز پارٹی کے حامی اور مخالف، دونوں ہوتے تھے مگر بدمزگی یا بداخلاقی کا کوئی تصور نہ تھا۔ تب یہ تقسیم پرو پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی کا روپ اختیار کر گئی تھی مگر رشتوں کا احترام، تعلقات کی ڈوری، چھوٹے بڑے کی تمیز بہرحال اس طرح رخصت نہیں ہوئی تھی جس طرح اب دکھائی دے رہی ہے۔
ادھر امریکہ میں ٹرمپ کے سیاسی منظر نامے پر آنے کے بعد ریپبلکنز اور ڈیمو کریٹس کے درمیان کھنچاؤ میں اضافہ ہوا ہے اور درمیانی خلیج زیادہ گہری ہوئی ہے۔ امریکی سوسائٹی پہلے کی نسبت زیادہ متعصب، تنگ نظر اور مغلوب الغضب ہوئی ہے مگر اس ساری صورتحال کے باوجود دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کے مابین تعلقات کی نوعیت اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ امریکیوں کے پاس گفتگو کرنے کیلئے سیاست کے علاوہ سینکڑوں نہ بھی سہی، درجنوں دیگر موضوعات ہیں۔ ہماری طرح نہیں کہ شادی سے لے کر جنازے تک کی صورتحال میں گفتگو کا مرکز و محور صرف اور صرف سیاست ہے۔امریکہ میں میرا تعلق اور رابطہ اپنے پاکستانی دوستوں سے ہے۔ اور مجھے ذاتی طور پر اس بات کا قطعاً علم نہیں کہ صدر ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف ان سات ہفتوں میں کہاں سے کہاں پہنچا ہے لیکن اپنے پاکستانی دوستوں سے ملنے کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ نے بہرحال غیر مقبول ہونے میں خاصی پھرتی دکھائی ہے۔ پچھلی بار امریکہ آیا تو وہاں مقیم پاکستانیوں میں آئندہ امریکی الیکشن کے حوالے سے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈیمو کریٹ امیدوار اور نائب صدر کملا ہیرس پر واضح برتری حاصل تھی۔ لوگ ڈیمو کریٹ صدر جو بائیڈن کی اسرائیل نواز پالیسیوں اور غزہ کی صورتحال میں یکطرفہ حکومتی جھکاؤ کی وجہ سے جو بائیڈن اینڈ کمپنی سے بری طرح نالاں تھے اور امید لگائے بیٹھے تھے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد غزہ کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ جنگ بندی کے علاوہ بے گھر فلسطینیوں کی دوبارہ آباد کاری اور غزہ کی پٹی کی خود مختار حیثیت کو تقویت ملے گی مگر سب کچھ خیالِ خام ثابت ہوا۔
صدارتی الیکشن میں صرف پاکستانیوں نے ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بسنے والے ہر قومیت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت نے ٹرمپ کو ووٹ دے کر کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈالا مگر اب سب مایوس ہیں۔ میں یہ بات کسی لمبے چوڑے تجزیے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے ان تمام دوستوں سے ملنے اور ان کے حالیہ خیالات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو گزشتہ بار ملے تھے تو صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے شدید حامی تھے۔ اب انہیں نہ صرف صدر ٹرمپ کا ناقد پایا بلکہ وہ مایوس بھی دکھائی دیے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مجھے تو آج تک پاکستانی سیاست کی پوری سمجھ نہیں آ سکی کجا کہ میں امریکی سیاست پر اپنی ذاتی رائے یا خیال ظاہر کرکے اپنی نالائقی اور کم علمی کو آشکار کروں۔ میرا مطلق علم میرے امریکہ میں رہنے والے پاکستانی دوست ہیں۔ میں خود سے کچھ کہنے یا دعویٰ کرنے کے بجائے صرف منشی کی طرح وہ لکھ رہا ہوں جو میں نے دیکھا، سنا اور محسوس کیا ہے۔ اگر لکھتے ہوئے میرے تجزیے میں کوئی خامی یا کمی رہ جائے تو ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ میرے ملنے والے دوستوں کی اکثریت کسی ایک نقطہ نظر کی حامی ہو۔ اس لحاظ سے میرا سارا تجزیہ دوستوں کے گروپ پر مشتمل جس سیمپل پر ہے، اس کی کمپوزیشن کے باعث غلط نتائج پر مبنی ہو سکتا ہے مگر پہلے دوستوں کا یہی گروپ تھا جو صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کا حامی تھا اور اب اس کی جیت کے بعد اس کا ناقد ہے۔
یہ بھی اتفاق ہے کہ ٹرمپ کے حامی میرے پاکستانی دوستوں کی اکثریت حسبِ معمول امریکہ میں مقیم دیگر پاکستانیوں کی طرح عمران خان کی حامی ہے۔ گو کہ ان دوستوں میں عمران خان کے ناقد بھی ہیں مگر میں بات اکثریت کی کر رہا ہوں۔ ان دوستوں کو تب یہ یقین بھی تھا کہ ٹرمپ برسر اقتدار آتے ہی عمران خان کی رہائی کیلئے پاکستانی حکمرانوں کو کوئی سخت قسم کا پیغام بھیجے گا اور آدھی رات کو (جب امریکہ میں دن ہوتا ہے، پاکستان میں رات ہوتی ہے) جیل کے دروازے کھل جائیں گے مگر ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔ البتہ ٹرمپ کے تارکین وطن کی امریکہ بدری بارے ایگزیکٹو آرڈر سے ان کے سیون الیون سٹورز پر، گیس سٹیشنوں پر اور دکانوں پر ورکرز کی شارٹیج سے جو مصیبت کھڑی ہوئی ہے،وہ الگ ہے۔ سو ان کی مایوسی تو بنتی ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ