دو جنوری 2019 کو ایک سو ایک سالہ میجر جیفری ڈگلس لینگ لینڈز اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اخبار میں ان کے انتقال کی خبر عمران خان کے ایچیسن کالج کے استاد کے طور پر آئی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ وزیر اعظم کا استاد ہونے کی خبر میجر جیفری کی شخصیت، ایثار، پاکستان سے محبت اور خدمات کے حوالے سے بہت معمولی ہے۔ وہ ایک ایسا فرد تھے‘ جس نے اپنی ساری عمر پاکستان میں تعلیم کیلئے وقف کر دی۔ برطانوی قصبے ہ±ل میں 21 اکتوبر 1917ءمیں پیدا ہونے والے جیفری ڈگلس لینگ لینڈز 1918ءمیں یعنی ایک سال کی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔ گھر کے مالی حالات انتہائی نامساعد اور خراب تھے۔ ماں پر تین بچوں کی پرورش کا بوجھ تھا اور مصیبت پر مصیبت یہ آن پڑی کہ ان کی ماں کو کینسر ہو گیا۔ دس سال کی عمر میں وہ ماں کے سائے سے بھی محروم ہو گئے۔ ان کی پرورش کی ذمہ داری تب ان کے آنجہانی والد کے ایک دیرینہ دوست نے سنبھال لی۔ وہ کنگز کالج کا ہیڈ ماسٹر تھا۔ جیفری کو سکول میں مفت تعلیم کی سہولت مل گئی۔ یہ جیفری کی زندگی کا نیا آغاز تھا۔
جیفری کو شروع سے ہی استاد بننے کا شوق تھا۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز بطور استاد ہی کیا لیکن تبھی جنگ عظیم دوم کا آغاز ہو گیا۔ جیفری نے فورتھ کمانڈو رجمنٹ جوائن کر لی۔ یہ ان کی زندگی میں دوسرا اہم موڑ تھا۔ جنگ عظیم دوم کے دوران وہ مختلف محاذوں پر دادِ شجاعت دیتے رہے۔ جنگ کے خاتمے پر انہیں ہندوستان بھیج دیا گیا۔ 1947ءمیں ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ تقسیم کے بعد رائل انڈین آرمی کے گورے افسروں کی غالب تعداد واپس برطانیہ چلی گئی۔ میجر جیفری نے برطانیہ واپس جانے کے بجائے پاکستان میں رہنا پسند کیا اور رضا کارانہ طور پر ایک سالہ سروس کے تحت پاکستانی فوج کو تربیت دینا شروع کر دی۔ انہیں 1948ءمیں واپس برطانیہ چلے جانا تھا لیکن اگلے چھ سال اسی کام میں مصروف رہے؛ تاہم اس شش و پنج میں رہے کہ برطانیہ واپس چلے جائیں یا پاکستان میں رہیں۔ اسی اثنا میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف نے ان سے درخواست کی کہ وہ واپس برطانیہ جانے کے بجائے یہیں پاکستان میں اپنی صلاحیتوں کو سویلین سیکٹر میں بروئے کار لائیں۔ میجر جیفری لینگ لینڈز نے 1953ئٓ میں ایچی سن کالج میں استاد کی ذمہ داری سنبھال لی اور پھر وہ یہاں 1979ءتک یعنی 26 سال مختلف درجوں میں پڑھاتے رہے۔ وہاں سے فراغت کے بعد وہ کیڈٹ کالج رزمک چلے گئے۔ 1947ءمیں ایک سالہ رضاکارانہ سروس کی غرض سے پاکستان میں رہ جانے والے گورے کو اب پاکستان میں رہتے بتیس سال ہو چکے تھے۔ جذام کے حوالے سے پاکستان میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دینے اور جذام کے خاتمے میں مرکزی کردار سرانجام دینے والی فرشتہ صفت جرمن خاتون رتھ فاﺅ کی طرح جیفری نے بھی اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔
کیڈٹ کالج رزمک سے فراغت کے بعد میجر جیفری فارغ نہیں بیٹھے۔ انہوں نے چترال کے Sayurj Public School میں پرنسپل کے فرائض سرانجام دینا شروع کر دیے۔ 1988ءمیں انہیں اغوا کر لیا گیا۔ اغوا کار انہیں چھ گھنٹے پیدل چلاتے ہوئے اپنے گاﺅں لے گئے۔ اغوا کاروں کو بعد ازاں جرگے کے دباﺅ پر کسی تاوان کے بغیر میجر جیفری کو رہا کرنا پڑا۔ اغوا کاروں نے تب صرف ایک مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ رہائی کے بعد میجر صاحب سیدھا چترال پہنچے اور اپنے سکول میں تدریسی اور انتظامی فرائض سنبھال لیے۔ Sayurj پبلک سکول میں تب طلبہ کی تعداد محض اسی تھی اور اس میں لڑکیاں بھی تھیں اور لڑکے بھی۔ یہ میجر جیفری ڈگلس لینگ لینڈز کی ایک نئی زندگی کا نقطہ آغاز تھا۔
میجر جیفری ہر سال اس سکول میں ایک کلاس کا اضافہ کرتے رہے۔ ان کا زیادہ زور لڑکیوں کی تعلیم پر تھا۔ وہ اس سکول کے ساتھ بیس سال وابستہ رہے تاوقتیکہ ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس وقت کالج کے طلبہ کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ چکی تھی اور ایک تہائی سے زائد لڑکیاں تھیں۔ فالج کے حملے کے بعد میجر جیفری نے سکول کے لیے نئے پرنسپل کی تلاش شروع کر دی۔ اس ذمہ داری کے لیے انہیں کسی نوجوان برطانوی فوجی افسر کی تلاش تھی مگر تب پاکستان میں دہشت گردی اور امن وامان کی خراب صورتحال کے پیش نظر کوئی برطانوی پاکستان آنے کو تیار نہیں تھا۔ اوپر سے تنخواہ بھی صرف پینتیس ہزار روپے ماہانہ، یعنی محض دو سو پاﺅنڈ سے تھوڑی زیادہ۔ بھلا اتنی معمولی تنخواہ میں کون پاگل تھا جو چترال آتا؟۔ تاہم میجر جیفری مایوس نہ تھے۔ انہیں امید تھی کہ کوئی نہ کوئی ان جیسا سرپھرا ضرور یہاں آئے گا اور ان کی جانشینی کا فریضہ سنبھال لے گا۔ 2012 میں ان کی تلاش رنگ لے آئی۔ تب میجر جیفری کی عمر پچانوے سال ہو چکی تھی جب وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے اور برطانیہ سے کئی کتابوں کی مصنفہ، صحافی اور کئی پرائمری سکولوں کی گورنر، اٹھاون سالہ مس کیری شوفیلڈ نے چترال جیسے دور دراز اور پسماندہ علاقے میں ”لینگ لینڈز سکول اینڈ کالج چترال“ کی پرنسپل کے طور پر فرائض کا آغاز کیا۔ کالج کا نام Sayurj پبلک سکول سے تبدیل کرکے میجر جیفری ڈگلس لینگ لینڈز کے نام پر رکھ دیا گیا تھا۔ پچانوے سالہ میجر جب اپنی پچھتر سالہ عملی زندگی گزار کر ریٹائر ہوئے تب ان کی تنخواہ پچیس ہزار روپے یعنی تقریباً ڈیڑھ سو برطانوی پاﺅنڈ ماہانہ تھی۔ ساری عمر مجرد زندگی گزارنے والے لینگ لینڈز کے بقول یہ تنخواہ ان کیلئے کافی سے زیادہ تھی۔
میجر لینگ لینڈز کو ان کے سارے شاگرد‘ جن کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں میں ہے‘ صرف ”میجر“ بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں ”دی میجر“ کہتے ہیں۔ میجر کو برطانیہ یاد تو آتا مگر ان کے نزدیک اب برطانیہ میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ باپ سے وہ ایک سال بعد اور ماں سے دس سال بعد جدا ہو گئے تھے۔ عمر کا بیشتر حصہ یعنی قریب چوہتر سال برصغیر میں گزار دیے۔ اب بھلا وہ برطانیہ جا کر کیا کرتے؟ چترال میں وہ چترالی ٹوپی پہنتے تھے‘ اس میں ایک پر ٹانکتے تھے اور چترال سے محبت کرتے تھے۔ جس روز میجرصاحب ریٹائر ہوئے اس دن طلبہ و طالبات نے ان کے اعزاز میں پارٹی کا اہتمام کیا۔ میجر جیفری نے اس روز روایتی چترالی ڈانس کیا اور چارج برطانیہ سے آنے والی مس کیری شوفیلڈ کے حوالے کر دیا۔ وہ مطمئن تھے کہ اب ان کے کالج کا انتظام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ کالج کے انتظامی اور تدریسی معاملات کا بندوبست کرنے کے بعد جیفری لاہور آ گئے‘ جہاں ایچی سن کالج والوں نے ان کے لیے ایک کمرے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ پچانوے سالہ (2012 میں) کنوارے سابق فوجی افسر اور استاد نے جس جانفشانی، محنت اور محبت کے ساتھ پاکستان میں تعلیم اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کیے رکھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ میجر لینگ لینڈز کے چترال والے سکول کی فیس کا موازنہ کہیں اور کے نہیں چترال کے مقامی سکولوں سے بھی کیا جائے تو اتنی کم فیس پر حیرانی ہوتی تھی اور خود میجر لینگ لینڈز کی اپنی تنخواہ کا بھی یہی حال تھا۔
میرا میجر جیفری سے تعارف ایک ٹویٹر کے ذریعے فروری 2015 میں ہوا تھا۔ اس سے قبل میں اس عظیم آدمی سے قطعاً ناواقف تھا۔ میجر لینگ لینڈز کے ایک ٹویٹر نے ان کی ذات کی طرف متوجہ کیا۔ میں نے پکا ارادہ کیا کہ جب بھی لاہور گیا پہلی فرصت میں میجر کو ملوں گا۔ ارادے اور تکمیل کے درمیان کتنی دوری ہے؟ اس کا احساس کل ہوا جب ایک معلم، ایک سولجر، ایک داستان گو، کوہ پیما اور سب سے بڑھ کر ایک اعلیٰ انسان جو تعلیم کو کاروبار نہیں خدمت اور استاد ہونے کو پیشہ نہیں، جذبہ سمجھتا تھا رخصت ہو گیا اور میرے لیے ملال چھوڑ گیا۔ ایسے کردار تو اب صرف کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ میں محمد علی کلے کو ملنا چاہتا تھا۔ بچپن سے ہی۔ پہلے اس کی توفیق نہ تھی اور جب ہوئی تب وہ قوت گویائی اور چلنے پھرنے سے معذور ہو چکا تھا۔ تب میں چاہتے ہوئے بھی انہیںملنے سے از خود دستبردار ہو گیا۔ میں رنگ میں اچھلتے، کودتے، گانا گاتے، مذاق کرتے اور حریف کا تمسخر اڑانے والے اپنے ہیرو کو اس حال میں دیکھنے پر دل کو راضی نہ کر سکا۔ اب جیفری لینگ لینڈز بھی چلے گئے۔ رات گئے میں نے شفیق کو لاس اینجلس فون کیا اور اسے کہا کہ وہ باسکٹ بال کے کھلاڑی کریم عبدالجبار کا پتا کرے کہ وہ لاس اینجلس میں کہاں رہتا ہے۔ میں اب ادھر آ تو اسے مل کر ہی جاﺅں گا۔ زندگی کا کیا پتا؟ کب سانسوں کی ڈوری کٹ جائے اور کیا خبر کس کی؟
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ