اگر معاملہ صرف مشاعرے کا ہوتا تو میں یہ کالم ہرگز نہ لکھتا کہ مشاعرے پڑھنا تو روٹین کی بات ہے اور بھلا اس پر کالم کیا بنتا ہے؟ لیکن شارجہ کا مشاعرہ دراصل مشاعرہ نہیں تھا بلکہ یہ مشاعرہ ایک بہت بڑے ایونٹ کا محض ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔ لیکن مجھے بھی اس کا اندازہ نہ تھا اور بھلا ہوتا بھی کیسے؟ شارجہ پہنچنے تک اس پورے ایونٹ کا پتا ہی نہیں تھا۔
میں مشاعرے بارے کافی لاپروا واقع ہوا ہوں۔ نہ زیادہ تفصیلات میں جاتا ہوں اور نہ بہت زیادہ کریدتا ہوں۔ ٹکٹ آ گئی اور چل پڑے۔ ساتھی شاعر نے پوچھا کہ کون لینے آئے گا؟ میں کہتا ہوں: جو بھی لینے آئے گا اس کے ساتھ چلے جائیں گے۔ پرائے ملک میں ایئرپورٹ پر کیا بنے گا؟ جواب دیا: بھائی! جس نے پاکستان سے یہاں ٹکٹ بھیج کر بلوایا ہے وہ ایئرپورٹ سے ضرور لے گا۔ آخر اس نے مشاعرہ پڑھوانا ہے۔ سو بے فکر ہو جائیں۔ ہوٹل پہنچ گئے۔ کسی ساتھی نے دریافت کیا کہ مشاعرہ کس جگہ ہے؟ میں کہتا ہوں: میاں! فکر کس بات کی؟ منتظمین میں سے کوئی نہ کوئی آئے گا اور ہمیں مشاعرہ گاہ لے جائے گا۔ بھلا اس نے ہمیں ہوٹل میں ٹھہرانے کے لیے تو نہیں بلایا۔ وہ خود ہی آئے گا اور وہاں لے جائے گا جہاں مشاعرہ ہے۔ لہٰذا میں نہایت بے فکر اور بے پروا رہتا ہوں۔ یہی کچھ شارجہ کے مشاعرے میں ہوا۔
فون آیا کہ یہاں شارجہ میں مشاعرہ ہے۔ یہ زندہ دلان کا مشاعرہ ہے۔ دراصل یہ ”زندہ دلان‘‘ والا مشاعرہ دوبئی کی پرانی روایت تھی اور کئی سال تک یہ ”مشاعرہ زندہ دلان‘‘ کے نام سے باقاعدہ ہوتا رہا۔ اس کے روح رواں سید اظہر زیدی تھے۔ پھر ڈاکٹر اظہر زیدی کو فالج ہو گیا۔ زبان بند ہو گئی۔ چلنے پھرنے سے معذوری نے سب کچھ لپیٹ کر رکھ دیا۔ پھر یوں ہوا کہ معذوری میں بہت افاقہ ہوا لیکن بولنے کی معذوری رہی۔ مشاعرہ ‘زندہ دلان‘ خواب و خیال ہو گیا۔ میں نے یہ مشاعرہ دو بار پڑھا اور پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ اب شارجہ سے فون آیا کہ مشاعرہ زندہ دلان ہے لیکن دوبئی کے بجائے اس سے متصل شہر شارجہ (جو متحدہ عرب امارات کی سات میں سے ایک ریاست بھی ہے) میں ہو رہا ہے۔ اسے بزم اردو نے ترتیب دیا ہے اور اس مشاعرے کو اس کے بانی ڈاکٹر سید اظہر زیدی سے منسوب کیا ہے۔ میں نے ہاں کہہ دی۔
دوبئی ایئر پورٹ پر اترا تو جہاز سے اترتے ہی ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص پر نظر پڑی۔ اس کے ہاتھ میں میرے نام کی تختی تھی۔ چلیں لاؤنج سے باہر نکلنے پر ایسی تختی پر نظر پڑتی تو حیرانی نہ ہوتی مگر جہاز سے نکلتے ہی؟ ایسا کبھی پہلے تو نہیں ہوا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ہی خالد مسعود ہوں تو وہ مجھے ساتھ لیکر امیگریشن کاؤنٹر پر گیا۔ ساتھ والے کاؤنٹرز پر قطاریں لگی ہوئی تھیں مگر وہ مجھے بالکل علیحدہ والے کاؤنٹر پر لے گیا اور ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں میرا ویزہ چیک ہوا اور امیگریشن کی مہر لگا کر پاسپورٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ باہر نکلے تو ایک اور آدمی میرا منتظر تھا۔ یہ مقامی عربی تھا اور توب پہنے ہوئے تھا۔ مجھے اس کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ باہر نکلا تو ایک جہازی سائز کی گاڑی میری منتظر تھی۔ میں اس میں ”تشریف فرما‘‘ ہو گیا اور گاڑی مجھے لیکر ہوٹل روانہ ہو گئی۔ یہ شارجہ اور عجمان کی سرحد پر واقع ”ہوٹل شیرٹن شارجہ بیچ ریزواٹ‘‘ تھا۔ ساحل سمندر پر واقع پانچ ستارہ ہوٹل۔ قارئین! آپ یقینا اس وقت پیچ و تاب کھا رہے ہوں گے کہ میں اپنے پروٹوکول اور اعلیٰ ہوٹل کا ذکر کرکے چسکے لے رہا ہوں لیکن تھوڑا توقف کر لیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ ہوٹل کے اندر پہنچا تو اس گاڑی سے نکلتے ہی ایک اور شخص نے لپک کر میرا استقبال کیا اور اندر لے گیا۔ وہ مجھے لیکر استقبالیہ کاؤنٹر پر جانے کے بجائے ایک طرف بنے ہوئے ایک عارضی کاؤنٹر پر لے گیا۔ اس کاؤنٹر پر بڑا بڑا لکھا ہوا تھا ”شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر‘‘۔ اب مجھے تھوڑا تھوڑا سمجھ آنا شروع ہوا کہ معاملہ کیا ہے۔
مجھے دیکھتے ہی کاؤنٹر پر موجود ایک خاتون اور ایک صاحب آگے بڑھے اور پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے نام بتایا۔ انہوں نے کمپیوٹر میں نام چیک کیا اور کہا کہ آپ کمرے کی چابی لیں اور آرام کریں۔ صبح کا ناشتا دوسری منزل پر P-2 پر ہے۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں ہوگا۔ آپ مہمان ہیں اگر کوئی تکلیف یا مشکل ہو تو ہم سے فون پر رابطہ کریں۔ یہ ہمارا ایکسٹینشن نمبر ہے۔ شارجہ انٹرنیشنل بک فیر پر 2018ء میں خوش آمدید۔
شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر کا آغاز اب سے چھتیس سال قبل 1982ء میں شارجہ کے موجودہ حکمران ڈاکٹر شیخ سلطان بن محمدالقاسمی نے کیا تھا۔ ان چھتیس سالوں میں اس ”کتاب میلے‘‘ نے نہ صرف یہ کہ بڑی ترقی کی بلکہ پہلے سے بہتر اور بڑا ہوتا گیا ہے۔ 2011ء میں اس کی تیسویں سالگرہ تھی۔ تین عشرے مکمل ہونے پر اس کی شہرت دنیا کے ہر اس کونے تک پہنچ چکی تھی جہاں کتاب شائع ہوتی ہے اور دنیا بھر کے بڑے بڑے ناشرانِ کتاب اس کتاب میلے میں شرکت کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ علم دوست اور کتاب سے محبت کرنے والے شارجہ کے حکمران ڈاکٹر شیخ سلطان بن محمدالقاسمی‘ جو بذات خود تاریخ دان ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی‘ کی ذاتی دلچسپی اور حکومتی سطح پر اس کتاب میلے کی ترویج و اہتمام نے یہ جادوگری دکھائی ہے کہ خلیج کی اس چھوٹی سی ریاست میں ہونے والا یہ بین الاقوامی کتاب میلہ دنیا کا تیسرا بڑا ”بک فیئر‘‘ ہے۔ دنیا بھر میں یہ تیسرا بڑا کتاب میلہ عالم اسلام کا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے۔
اس کتاب میلے میں دنیا بھر سے شاعر، ادیب، افسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ رائٹر، ٹی وی اور فلم کے اداکار، ٹی وی اینکرز اور میزبان‘ غرض ہر ادبی صنف اور اس سے جڑے ہوئے فیلڈ سے بڑے نام آتے ہیں۔ 2011ء میں اس کتاب میلے میں بھارت سے ممبر لوک سبھا اور مصنف ششی تھرور، ادیب لکشمی نائر، برطانوی نژاد بھارتی ادیب رسکن بونڈ کے علاوہ درجنوں دیگر ادیبوں نے شرکت کی۔ 2012ء میں ہونے والے اس کتاب میلے میں بھارتی فلم و ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ کے سابق چیئرمین اور مشہور اداکار انوپم کھیر، شہرہ آفاق بھارتی ادیبہ ارون دتی رائے، انڈین ناول اور افسانہ نگار بنیامین، بھارت ہی سے مشہور پبلشر اور رائٹر نمیتا گوکھالے، پنکج مشرا، ملیالم زبان کے ناول نگار پال زچاریہ، نیپالی ادیب سمرت اپادھیئے، ملیالم زبان کے ہی ایک اور نثر نگار سیٹھ مدہاوان، سری لنکا کے ادیب شیہان کروناتیلاکا، برطانیہ میں رہائش پذیر بنگلہ دیشی ادیبہ تہمیمہ انعم اور بھارتی گلوکارہ و ادیبہ ودیا شاہ نے شرکت کی تھی۔ 2013ء میں ایسے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی تعداد مزید بڑھ گئی۔ اس سال تریپن ممالک کے ایک ہزار سے زائد اداروں اور پبلشروں نے اس کتاب میلے میں شرکت کی۔ اس کتاب میلے میں قریب 180 زبانوں میں چھپی ہوئی کتابوں نے اپنا رنگ جمایا۔ اس سال دیگر درجنوں ادیبوں کے علاوہ بیسٹ سیلر آتھر لارڈ جیفری آرچر، لبنان کا وزیر ثقافت گیبی لیون، بھارت کے سابق صدر اے پی جے عبدالکلام، لبنانی ناول نگار نجویٰ برکات، مصری ناول نگار یوسف القعید، الجزائری ناول نگار واسینی الاعرج، لبنانی شاعر زاہی وہبی شریک ہوئے۔ یہی حال 2014‘ 2015‘ 2016 اور 2017ء میں رہا۔ دنیا بھر سے ممتاز دانشور، ادیب اور فنکار اس کتاب میلے کا حصہ بنے۔ 2017ء میں یہ بک فیئر دنیا کا تیسرا بڑا کتاب میلہ بن گیا۔
مجھے بڑا ملال ہے کہ 2017ء میں دنیا بھر کے ساٹھ ممالک سے 1600 پبلشرز نے اس کتاب میلے میں شرکت کی مگر سرکاری سطح پر پاکستان کا حصہ اس میں صفر تھا۔ نہ ہی کسی پاکستانی ادیب اور شاعر کو سرکاری سطح پر مدعو کیا گیا۔ تاہم وہاں مقیم پاکستانیوں نے بھارت کے اردو بولنے والوں سے مل کر بزم اردو کے نام پر اس میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ گزشتہ سال ہونے والے بک فیئر میں انہیں ٹیسٹ کے طور پر چھوٹا ہال بھرنے کا ٹارگٹ ملا جو انہوں نے پورا کر لیا۔ اس بار انہیں بڑا ہال بھرنے کا ٹارگٹ ملا۔ دو ہزار کرسیوں والے ہال میں اس روز اٹھائیس سو کے لگ بھگ سامعین تھے۔ اگلی بار شاید اس سے زیادہ مناسب حصہ مل جائے لیکن پاکستان کے پبلشرز اور اردو کتابوں کے کسی سٹال کی غیر موجودگی میں مجھے بڑا عجیب لگتا ہے کہ رسم الخط سے قطع نظر عربی کے بعد امارات میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو کا اس پورے بک فیئر میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ بھارت کے بہت سے پبلشرز اور بک سٹال شارجہ میں میرا منہ چڑا رہے تھے۔ اب بھلا ایسے میں مشاعرے بارے کیا لکھا جا سکتا ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ