گل محمد دسویں جماعت میں تھا۔ وہ تقریباً ہر مضمون میں بڑا اچھا تھا‘ لیکن ساری خرابی اُردو کے مضمون میں تھی اور سارے مضمون میں بھی کب؟ صرف اُردو کے پرچے میں آنے والے ”مضمون‘‘ کے بارے میں تھی۔ اللہ جانے اس کے دماغ میں کیا آ گیا تھا کہ وہ ہر مضمون کو شروع تو اس کے عنوان سے کرتا اور پھر اس میں اپنا ایک ہی مضمون گھسیڑ دیتا۔ اُردو کے ماسٹر عبدالرشید گورداسپوری نے بڑی کوشش کی کہ گل محمد کوئی دوسرا مضمون یاد کر لے‘ مگر گل محمد اپنے نام کے مصداق ”زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ اپنی ہٹ کا پکا تھا۔ اسے جو بھی مضمون دیا جاتا‘ وہ پہلے چند جملوں کے بعد اپنا پسندیدہ مضمون ”اونٹ‘‘ اس میں فٹ کر دیتا۔
ماسٹر عبدالرشید گورداسپوری نے اسے گھوڑے پر مضمون لکھنے کے لیے دیا۔ گل محمد نے مضمون لکھا ”گھوڑا ایک خوبصورت چوپایہ ہے اور صدیوں سے انسان کا پالتو جانور ہے۔ بار برداری سے لیکر سواری تک ‘یہ ایک کارآمد جانور ہے۔ پرانے زمانے میں گھوڑا جنگوں میں استعمال ہوتا تھا۔ یہ ایک برق رفتار جانور ہے‘ جو میدانی علاقوں میں بہت تیزی سے دوڑتا ہے‘ لیکن ریت میں اس کی کارکردگی بہت بری ہو جاتی ہے۔ ریت پر چلنے کے لیے اونٹ سے بہتر کوئی جانور نہیں (اب اصل مضمون شروع ہو گیا) اونٹ صحرا کا جہاز کہلاتا ہے اور دنیا بھر کے صحراؤں میں آج بھی اس سے بہتر سواری کوئی نہیں۔ یہ کئی دن تک بغیر کھائے پیئے صحرا میں سفر کر سکتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر صحرائے عرب کا جانور ہے‘ جہاں اسے آج بھی صحرائی سفر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جزیرہ نما عرب میں اونٹ پالنا صدیوں پرانی روایت ہے… غرض اس کے بعد سارا مضمون اونٹ پر تھا۔ماسٹر عبدالرشید گورداسپوری نے اپنے 30 سالہ تدریسی تجربے کے دوران ایسا مستقل مزاج ا ور یکسو طالب علم نہ دیکھا تھا ‘جیسا کہ گل محمد تھا۔ ماسٹر صاحب نے درجنوں مختلف قسم کے مضمون لکھنے کو دیئے۔ اور ایسے ایسے مختلف موضوعات پر کہ دور دور تک یہ شائبہ تک نہ تھا کہ اس میں کسی طرح اونٹ کا مضمون سمویا جا سکتا ہے‘ لیکن ”اشکے‘‘ ہے‘ گل محمد پر۔ وہ ہر مضمون کو گھما پھرا کر اونٹ پر لے آتا۔ اس نے گل محمد کو قطب شمالی پر مضمون لکھنے کے لیے دیا۔ گل محمد نے مضمون لکھا۔ قطب شمالی ہماری زمین کا آخری شمالی سرا ہے۔ قطب شمالی سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں رہنے والے اسکیمو کہلاتے ہیں‘ جو برف کے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان گھروں کو ”اگلو‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں سیل‘ رینڈیئر اور برفانی ریچھ پائے جاتے ہیں۔ برف کے وسیع میدان ہیں‘ جو دور سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف چمکدار ریت بکھری ہوئی ہے‘ لیکن یہ ریت نہیں؛ اگر یہ ریت ہوتی تو اسے صحرا کہتے اور پھر یہاں اونٹ ہوتا‘ جو صحرا کا جہاز کہلاتا ہے اور…ماسٹر عبدالرشید گورداسپوری نے کئی دن کی سوچ و بچار کے بعد اسے ”باکسنگ میچ‘‘ پر مضمون لکھنے کے لیے دیا۔ گل محمد نے مضمون لکھا۔ باکسنگ صدیوں پرانا کھیل ہے‘ جو پوری دنیا میں بڑا مقبول ہے۔ پاکستان میں (اس کھیل کی مقبولیت محمد علی کلے کی بدولت حاصل ہوئی۔ محمد علی کلے کا اصل نام کاسیس کلے تھا‘ لیکن اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام تبدیل کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جب محمد علی کلے ‘حج کرنے سعودی عرب گیا‘ تو اس نے پہلی بار زندہ اونٹ وہاں دیکھا۔ اس نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ ٹیڑھا میڑھا جانور کونسا ہے؟ تو اسے بتایا گیا کہ یہ اونٹ ہے‘ جو صحرا کا جہاز ہے اور…
گل محمد کی فنکاری اپنی جگہ‘ لیکن ماسٹر عبدالرشید گورداسپوری‘ اس ساری صورتحال میں اپنے 30 سالہ تجربے کی ایسی تیسی پھر جانے پر بڑے رنجیدہ‘ ملول اور مایوس تھے۔ انہوں نے کئی دن غور کیا اور آخر وہ ایک ایسا موضوع تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ جس کے بارے میں انہیں یقین کامل تھا کہ گل محمد اس مضمون میں اپنا پسندیدہ مضمون اونٹ نہیں ٹھونس سکے گا۔ مضمون کا عنوان تھا ”جمہوریت کے فوائد‘‘۔ گل محمد نے اس پر مضمون لکھا: ”دنیا میں حکمرانی کے کئی طریقے رائج ہیں‘ مثلاً :بادشاہت، آمریت اور جمہوریت۔ ان سب میں سے زیادہ مقبول جمہوریت ہے‘ لیکن اس کے باوجود کئی ممالک میں بادشاہت رائج ہے۔ جزیرہ نمائے عرب میں پہلے تو صرف اور صرف بادشاہت تھی ‘لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں جمہوریت کا چلن ہو گیا‘ تاہم اب بھی وہاں بیشتر ممالک میں بادشاہت قائم ہے۔ ان میں سب سے بڑی بادشاہت سعودی عرب میں ہے۔ اونٹ سعودی عرب کا قومی جانور ہے۔ اونٹ کو صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے اور…
بالآخر ماسٹر عبدالرشید گورداسپوری‘ گل محمد کو پکڑ کر ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئے اور ہیڈ ماسٹر صاحب سے اس بارے شکایت کی کہ یہ لڑکا میری تمام تر محنت، توجہ اور ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اپنی ضد سے باز نہیں آ رہا اور ہر مضمون کو آغاز کے بعد اونٹ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کا کیا علاج کیا جائے؟ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ماسٹر صاحب کی بات سنی اور کہا کہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل نہ نکل سکے۔ ہیڈ ماسٹر نے گل محمد کو اپنے سامنے میز پر بٹھایا اور اسے کہا کہ وہ ”قائداعظم‘‘ پر مضمون لکھے۔ ساتھ ہی ہیڈ ماسٹر نے اسے وارننگ دی کہ اگر اس نے بانیٔ پاکستان کی شان میں کوئی گستاخی کی‘ تو اس کی خیر نہیں۔ گل محمد نے نہایت تابعداری سے سر ہلایا اور کاغذ قلم لے کر مضمون لکھنا شروع کر دیا۔ اس نے دس بارہ منٹ میں اپنا مضمون مکمل کر لیا اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں کاغذ پکڑا دیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مضمون پر نظر ڈالی۔ مضمون تھا:۔
قائداعظم محمد علی جناح ‘بابائے قوم ہیں۔ وہ 25دسمبر 1876ء کو جناح بھائی پونجا کے گھر پیدا ہوئے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ وزیر مینشن کراچی میں پیدا ہوئے؛ حالانکہ وہ ٹھٹھہ کے نواحی قصبے جھرک میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ جب وہ چوتھی کلاس میں زیر تعلیم تھے‘ تب اُن کے سکول کا ایک ٹرپ کلفٹن گیا۔ وہاں ساحل سمندر پر انہوں نے پہلی بار اونٹ کی سواری کی۔ ان کے اس تفریحی دورہ پر بطور نگران ساتھ آنے والے استاد نے بتایا کہ یہ اونٹ ہے اور اسے صحرا کا جہاز بھی کہا جاتا ہے اور… اس کے بعد راوی حسب معمول خاموش ہے کہ ماسٹر عبدالرشید گورداسپوری صاحب کا کیا حال ہوا۔اپنے وزیراعظم عمران خان کو بھی گل محمد کی طرح ایک ہی تقریر یاد ہے‘ جو وہ گزشتہ پندرہ سال سے کر رہے ہیں۔ مجمع جیسا ہو، ملک کوئی سا ہو، سامعین کسی بھی قسم کے ہوں، کانفرنس کسی طرح کی ہو، موضوع کوئی سا بھی ہو۔ اپنے خان صاحب اپنی حکومت کے قیام سے پہلے‘ اس وقت کے حکمرانوں کی کرپشن کے بارے اور اپنی حکومت قائم ہو جانے کے بعد سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے بارے تقریر فرما دیتے ہیں۔ وہ اپنی تقریر کا آغاز تو اس تقریب کے حوالے سے موضوع کے مطابق شروع کرتے ہیں‘ لیکن ایک دو منٹ کے بعد وہ پاکستان کے مسائل پر آ جاتے ہیں اور ملک عزیز کے سارے مسائل کا ملبہ کرپشن پر ڈال دیتے ہیں‘ جو سابقہ حکمرانوں نے کی ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارے بیرونی قرضوں، اداروں کی بربادی، معاشی مسائل اور اقتصادی بدحالی میں بڑا حصہ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کا تھا‘ لیکن اب اس چیز سے نمٹنا وزیراعظم کا کام نہیں‘ بلکہ ان اداروں کا ہے‘ جو اس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اب یہ نیب اور ایف آئی اے وغیرہ کا مسئلہ ہے‘ نہ کہ وزیراعظم کا یا ساری حکومتی مشینری کا۔ حکومت کا کام گڈگورننس کی فراہمی اور مخلوق خدا کے لیے بنیادی سہولتوں کا اہتمام کرنا ہے۔ عدل و انصاف کا بندوبست کرنا اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ عام آدمی کے لیے زندگی کو آسان کرنا اور صحت و تعلیم کی سہولتوں کو اس تک پہنچانا ہے۔کیا کوئی سمجھدار ایسا ہے‘ جو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کو دو باتیں بتا سکے اور سمجھا سکے۔ پہلی یہ کہ وہ وزیراعظم پاکستان ہیں ‘نہ کہ چیئرمین نیب۔ دوسری یہ کہ اب وہ کسی سمجھدار آدمی سے دوسری تقریر لکھوا لیں۔ بطور وزیراعظم پاکستان کے لیے ان کی سابقہ تقریر بالکل متروک ہو چکی ہے۔ خاص طور پر چین میں تو انہیں گزشتہ دور پر رونا دھونا کرنے کی بجائے پاکستان کے روشن مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا چاہئے تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ