گزشتہ ہفتے میں نے کپاس کی فصل پر ایک کالم لکھا تھا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں بذات خود ایک طالب علم ہوں اور کوشش کرتا رہتا ہوں کہ سیکھتا رہوں۔ بے شمار ایسے موضوعات ہیں جن کے بارے میں اس عاجز کو رتی برابر علم نہیں۔ ان موضوعات کو تو میں چھیڑتا بھی نہیں کہ خواہ مخواہ کی جگ ہنسائی مول نہ لی جائے۔ کچھ معاملات ایسے ہیں کہ ان پر صاحبِ علم لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر تھوڑا بہت علم حاصل کیا ہے اور ان موضوعات پر جو کچھ سیکھا ہے اس کے حساب سے تھوڑا بہت لکھ لیتا ہوں اور اس لکھے پر جو اصحاب ِعلم درستی فرماتے ہیں اس کو بھی پلے باندھ لیتا ہوں اور اگر پلے کچھ نہ پڑے تو پھر انہی صاحبِ علم دوستوں سے رابطہ کرتا ہوں۔ تھوڑا بہت خود تلاش کر کے پڑھ لیتا ہوں۔ میرے آقا ﷺ نے فرمایا کہ ”آدھا علم یہ ہے کہ تو کہہ، میں نہیں جانتا‘‘۔
گزشتہ ہفتے والے کالم کے حوالے سے ایک قاری نے GM Agriculture یعنی Genetically Modified Agriculture کے حوالے سے بھارت میں Monsanto کے بیجوں کے حوالے سے ایک کتاب Seed of Destruction’ جس کا مصنف William Engdahl ہے‘ کا حوالہ دیا۔ ہر معاملے میں عموماً دنیا بھر میں دو آرا ہوتی ہیں اور دور کیوں جائیں؟ ہر دوائی کے Leaflet پر اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات یعنی Side effects کا ذکر بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ بعض اوقات نقصانات کو (خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو) بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے‘ اور بسا اوقات یہ الٹ بھی ہوتا ہے یعنی فوائد کو بھی ”نیل کے ساحل سے لکیر تابخاک کا شغر‘‘ بڑھا چڑھا کر بیان کر دیا جاتا ہے اور ہم تو ویسے بھی کسی نہ کسی انتہا پر کھڑے رہنا پسند کرتے ہیں۔
فی الوقت میں GM ٹیکنالوجی کا مقدمہ نہیں لڑ رہا کہ اس میں واقعتاً کئی خرابیاں ایسی سنی ہیں کہ اس عاجز کا دل بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنانے پر راضی نہیں‘ اور اس میں ایک خرابی جس کے بارے میں سنا ہے (اس پر میری تحقیق صفر ہے اس لیے اس کے درست ہونے یا غلط ہونے کے بارے میں بھی وثوق سے کچھ کہنے کے قابل نہیں ہوں) وہ Terminated Seed ہے۔ اس سے مراد ہے کہ GM ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیویلپ کیا گیا یہ بیج صرف ایک بار ہی استعمال ہو سکتا ہے۔ ویسے تو اس قسم کا ہائبرڈ بیج پاکستان میں بڑے عرصے سے استعمال ہو رہا ہے اور یہ بیج مکئی کی فصل کے لیے نہ صرف استعمال ہو رہا ہے بلکہ پاکستان میں بہت زیادہ مقبول بھی ہے۔ اس بیج نے پاکستان میں مکئی کی فصل کا سارا نقشہ ہی تبدیل کر دیا ہے اور فی ایکڑ پیداوار اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ بیج پاکستان میں درآمد ہو کر آتا ہے اور اس کے ویسے تو کئی مینوفیکچرر ہیں لیکن پاکستان میں دو کمپنیوں کے مکئی کے ہائبرڈ بیج بہت زیادہ مقبول ہیں۔یہ دو کمپنیاں Monsanto اور SYNGENTA ہیں۔ اس کے علاوہ پائینر بھی یہ بیج پاکستان میں درآمد کرتی ہے۔ مکئی کے علاوہ سورج مکھی کی فصل میں بھی ہائبرڈ بیج استعمال ہو رہا ہے جو سارے کا سارا درآمد ہو کر ہی آتا ہے اور ان ہائبرڈ بیجوں کے طفیل ہماری مکئی اور سورج مکھی کی فصلیں ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ فی ایکڑ پیداوار دے رہی ہیں۔ عشروں سے ان ہائبرڈ بیجوں کی ہماری دیگر فصلات اور زمین پر کوئی منفی اثرات دیکھنے میں نہیں آیا۔
البتہ Terminated seed کے بارے میں یہ سننے میں آیا کہ دنیا بھر میں زرعی صنعت کی پانچ بڑی دیوہیکل کمپنیوں نے‘ جو عملی طورپر دنیا بھر کی زراعت سے متعلق مصنوعات کی مارکیٹ کو کنٹرول کرتی ہیں‘ اس سلسلے میں ایکا کرکے پوری دنیا کی زرعی منڈی کو آپس میں تقسیم کر لیا ہے اور مختلف مصنوعات کی مناپلی کے ذریعے وہ آئندہ چند برسوں میں پوری دنیا کی زراعت کو اپنے کنٹرول میں لے آئیں گی اور اس کا بنیادی ذریعہ یہی Terminated seedہوں گے۔ یہ بیج صرف ایک بار استعمال ہوں گے اور ان بیجوں سے حاصل کردہ فصلات سے حاصل ہونے والے بیج اگاؤ کی صلاحیت سے مکمل محروم ہوں گے۔ ان بیجوں سے اگنے والی فصلات کے لیے نئی قسم کی کھادیں ہی استعمال ہو سکیں گی جو صرف یہی کمپنیاں بنائیں گی اور سب سے خطرناک بات جو سننے میں آئی (میں اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ باتیں حقیقت ہیں یا فسانہ مگر جو سنا وہ بتا رہا ہوں) وہ یہ تھی کہ جن کھیتوں میں ایک بار یہ بیج بار آور ہو جائیں گے وہاں اس ٹیکنالوجی کے علاوہ والے روایتی بیج نمو پانے سے مکمل محروم ہو جائیں گے یعنی پھر ہم انہی کمپنیوں کے تیار کردہ بیجوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں استعمال ہونے والے مکئی اور سورج مکھی کے بیج اور تقریباً ساری سبزیوں کے ہائبرڈ بیج اسی ٹیکنالوجی کے حامل ہیں کہ آپ انہیں ایک سال کاشت کریں‘ بھرپور فصل لیں اور اگلے سال اسی فصل سے حاصل کردہ بیج کو کاشت کریں تو نہ فصل ویسی ہوگی اور نہ ہی پیداوار۔ لہٰذا آپ اگلے سال پھر انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے نئے سرے سے بیج خریدیں اور کاشت کریں۔ ہمارے ہاں صدیوں سے یہی طریقہ کار مروج تھا کہ آپ نے کہیں سے اچھا بیج خریدا اور پھر کئی سال تک اس بیج کی حاصل کردہ فصل سے گھر کا بیج تیار کر لیا لیکن اب ہمارا کسان اس چیز کا عادی ہو گیا ہے کہ اسے مکئی، سورج مکھی اور سبزیوں کا بیج ہر سال مارکیٹ سے خریدنا ہے‘ حالانکہ یہ بیج حیران کن حد تک مہنگا ہے اور عام آدمی اگر اس کی قیمت سنے تو پریشان ہو جائے لیکن حاصل کردہ فصل کی پیداوار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا کاشتکار یہ مہنگا بیج خریدتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اس خرچے کے مقابلے میں اسے جو آمدنی حاصل ہوگی وہ نسبتاً بہت زیادہ ہوگی۔ اس عام سی بات کو سمجھنے کے لیے ضروری نہیں کہ کاشتکار معاشیات کا طالب علم ہو اور اس نے اکنامکس کا Law of Marginal Utility جس کا اردو ترجمہ دراصل انگریزی سے بھی مشکل ہے تاہم لکھ کر اپنا فرض پورا کر رہا ہوں تاکہ اردو دان حضرات اسے اگر نہ بھی سمجھ سکیں تو کم از کم آئندہ کے لیے آسان کرنے کے بارے میں کوئی عملی قدم ضرور اٹھائیں۔ ترجمہ ہے ”سیمانت افادیت کا قانون‘‘ یا ”حاشیائی افادیت کا قانون‘‘ تاہم اس کے معنی ہیں کہ خرچے کے مقابلے میں اضافی فائدہ۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ دنیا بھر کی ہائبرڈ ٹیکنالوجی سے بیج تیار کرنے والی کمپنیاں سبزیوں، مکئی اور سورج مکھی وغیرہ کے لیے تو ایسا بیج تیار کرنے میں کامیاب ہو گئیں جو ہر سال نئے سرے سے خریدنا پڑے اور کاشت کیا جا سکے لیکن ابھی تک وہ کپاس کا ایسا بیج تیار نہیں کر سکیں؛ تاہم Monsanto نے کپاس کا ایسا بیج تیار کرلیا جو کئی نقصان دہ کیڑوں مثلاً امریکن سنڈی، چتکبری سنڈی، لشکری سنڈی اور گلابی سنڈی وغیرہ کے حملے سے محفوظ تھا۔ اس کی ٹیکنالوجی یہ تھی کہ انہوں نے بیج میں ایک ”جین‘‘ داخل کر دیا جو اگنے والے پودے کو ان کیڑوں کے حملے سے مکمل محفوظ کر دیتا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا بیج Bollgard-I کہلایا۔
دنیا اس وقت اس بیج کی تیسری جنریشن یعنی Bollgard-III کی کاشت کر رہی ہے جبکہ ہم ابھی تک اس ٹیکنالوجی سے محروم ہیں اور ہر سال اربوں روپے کا زرمبادلہ کپاس کے ضرر رساں کیڑوں کی تلفی کے لئے درآمد کی جانے والی زرعی ادویات پر ضائع کر رہے ہیں۔ لیکن مزے کی بات ہے پاکستان بھر میں غیر قانونی طور پر درآمد کیا گیا Bollgard-I کا بیج ہر جگہ استعمال ہو رہا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کی آب و ہوا اور زمین سے مطابقت نہ رکھنے کے باوجود اس بیج کی کاشت سے ملکی کپاس کی فصل کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ کپاس کی فصل میں بہتری کا پہلا اور سب سے ضروری فیکٹر اچھا بیج ہے اور ہم عشروں سے ایک اچھے بیج کو ترس رہے ہیں۔ (جاری)
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ